اجڑی گود، خالی آنگن اور بھیگا دسمبر


قدرت نے بھی ماں کی تخلیق میں کیا کمال رکھا ہے۔ اذیت کی انتہا کو جھیل کر اپنے وجود سے ایک ننھی جان کو تخلیق کرنے والی یہ مائیں۔ اپنی اولاد کی پہلی کلکار کو سن کر اپنے سب درد بھول جانے والی مائیں۔ ہاں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اپنی لاڈلی بیٹی کو کم چاہتی ہیں، مگراپنے لاڈلے کے لیے تو چھپ چھپ کر دعائیں مانگ مانگ کر منتیں ترلے کرکے خدا سے بھی لڑ کر پیدا کرنے والیں مائیں۔ اپنے سوہنے لعل کی سلامتی کے لیے کوئی دعا دم کوئی درود نہیں چھوڑنے والی یہ مائیں۔

اپنے پلو سے اپنے لعل باندھ کر رکھتیں ہیں یہ ڈری ڈری سی مائیں۔ اپنے ہنستے کھیلتے کھلونے کو سینت سینت کر سنبھال کر رکھنے والی مائیں۔ جب ان کا ننھا منا سا چاند ان کے آنگن کو اپنی ہنسی کی کرنوں سے سجادیتا ہے تو چھپ چھپ کر اس کی بلائیں لیتیں یہ ممتا کی ماری مائیں۔ ناز اٹھا تیں پلکوں پر بٹھاتیں یہ جان وار دینے والی مائیں۔ کیسے فخر سے سب کو بتاتیں ہیں میرا بیٹا تو بس میرے پیچھے پیچھے گھومتا ہے پاپا کے پاس تو جاتا نہیں ہے۔ ارے اس کو تو بس ماں ہی چاہیے ہوتی ہے۔ یہ تو بس میرے ہاتھ سے ہی کھاتا ہے۔ میں نہ سلاؤں تو سوتا نہیں ہے۔

اگر باپ نے ذرا سا کچھ کہہ دیا تو شوہر کے سارے ادب آداب بھول بھال کر بیٹے کی ڈھال بن کر سامنے آجانے والی مائیں۔ اگر ذرا سا یہ کہہ دیا کہ تمہارے لاڈ پیار سے بگڑ رہا ہے تو برا مان جانے والی مائیں۔ اپنے شہزادے کے لیے کیسے کیسے خواب سجاتی یہ جھلی مائیں۔ اپنے لاڈلے کے لیے چاند سی بہو کی تمنا کرنے والی یہ پیاری پیاری مائیں۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے منے کے یونی فارم کو استری کرتیں لنچ باکس بناکر دیتیں یہ کام کرتی مائیں۔

کبھی ناشتے کی فکر تو کبھی کھانے کی فکر اپنا آپ بھول کر بس جان وارنے کو تیار مائیں۔ اپنے بیٹے کی شرارتوں پر پردہ ڈالنے والیاں ذرذرا سی تکلیف پر تڑپ کر رہ جانے والی مائیں۔ جو کبھی بیٹے کو بخار ہوگیا تو ڈاکٹر کی جان کو آنے والی مائیں۔ اگر ذرا سی دیر ہوجائے تو آنگن میں ننگے پیر چکر کاٹ کاٹ کر پاگل ہونے والی مائیں۔

ان ممتا کی ماری ماؤں نے کب یہ سوچا ہوگا کہ جب دسمبر بھیگے گا تو ان کی ساری زندگی بنجر کرجائے گا۔ کب ایسا سوچا ہوگا جس لاڈلے کی ذرا سی خراش سے ان کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے اس کی خون میں ڈوبی لاش دیکھ کر اپنے صبر کو آزمانا ہوگا۔ اپنے بھیانک سے بھیانک سپنے میں یہ کب دیکھا ہوگا کہ جو انگلی پکڑ کر پاؤں پاؤں چلتا تھا وہ انگلی چھڑا کر منوں مٹی نیچے جاسویا۔ کب گمان میں ہوگا کہ سولہ دسمبر کا بھیانک دن ایسی قیامت بن کر ٹوٹے گا کہ جس کے بعد وہ زندہ لاشیں بن کر رہ جائیں گی۔

اپنے ہاتھوں سے جن یونی فارموں سے سیاہی کے داغ اتارتی تھیں اب ان پر لگے خون کے داغ اپنے لاڈلے کی آخری یاد سمجھ کر سینے سے لگاکر رکھنے ہوں گے۔ کب خیال کیا ہوگا کہ اس ستم ڈھاتے سولہ دسمبر کے دن کو ان کا لاڈلا آج ان سے آخری بار مل رہا ہے پھر تو بس خوابوں میں ملے گا۔ جس کو سپنوں میں خدا سے مانگا وہ خواب بن کر رخصت ہو جائے گا۔ کہاں سے لائی ہوں گی اپنے چاند کا آخری نظارے کا حوصلہ۔ کس دل سے اس کو سفر آخرت کی طرف بھیجا ہوگا۔

جب اس کی چیزیں دیکھتی ہوں گی تو کیسے قابو رکھ پاتی ہوں گی یہ اجڑی مائیں۔ اگر یہ مائیں پنے جان کے ٹکڑوں کے ساتھ اس قیامت کی گھڑی میں ساتھ ہوتیں تو یقین ہے مجھے اپنی جان وار کر بھی اپنے لاڈلوں کو بچالیتیں۔ کیسے کیسے تڑپی ہوں گی کیسے کیسے ماتم کیے ہوں گے اپنے خالی گھر کو دیکھ کر، کیسے ریزہ ریزہ ہوکر رہ گئی ہوں گی یہ بلکتی مائیں۔ کون سی تعزیت کیسی تعزیت کیا حواسوں میں رہ پائی ہوں گی ایسی قیامت جھیلتی یہ مائیں اب تو آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہوگئے ہوں گے ان آنسو بہاتی ماؤں کے۔

جتنا کہہ لیا جائے جتنا لکھ لیا جائے کم ہے اولاد چھننے کے غم سے بڑا تو کوئی غم نہیں ہوتا ہوگا اور جو ایسے کوکھ اجڑی اس کا نوحہ اس کا پرسہ کوئی کیا دے سکے گا۔ آج چار سال بعد بھی اپنے کھلے دروازے کو تکتی ہوں گی یہ پاگل مائیں اور ہاں جب اپنی اجڑی کوکھ، سونا آنگن اور اس بھیگتے دسمبر کو دیکھتی ہوں گی تو ایک بار تو ضرور آسمان کی طرف شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھتی ہوں گی یہ تڑپتی سسکتی زندہ درگور مائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).