بنام منصف اعلیٰ


انسان فضاؤں اور خلاؤں میں، شاہراہوں پر یا چاردیواری کے اندر جہاں بھی ہٹ دھرمی، ڈھٹائی، بے احتیاطی اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرے گا وہاں اس کے ساتھ حادثہ ہونا اٹل ہے۔ حادثات اور آفات کو انسان کی قسمت سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ جاپان کے خلاف امریکہ کی ایٹمی جارحیت غفلت نہیں بلکہ بدترین فرعونیت تھی، اس سانحہ میں جاپانیوں کی قسمت کاکوئی دخل نہیں تھا، ایک عالمی ولن نے ”ہیروشیما“ پر شب خون مارا تھا۔ ہمارے ملک میں ہر برس آنے والے سیلاب آفات کے زمرے میں نہیں آتے کیونکہ جو ریاست بروقت سیلاب سے بچاؤکی تدبیر نہیں کرے گی یقینا اس کے شہروں اور شہریوں کو بڑے پیمانے پر املاک کی بربادی اور اموات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بیشترواقعات میں کسی ایک انسان کی غفلت کاخمیازہ بیسیوں، سینکڑوں یاہزاروں انسانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کہاجاتا ہے اگرکسی قوم کامزاج سمجھنا ہو تو وہاں کی شاہراہوں پر گاڑیوں کے نظام آمدورفت کو سمجھ لیاجائے، ہمارے ہاں بھی زیادہ تر شہریوں کی گاڑیاں یا سواریاں شاہراہوں پردوڑتی نہیں بلکہ دندناتی اور دوسروں کو روندتی ہیں کیونکہ وارڈنز کو ٹریفک کنٹرول کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ چالان کرنے کا جنون ہے، شہرلاہور سمیت مختلف شہروں میں وارڈنز جان بوجھ کرچھپ کر کھڑے ہوتے ہیں، انہیں شہریوں کی طرف سے قوانین کی خلاف ورزی کا انتظار رہتا ہے۔

اگر وارڈنز سگنل کے بالکل پاس اور نمایاں اندازسے ڈیوٹی دیں تو یقینا قوانین کی خلاف ورزی اور حادثات میں نمایاں کمی آئے گی۔ شاہراہوں پرباوردی اہلکار تعینات کرنے کا مقصد شہریوں میں سزا کا ”ڈر“ پیدا کرنا اور اس ڈر کے زور پر قوانین کی پاسداری یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اگر واقعی شہریوں کی زندگیاں بچانا مقصود ہے تو ارباب اختیار اپنی نیت درست، شاہراہوں کو مرمت کریں اور انہیں رات کو روشن رکھیں جبکہ وارڈنز سے وہ کام لیا جائے جس کی انہیں تنخواہ دی جاتی ہے۔

اداروں کے قیام اور قوانین کا بنیادی مقصد شہریوں کو ذہنی اذیت نہیں سہولیات دینا ہوتا ہے، تاہم قوانین کا مذہبی ومعاشرتی اقدار اور انسانوں کی نفسیات سے مطابقت رکھنا ازبس ضروری ہے۔ ایک طرف safe city کے نام پر شہر لاہورمیں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے لئے اربوں روپے صرف کیے گئے ہیں، یقینا ان کا مقصد شرپسندعناصر کو شناخت کرنا اور دہشت گردی روکنا ہے، دوسری طرف گاڑیوں میں سوار شہریوں کی شناخت یقینی بنانے کے لئے سیاہ پیپر لگانے کی اجازت نہیں ہے۔

پاکستان مسلسل کئی برسوں سے حالت جنگ میں ہے اور ہم نے ہزاروں شہیدوں کے جنازے اٹھائے ہیں۔ سماج دشمن عناصر کی سرگرمیاں مانیٹر جبکہ خدانخواستہ خطرات سے بروقت نبردآزما ہونے کے لئے شاہراہوں پر ہزاروں کیمرے نصب کیے گئے ہیں، ماضی میں بھی ہیلمٹ شناخت چھپانے کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے جبکہ اب توموٹرسائیکل پر سوار دونوں افراد کے لئے ہیلمٹ کی پابندی ضروری قراردے دی گئی ہے، گویا شرپسندوں کو اپنا چہرہ چھپانے کا قانونی جواز فراہم کر دیا گیا۔

پاکستان ایک اسلامی مگر پسماندہ اور ناخواندہ ریاست ہے، اس ملک میں یورپ کے قوانین رائج نہیں کیے جا سکتے۔ ارباب اقتدار و اختیار یاد رکھیں ”مغرب۔ “ کے قوانین ”مشرق“ میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یورپی ملکوں اور پاکستان کے نظام ٹریفک میں زمین وآسمان کا فرق ہے، ہیلمٹ کے حامی اس مصیبت کے نقصانات سے آگہی کے لئے شہرلاہورکی شاہراہوں پر دو چاردن بالخصوص رات کے وقت ہیلمٹ کے ساتھ موٹرسائیکل پر ڈرائیوکر کے دیکھیں انہیں سمجھ آجائے گی، میں وثوق سے کہتا ہوں کہ غیرمعیاری ہیلمٹ استعمال کرنے کے نتیجہ میں زیادہ حادثات ہوں گے۔

موٹرسائیکل سوارمرد حضرات کے پیچھے بیٹھنے والی باپردہ خواتین کے لئے ہیلمٹ کی پابندی اسلامی اقدار کے ساتھ ایک بھونڈامذاق ہے۔ ہماری فضا میں گروغبار یعنی آلودگی ہے اور بیشتر لوگ سانس کے مسائل سے دوچار ہیں ان کے لئے ہیلمٹ الٹا مسائل پیداکرے گا۔ ہمارے ہاں زیادہ تر شہری اپنی اپنی موٹرسائیکل پراپنے دو، تین یا چاربچوں کوتعلیمی اداروں اور چھٹی کے بعد واپس گھروں تک چھوڑتے ہیں، کوئی بعید نہیں چند روز بعد ان کے لئے بھی ہیلمٹ پہننا ضروری قرار دے دیا جائے۔

ہمارے معاشرے میں وہ لوگ بھی ہیں جوکئی کئی عیدوں پر بھی نیا لباس نہیں بنواتے اور اپنا وجود کپڑانما چیتھڑوں میں چھپائے پھرتے ہیں مگر ان کے لئے ہزاروں روپے کا ہیلمٹ ناگزیر قراردے دیا گیا ہے۔ کیا صرف ہیلمٹ زندگی کی حفاظت کے لئے ناگزیر ہے، کبھی ارباب اقتدارواختیار نے موٹرسائیکل سوارسے پوچھا اس نے پیٹ بھر کھانا بھی کھایا ہے یا نہیں، بیماری کی صورت میں دوا کی قیمت ادا کرنے کی سکت ہے اس میں۔ جس معاشرے میں بھوک، افلاس، ظلم وزیادتی اور نا انصافی کے سبب اپنے ہاتھوں سے اپنی بیش قیمت زندگی ختم کرنے کارجحان بڑھ رہا ہ ووہاں ہیلمٹ کسی کی جان کیا خاک بچائے گا۔ جو زندگی کو ایک بوجھ سمجھتا ہو اس کو ہیلمٹ میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔

ہمارے ہاں زیادہ تر حادثات شہریوں کی مجرمانہ غفلت اور قوانین سے عدم واقفیت یا ان کی عدم پاسداری کے نتیجہ میں رونما ہوتے ہیں لہٰذا موٹرسائیکل سواروں کی زندگیاں بچانے کے لئے ہیلمٹ سے زیادہ قوانین کی پابندی ناگزیر ہے۔ وارڈنز قوانین کی پاسداری یقینی بنانے سے زیادہ شہریوں کے چالان کرنے پرزوردے رہے ہیں۔ ایک طرف شہری ہزاروں روپے صرف کر کے غیرمعیاری ہیلمٹ پہن رہے ہیں اور دوسری طرف جولوگ بوجوہ ہیلمٹ نہیں پہن رہے وہ بھی ہزاروں روپے کے چالان برداشت کررہے ہیں یعنی دونوں صورتوں میں پیسہ شہریوں کی جیبوں سے نکل کرمخصوص تجوریوں میں جا رہا ہے۔

ہیلمٹ کی فروخت کا مقصد شہریوں کی زندگی بچانا نہیں بلکہ چین سے ناقص ہیلمٹ کی امپورٹ سے وابستہ مخصوص افراد کو مالی فائدہ پہنچانا ہے۔ دنیا کے مہذب ومتمدن ملک اپنے ہاں ہونیوالے حادثات اور سانحات کی منظم اندازسے تحقیقات اور مستقبل میں ان سے بچاؤ کی موثر منصوبہ بندی کرتے ہیں، تاہم دنیا کی کوئی ریاست سوفیصد حادثات نہیں روک سکتی۔ محض شاہراہوں پر حادثات رونما نہیں ہوتے بلکہ شہریوں کے ساتھ چادرچاردیواری کے اندربھی دلخراش حادثہ پیش آجاتا ہے۔

حادثات اور سانحات دریاؤں، سمندروں اور فضاؤں میں بھی ابن آدم کاتعاقب کرتے ہیں، تاہم زمینی یعنی شاہراہوں پر ہونیوالے حادثات میں اموات کے اعدادوشمار آسمانی حادثات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ اگرحادثات اور ان کے نتیجہ میں ہونیوالی اموات کے اعدادوشمارکا بغورجائزہ لیا جائے تواس میں موٹر سائیکل سوار فوت شدگان کی گنتی برائے نام ہے اور ان میں بھی زیادہ سے زیادہ دو فیصد شہری اپنے سرمیں شدید چوٹ لگنے سے جاں بحق ہوتے ہیں، زیادہ تر بڑی گاڑیوں کی ٹکر لگنے یا ان کے نیچے کچلے جانے سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، فور ویلر گاڑیوں کے درمیان حادثات زیادہ اموات کاسبب بن رہے ہیں۔

ہیلمٹ ایک حفاظتی تدبیر ہے مگر ناگزیر نہیں، جس قسم کے ہیلمٹ ان دنوں شہریوں کے زیراستعمال ہیں وہ ان کی جان نہیں بچا سکتے بلکہ وہ الٹا خطرہ بن رہے ہیں، موٹرسائیکل سوار کے ساتھ حادثہ پیش آنے کے خطرے یا امکان سے انکار نہیں کیاجاسکتا لیکن یہ سوفیصد یقینی نہیں ہوتا۔ دوسری طرف جہاں سوفیصد موت یقینی ہے وہاں اس کام کے لئے مخصوص ریاستی ادارے پوری طرح خاموش ہیں۔ منشیات کے عادی پل پل یقینی موت کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن ان کی زندگیاں بچانے کے لئے ریاست کے پاس کوئی نظام یا پروگرام نہیں ہے، یہ بیش قیمت ”جہاز“ کرپش نہ ہوں اس کے لئے سرکاری سطح پر بحالی مراکز کا قیام ناگزیر ہے۔

کیا منشیات استعمال کرنیوالے انسان نہیں، کیا ان کے لئے ریاست ماں کی مانند نہیں ہے، کیا انہیں بچانے کے لئے ریاست کے پاس کوئی رستہ نہیں۔ پچھلی کچھ دہائیوں کے دوران جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت نے منفعت بخش تجارت کاروپ دھارلیا ہے، ہمارے کچھ پیارے اپنی زندگی بچانے کے لئے جعلی ادویات استعمال کر کے بے موت مارے جاتے ہیں، قوم کوبتایاجائے ان اموات کوروکنے کے لئے ریاست اور عدالت نے کیا اقدام کیا ہے۔ عطائی اور نیم حکیم بھی سرعام انسانی زندگی سے کھلواڑکررہے ہیں۔

شیرخوار بچوں اور خواتین سمیت ہرعمرکے شہری جانے انجانے میں مصنوعی یعنی جعلی دودھ استعمال کررہے ہیں جوزہرقاتل ہے، کیا ریاست جعلی دودھ کی تیاری، فروخت اور اس کے نقصانات سے انکار کرسکتی ہے۔ کیا مردار اور حرام جانوروں کا گوشت شہریوں کے لئے موت کا سبب نہیں بنتا۔ غلاظت سے آلودہ پانی زہرکی طرح شہریوں کی رگ رگ میں سرائیت کررہا ہے اور ہمارے پیارے آدم خوریرقان کی خوراک بن رہے ہیں۔ شہریوں کی زندگیوں کے ساتھ ہمدردی صرف ہیلمٹ کی پابندی تک محدودکیوں ہے۔

موٹرسائیکل پر تو ہر کوئی سوار ہو کر شاہراہوں کارخ نہیں کرتا مگر جعلی دودھ، جعلی ادویات اور ملاوٹ زدہ اجناس سے تو ہر کسی کا واسطہ پڑتا ہے۔ جس تخت لاہورمیں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے اندر جعلی ادویات نے 480 قیمتی جانیں لی ہوں اور آج تک اس قومی سانحہ میں ملوث کسی کردار کو سزا نہ ملی ہو، جس پنجاب میں متعدد معصوم بچے وینٹی لیٹر اور مناسب طبی سہولیات نہ ہونے کے سبب لقمہ اجل بنے ہوں، جس شہرلاہور کے واحد چلڈرن ہسپتال میں نامناسب طبی سہولیات کے نتیجہ میں روزانہ کی بنیاد پر 130 سے 150 بچوں کا انتقال ہو جائے، جس شہر میں جناح ہسپتال کے سوا کسی سرکاری ہسپتال میں برن یونٹ نہ ہو وہاں انسانی جان کی پرواہ کا دعویٰ جھوٹ ہے۔ ہیلمٹ کی پابندی پر ”زور“ شہریوں کی جان بچانے کے لئے نہیں بلکہ ان سے ”زر“ ہتھیانے کے لئے ہے۔ شہریوں کے لئے آسانی کاراستہ قانون کی حکمرانی سے ہوکرجاتا ہے، قانون کی حاکمیت ہوگی تو یقینا لاہورسمیت مختلف شہریوں میں شہریوں کا قتل عام ہوگا اور نہ شاہراہوں پربے ہنگم ٹریفک کے سبب حادثات ہوں گے۔

شاہراہوں پر ہونے والے دلخراش حادثات کا تدارک یقیناً ریاستی اداروں کا فرض ہے، شہریوں کی بیش قیمت زندگیاں بچانے کی نیت سے لاہور ہائیکورٹ نے شہر لاہور سمیت پنجاب بھر میں ہیلمٹ کی پابندی یقینی بنانے کا حکم صادر کیا جو فوری نافذالعمل ہو گیا جبکہ پچھلے کئی برسوں سے توہین عدالت کی کارروائی کا ڈرہوتے ہوئے بھی ہزاروں احکامات ہنوز تعمیل کے منتظر ہیں۔ انسانی جانوں کی قدروقیمت سے انکار نہیں لیکن ہیلمٹ کی پابندی پر ”زور“ کے پیچھے ”زر“ ہے۔

”عدالت کا صرف ہیلمٹ پر زورکیوں ہے“، یہ وہ سوال ہے جو شہری ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں۔ عدلیہ کی شہریوں سے ہمدردی خوش آئند ہے، تاہم جہاں منچلے دھڑلے سے قاتل پتنگیں اڑا تے ہوں، دس بیس روپے کے لئے زندہ انسانوں کو قتل کیاجاتا ہو، معصوم بچے اغواء ہوتے ہوں، حوا کی بیٹیوں کا تقدس پامال ہوتا ہو، جہاں بیمار انسانوں کے لئے سرکاری ہسپتالوں میں بیڈ دستیاب نہ ہوں اور ہرطرف موت کا کاروبار ہو وہاں شہریوں کی زندگیاں بچانے کے لئے انتظامیہ کو صرف ہیلمٹ کی پابندی یقینی بنانے کا ٹاسک ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔

شہریوں کو زبردستی ہیلمٹ پہننے پر مجبور کر دیا گیا ہے جبکہ شاہراہوں پر آدم خور گڑھے ”Potholes“ جوں کے توں برقرار ہیں۔ نیلے پیلے ہیلمٹ کا سٹاک فروخت کرنے کی آڑ میں انہیں ”بلیک“ کیا گیا جوشہری یہ ہیلمٹ پہنتا ہے وہ رات کے اندھیرے میں مخالف سمت سے آنیوالی گاڑیوں کی تیز روشنی کے سبب عارضی طورپردیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں حادثات رونما ہو رہے ہیں۔ ہیلمٹ سٹنٹ سے پریشان حال عوام اپنے انسان دوست اور انصاف پسند منصف اعلیٰ میاں ثاقب نثار کومداخلت کی دہائی دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).