مذہبی آزادی کی پامالی، پاکستان کو مشکلات کا سامنا


دنیا میں موجود ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنی اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ اِس میں خفیہ طور پر کسی بھی مذہب، عقیدے کی تعلیم؛ اور رسم رواج کی سیاسی آزادی حاصل ہونے کا اصول ہے۔ اِس میں کسی بھی مذہب پیروی کرنا یا تبدیل کرنے کی آزادی شامل ہوتی ہے۔

جب پاکستان آزاد ہوا تھا اس وقت تمام مذاہب آپس میں برابر کا درجہ رکھتے تھے۔ آئین پاکستان کے تحت پاکستان کے ہر شہری کو اپنے مذہب کو ماننے یا کسی دوسرے مذہب کی پیروی کرنے کی مکمل اجازت ہے۔ لیکن جب سن 1956 میں پاکستان اسلامی ریاست بنا تھا۔ اِس کے بعد سن 1977 سے لے کر سن 1988 تک جنرل ضیاء الحق کا نفاذ اسلام چلا تھا۔ پاکستان میں تقریباً 95 % مسلمان ہیں اور باقی 5 % ہندو، سکھ، مسیحی ہیں۔ آئین پاکستان مسلم اور غیر مسلم میں کوئی تفریق نہیں کرتا، جبکہ جنرل ضیاء کے دور میں نفاذ اسلام کے دوران کئی ترامیم ہوئیں۔ جس کے نتیجے میں ”حدود آرڈیننس“ بنا تھا۔ کیونکہ اس وقت عسکری سربراہ مملکت جنرل ضیاء الحق نے اس قانون کو لاگو کیا تھا۔ اس قانون کا نفاذ میں کچھ قانونی شقیں تبدیل کیں ؛ اور نئی شقوں کا اضافہ کیا تھا۔

پاکستان میں تقریباً 22 کروڑ مسلمان ہیں۔ ان مسلمانوں کے فرقوں میں کئی میں اختلاف بھی ہے۔ مگر زندگی بعد از موت، قیامت، آخرت اور عذاب جہنم پر سب متفق ہیں۔ جبکہ جنت و دوزخ اور روز حشر کے حساب پر بھی سب کامل ایمان رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہم ایک دوسرے مسلمان سے خوف ہے، یہاں کوئی خالص چیزیں نہیں ملتی، بد عنوانیوں کی دلدل میں ہم ڈوبتے ہی جارہے ہیں، ایک مسلمان سے دوسرا مسلمان محفوظ نہیں، تو غیر مسلم کے محفوظ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کی نظر میں ایک گری ہوئی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

حال ہی میں ایک خبر موصول ہوئی ہے کہ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکہ نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے الزام میں پچھلے سال سے پاکستان کا نام واچ لسٹ میں رکھا تھا۔ لیکن اب امریکہ نے پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کر دیا ہے۔ اس اقدام کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا جارہا ہے، اس پر عالمی برادری کی نگاہ پاکستان کی جانب مرکوز ہے۔ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے کیونکہ ایک اسلامی مملکت ہونے کے ناطے اس طرح کے بیرونی اقدامات پاکستان کو دنیا میں بھر میں رسواء کر سکتے ہیں۔ جبکہ امن و استحکام اور خوش حالی کے لیے مذہبی آزادی کا تحفظ ضروری ہے۔

حال میں توہین مذہب کا جو معاملہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں گردش کر رہا تھا۔ جس میں سپریم کورٹ نے توہین مذہب کی جُرم میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ جس بنا پر مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں بھی میدان میں کود پڑی تھیں۔ جس پر ملک گیر دھرنوں کے سلسلے کا آغاز ہوا تھا؛ اور عوامی اور سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔ جس کے بعد حکومت کی جانب سے شر پسند عناصر کے خلاف کریک ڈاٶن کا آغاز کیا گیا تھا۔ امید ہے کہ ان معاملات کو نئی حکومت سنجیدہ لے گی؛ اور مزید بہتری کے لیے کام کرے گی۔ اس حوالے سے کچھ مثبت اقدامات بھی دیکھنے میں آئیں ہیں۔ جبکہ امریکہ کی جانب سے یہ عندیہ دے دیا جاچکا ہے کہ ہر سال جاری ہونے والی مذہبی آزادی سے متعلق فہرست میں پاکستان برقرار رہا، تو اس پر ممکنہ طور پر جرمانہ بھی عائد ہو سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ حکومت اندرونی چیلنجز کے ساتھ بیرونی چیلنجز سے کس طرح نمٹیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).