کرتار پور صاحب اور گورو نانک کی چار اداسیاں


تقسیم ہندوستان سے پہلے یہ حصہ گورداس پور صاحب میں شمار کیا جاتا تھا لیکن منقسم کے بعد یہ جگہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے تحصیل شکر گڑھ، ضلع ناروال، کے گاؤں ”کوٹھے پنڈ“ کے حصے میں آئی جو دریاِ راوی کے مغرب کے جانب واقع ہے، جس کے ساتھ مشرق کی جانب خاردار تاروں والی بھارتی سرحد ملحق ہے۔ سر حد کے اُس پار ایک اور مقدس جگہ ہے جہاں بابا جی اکثر جایا کرتے تھے وہ ہے ”ڈیرہ بابا نانک جی“۔ جو کہ ضلع گورداس پور صاحب کے حصے میں آتا ہے۔ بھارتی حکومت نے اس گورودوارہ پر ایک اونچا درشن ستھل قائم کیا ہے اور اس ستھل یعنی جگہ پر ایک دوربین کو نصب کیا گیا تا کہ لوگ وہاں سے اس پاک اور مقدس جگہ (گورودوارہ سری کرتار پور صاحب ) کا دیدار کر سکیں۔

ان دونوں گورودواروں کا درمیانی فاصلہ محض 11 کلیو میٹر ہے لیکن مذہب اور سیاست کے نام پرتاریخ میں کی گئی، اس دھرتی کی ہولناک خونی تقسیم نے اس فاصلے کو میلوں اور سالوں کے مشکل ترین سفر میں بدل دیا۔

چونکہ یہ جگہ راوی کے قریب سو اسی وجہ سے ایک مرتبہ یہاں پر سیلاب آیا اور یہاں کی قدیم عمارت کو اپنے ساتھ بہا کے لے گیا تھا۔ لیکن 1920 ء تا 1929 ء کے عرصہ میں پٹیالہ کے مہاراجہ سردار بھوپندر سنگھ نے از سر نو اس کی تعمیر کروائی، ان تعمیرات کے دوران 135600 روپے خرچ کیے گئے۔ اس کے بعد 1995 ء میں حکومتِ پاکستان نے اس کی دوبارہ تعمیر کروائی۔ پاکستان اور ہندوستان کے تلخ تعلقات اس مقدس جگہ پر بھی اثرانداز ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آزدی کے بعد بھی چھپن سالوں تک یہاں کوئی بھی عقیدت مند نہ آسکا اور یہ گورودوارہ بھی بابا جی کے پیروں کار کی آمد اور دیدار کے واسطے ترستا رہا۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی 21، 22 اور 23 ستمبر 2018 کو بابا جی کا جوتی جوت دیہاڑ یعنی وہ دن جب بابا جی ہمیں خیر آباد کَہ گئے تھے، بڑی عقیدت کے ساتھ منایا گیا۔ جس میں مجھ ناچیز سمیت کئی عقیدت مند اور پیروں کاروں نے شرکت کی۔ میں صبح صادق ناروال شہر پہنچا اور وہاں سے شکر گڑھ کے لیے رکشہ کروا کر گورودوارے صاحب گیا۔ امرت ویلہ یعنی صبح صادق کے وقت کی اہمیت صدیوں سے کیوں بیان کی جاتی ہے اس کا علم مجھے اُس دن ہوا۔

سڑک کے اطراف پر لہلہاتی فصلیں مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے نظر آرہی تھی اور طلوعِ آفتاب کا منظر تو قیامت ڈھانے والا تھا۔ گویا سورج کو خاص میرے لیے روشن کیا گیا ہو۔ آپ کو بتا دوں کہ میں نے بہت سے مناظر کی عکس بندی کی ہے لیکن اُس دن سورج میاں کو اتنے سنگھار کے ساتھ اپنی ڈولی یعنی مشرق سے نکلتے ہوئے براہِ راست دیکھنا خود میں ہی قدرت کا ایک انمول تحفہ اور غضب بھرا نظارا تھا۔ ایسا منظر میری ان آنکھوں کو پہلے کبھی بھی نصیب نہ ہوا تھا۔ ہر وہ شعاع جو سورج سے نکل رہی تھی اُس کی بدولت سورج کا عکس مجھ میں اتر رہا تھا، یہ ایک دلفریب نظارہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ میری زبان پر محض ”سبحان تیری قدرت“ کی صدائیں بَلند ہو رہی تھیں۔

اس کے بعد جب ہم پکی سڑک جو ناروال سے شکر گڑھ جاتی ہے سے اتر کر کچی سڑک جو براہِ راست گورودوارہ صاحب جاتی ہے، اس پر اتر آئے۔ اس کچی سڑک کے آغاز میں ہی بورڈ نصب کیا گیا تا کہ جانے انجانے میں مسافر آگے نہ نکل جائے۔ اترتے ہی یہاں کی ہریالی نے بھی خیر آمد کا سندیش دیا لیکن جب معطر ہواؤں نے مجھے چھوا تو یقین کریں ان کا اثر روح تک جا پہنچا، جسم میں ایک سرد سی لہر دوڑی، آس پاس کے پرندوں کا اپنے انداز میں رب کے گن گانا میری سماعتوں کے لیے خوش کن احساس تھا۔

کچھ ہی دیر میں مَیں گورودوارہ صاحب پہنچا وہ لمحہ جس میں گرودوارے کے سپیکروں سے شبد ( سکھ مت میں ربی کلام کو جب ہارمونیم اور طبلے کے سر کے ساتھ گایا جاتا ہے تو شبد کہلاتا ہے۔ ) کی آواز، آس پاس کی ہریالی، سرسبز پتوں پر وہ شبنم کے قطرے، شبنم کے قطروں پر روشنی کا پڑنا اور قوس قزاح کی رنگینیوں میں تبدیل ہونا، وہ صدیوں پہلے کی زندہ ثقافت، یوں لگا گویا قدرت نے اس وقت کا میرے ہی لیے خاص اہتمام کیا ہو۔ میں نے ان خوبصورت لمحات کو فوراً موبائل میں قید کیا اور اندر گیا۔ سامان ایک جگہ ٹھکانے لگایا، ہاتھ منھ دھویا اور گورودوارہ صاحب جاکر ماتھا ٹیکا (سکھ مت کی مقدس کتاب سری گورو گرنتھ صاحب کے سامنے سر جھکانا اور اپنا ماتھا زمین پر لگانے کو ماتھا ٹیکنا کہتے ہیں۔ ) اور باہر آکر لنگر کھایا اور برتن دھونے کی سیوا کی۔ تین دن کب کیسے گزرے علم ہی نہ ہوا اگرچہ عکس گری میں ایسے کچھ لمحے میں نے تاقیامت قید کر لیے ہیں۔

پتہ نہیں آپ یہ سب سمجھ سکیں گے یا نہیں لیکن یہ تین دن میرے لیے کتنے انمول تھے یہ میں ہی جانتا ہوں۔ عقیدت، محبت اور آنسوؤں سے سرشار، زمین کو چومتے سکھ برادری کے لوگوں کو دیکھ کر مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کس طرح حکومتِ پاکستان کا شکریہ ادا کروں کہ جس نے یہ صدیوں کی دوریاں ہمارے درمیان سے مٹا ڈالی تھیں۔ میں جنرل باجوہ، وزیراعظم عمران خان صاحب اور خاص طور پر نوجوت سنگھ سدھو پاجی کا بہت ممنون ہوں کہ جن کی ان گنت کوششوں سے کرتار پور صاحب کوریڈور کا اہتمام کیا گیا۔

اگرچہ ابھی کچھ ایسی بھی چیزیں تھیں جن پرہمیں مستقبل میں مزید توجہ دینی چاہیے مثلاً گورودوارہ صاحب کے قریب، اتنی تعداد میں جوق در جوق آنے والے زائرین کے لیے صرف دو دکانیں ہیں جہاں پکوڑے، سموسے اور بوتلیں بکتی ہیں اس کے علاوہ دس بیس کلو میٹر تک قریب کوئی دکان نہیں یعنی جو آپ ساتھ لے کر جائیں گے بس اسی پر تین دن گزارا کریں۔ دوسرا بڑا مسئلہ وہاں رہائش یا کم از کم رات گزارنے کا ہے۔ کمروں کی تعداد بہت ہی کم ہے اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ٹینٹ میں گزارا کرنا پڑتا ہے، سبزہ دار علاقہ ہونے کی بدولت وہاں رات کا موسم سرد ہو جاتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ جگہ کی کمیابی ہو، جگہ تو کافی موجود ہے جہاں ان کثیر زائرین کے لیے مزید رہائش گاہیں بنائی جا سکتی ہیں۔

اسی طرح گورودوارہ صاحب کا لنگر ہال بہت ہی چھوٹا ہے۔ آخری مرتبہ جب میں گیا تو وہاں ہر سال کی طرح اس سال بھی لنگر ٹینٹ میں تقسیم کیا گیا اور ایک دن (غالباً 23 ستمبر کو) اچانک ہلکی پھلکی بوندیں پڑنے لگیں جس کی وجہ سے لوگ گھبرا گئے اور اٹھنے لگے، اور پھر موسم کے رحم کھانے پر ہی کھانا کھا سکے۔ اسی طرح موبائل نیٹ ورکس اور کار پارکنگ کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ سیلاب سے بچنے کے لیے چار دیواری اور کسی آفتِ خداوندی، حادثے یا ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے بھی کچھ انتظامات ہونے چاہئیں۔

گورودوارہ صاحب کا دیوان استھان جہاں گورو گرنتھ صاحب کا پاٹھ کیا جاتا ہے، گربانی پڑھی جاتی ہے اور شبد کا اوچارن کیا جاتا ہے دوسری منزل پر ہے۔ دیوان استھان کے لیے جو سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں وہ اتنی تنگ ہیں کہ ایک وقت میں ایک ہی فرد اوپر جا سکتا ہے یا نیچے آ سکتا ہے۔ یوں اس وجہ سے وہاں رش کافی بڑھ جاتا ہے اور بالفرض جو کوئی معذور ہو تو اُس کی لاچارگی، بے بسی اور دیدار نہ کرنے کی حسرت کو تو آپ سمجھ ہی سکتے ہوں گے ۔

میں خود کو پاکستان کا ایک ایسا حصہ سمجھتا ہوں جو اس دھرتی سے آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے جڑا ہوا ہے۔ میرے اور مجھ جیسے کئی سکھ مذہب سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ دھرتی ایسی ہی پوتر اور مقدس ہے جیسی ہماری جان۔ خدا پاکستان اور میرے پیارے دوستوں کو سلامت رکھے جو مجھ سے، کسی بھی مذہبی یا نسلی تعصب کے بغیربے حد محبت کرتے ہیں۔
پاکستان زندہ باد!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2