کرپشن و بدعنوانی اور احتساب کا نظام


16 نومبر 1999 ء کو ایک صدارتی فرمان کے ذریعے وجود میں آنے والا ادارہ نیب ملک میں کرپشن و بدعنوانی کے تدارک کے لئے کام کرنے والا سب سے بڑا اور مؤثر ادارہ ہے اس ادارہ پر منصفانہ اور جمہوری معاشرہ کے قیام کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ اقتداری حکمرانوں نے اسے مضبوط اور خودمختار بنا کر ٖفعال کرنے کی بجائے اپنے سیاسی حریفوں کو چاروں شانے چت کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اگر آج احتساب کا یہ ادارہ خودمختار اور فعال ہوتا تو ملک میں کرپشن و بدعنوانیوں کی کہانیوں کا راج نہ ہوتا اور ملکی خزانے اور وسائل پر نقب لگانے والے سرحد پار جائیدایں نہ بناتے پاکستان میں بیشتر مسائل بلا امتیاز احتساب نہ ہونے کے باعث اپنی جڑیں مضبوط کر رہے ہیں۔

کرپشن کے خاتمہ کے لئے انفرادی و ادارہ جاتی مؤثر جدوجہد کی ضرورت ہے اب جو نلک میں احتساب کا عمل شروع ہوا ہے اس کو رولنگ ایلیٹ ماننے کو تیار نہیں کیونکہ وہ براہ راست اس کا شکار ہو رہی ہے یہی قوت اس عمل کو غیر فعال بنا کر احتساب کمیشن بنانا چاہتی ہے تاکہ ایک دوسرے کا تحفظ کیا جا سکے اگر ملک میں موجود سیاسی جماعتیں اس بات کا اعادہ کر لیں کہ احتسابی اداروں کی خامیوں کو دور کر کے اسے فعال بنایا جائے تو نہ صرف ملک بہتری کی طرف گامزن ہوگا بلکہ جمہوری نظام بھی مضبوط ہو گا۔

موجودہ حالات میں ریاستی اداروں کے ساتھ جو تصادم کا عمل کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے اس سے نہ تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے اور نہ ہی جمہوریت کی کوئی خدمت سر انجام دی جا سکتی ہے۔ پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں کرپشن دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے آج کے دور کی سٹیٹ آف دی آرٹ کرپشن کے خاتمہ کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ کرپشن افراد، معاشروں اور قوموں میں تب سرایت کرتی ہے جب معاشرہ میں عدم تحفظ کی فضا قائم ہو اور اس عدم تحفظ کی فضا میں معاشروں اور لوگوں کا کردار ختم ہو کر رہ جاتا ہے جتنا زیادہ انسان اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے اتنا زیادہ وہ کرپشن کی طرف مائل ہوتا ہے۔

پاکستان میں بیشتر مسائل احتسابی عمل کی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جڑیں مضبوط کر رہے ہیں جس معاشرے میں کرپشن و بدعنوانی کا ناسور سرایت کر جائے وہاں اخلاقی صحت کے ادارے بھی کرپشن گنگا میں ڈوب کر راہزن بن جاتے ہیں۔ کرپشن یا بدعنوانی صرف رشوت اور غبن کا نام نہیں بلکہ اپنے عہد کی پاسداری نہ کرنا مالی و مادی معاملات کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنا بھی ہے ملک میں ہونے والی کرپشن نے ہماری سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔

کسی بھی برائی کے خلاف جدوجہد کا انحصار معاشرے کی اخلاقی اقدار پر ہوتا ہے معاشرے میں بسنے والے افراد کا رویہ اگر نیکی اور برائی کے لئے تضادات کی گرہ سے بندھا ہو تو وہاں کرپشن و بدعنوانی کو روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ کرپشن پاکستان کی ابتدائی تاریخ کا وہ افسوسناک باب ہے جس میں ہماری کرپشن، موقع پرستی، مذہبی بلیک میلنگ اور بے حسی کی جڑیں چھپی ہیں۔ قیام پاکستان کی تاریخ کے در پر جھانک کر دیکھ لیں جب لٹے پٹے لاشے مہاجر کیمپوں میں پڑے تھے ملک کے طول و عرض میں ہندوؤں اور سکھوں کی جانب سے متروکہ املاک کی لوٹ مار جاری تھی تو لیڈر لوگ بحالیات کے دفتر میں بیٹھ کر حصہ بقدر جثہ سودے بازیوں میں مصروف تھے ہندوؤں اور سکھوں کی جانب سے چھوڑی جانیوالی جائیدادیں فضل ربی بن کر ایسے لوگوں کی دسترس میں آگئیں جن کا ان پر کوئی استحقاق نہ تھا۔

ہجرت کر کے آنے والے مسلمان جو برصغیر میں ہندو کاروباری طبقہ کو بنیا کہتے تھے انہوں نے بد قسمتی سے رئیس اور جاگیرداروں کو اپنا فخروامتیاز سمجھتے ہوئے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور دینی علماء کو اپنا لیڈر مان لیا وہیں سے کرپشن کہانی کا آغاز ہوا پھر پرمٹ، لائسنس اور الاٹمنٹوں کے ذریعے کرپشن کی نت نئی داستانیں رقم ہونے لگی حکمرانوں اور ان کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی اشرافیہ کے ذہنوں پر راتوں رات امیر تر ہونے کے خواب مسلط ہوگئے۔

جس معاشرے میں وزیراعظم سے لے کر نائب قاصد تک کرپشن و بدعنوانی کی گنگا میں تر بہ تر ہو کر نچڑ رہے ہوں وہاں وقت کی دستک کا نقارہ بتا رہا ہے کہ نئی نسل کو اپنی راہنمائی اور مستقبل کے لئے نئے راستے تلاش کرنا ہوں گے نرگسیت سے بھرے معاشرے کا اندازہ اس بات سے لگا لیں ہمارا عمل اور فکری تضاد اتنا گہرا ہو چکا ہے کہ صرف زبان سے کوسنے کا عمل ریا کاری کو جنم دے رہا ہے۔ اکہتر برس کی تاریخ اس بات کی غماز ہے کہ پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں ان تمام حکمرانوں میں سیاسی عزائم کا فقدان تھا جس کی وجہ سے کرپشن و بدعنوانی کے تدارک کے لئے قانون حرکت میں نہیں آیا اور اسی کے باعث کرپشن کے خاتمے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات بے اثر ہی رہے۔

یہ طے ہے کہ سیاسی مداخلت اور دباؤ کی وجہ سے ملک میں موجود احتسابی ادارے منصفانہ طریقے سے تحقیقات نہیں کر سکتے پاکستان میں احتسابی ادارے اس لئے بھی خود مختار اور فعال نہیں ہیں کیونکہ تحقیقات سے قبل اقتداری ایوان سے اجازت از حد ضروری سمجھی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں کرپشن و بدعنوانی کے تدارک کی حکمت عملی اس لئے بھی ناکامی سے دوچار ہے بحیثیت عوام ہم ہونیوالی کرپشن و بدعنوانی کو قابل برداشت سمجھتے ہیں اس لئے کرپٹ مافیا ہماری اس روایتی سوچ کے پیش نظر پھل پھول رہا ہے۔

حالانکہ پاکستان میں انسداد کرپشن و بدعنوانی کے لئے مؤثر قوانین او اختیارات سے لیس احتسابی ادارے موجود ہیں۔ اسلام آباد میں انسداد کرپشن کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ نیب سزاؤں کے لئے قانون سازی نہیں کرتی یہ پارلیمنٹ کا کام ہے نیب کو احتساب سے بالا تر ادارہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے نیب جیسے ہی عدالت میں کیس داخل کرتی ہے نیب کا احتساب شروع ہو جاتا ہے چاہتا ہوں لوگوں کو پتہ چلے کہ نیب اپنے اختیارات استعمال کر رہا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے ارکان متعدد بار برملا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ ملک میں کرپشن کرنے والوں کے خلاف بلا امتیاز احتساب ہوگا کوئی چور نہیں بچے گا تحریک انصاف جس منشور کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے اس میں ریاستی اداروں کو خودمختار بنا کر فعال بنانا بھی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو کرپشن فری بنانے کے لئے نیب اور دیگر احتساب کے اداروں کو اختیارات سمیت خودمختاری دیتے ہوئے فعال بنائے تاکہ احتساب کے اداروں کو بدعنوان بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کرنے سے قبل اجازت طلب نہ کرنی پڑے صرف اسی طریقے سے سیاسی مداخلت کے بغیر احتساب کا نظام وسیع اور مؤثر ہو سکتا ہے۔

کرپشن خاتمے کی دوڑ میں شامل ہو کر عام آدمی کا معیار زندگی اسی صورت بلند ہوسکتا ہے جب ہم عدلیہ اور احتسابی اداروں کو مضبوط بناتے ہوئے اعتماد بخشیں گے۔ سماجی، اقتصٓدی نا انصافیاں اور میرٹ کی پامالیاں معاشرے کو تصادم کی طرف لیجاتی ہیں جہاں کرپشن ہو وہاں نہ ہی دیرپا اور پائیدار ترقی مل پاتی ہے اور نہ ہی اچھا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ پاکستان کو کرپشن و بدعنوانی سے پاک کر لینے سے جہاں ملک میں ٹکراؤ اور تصادم کے رجحانات میں کمی واقع ہوگی وہیں امن کو بھی تقویت ملے گی !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).