گزارہ ہی کرنا پڑے گا!


اگر میں اپنا موبائل نمبر بدل لوں تو کیا ہو گا؟ یہ بالکل ایسے ہو گا جیسے میں نے اس دنیا میں ایک نیا جنم لیا ہے۔ پھر یہ لوگ مجھے کبھی بتا نہیں سکیں گے کہ اس دسمبر میں جوتے خریدنے کے لیے ہواؤں کو آپ کس طرح شکست دے سکتے ہیں۔ ستر پرسنٹ آف والی سیل سے فائدہ اٹھانے کے لیے مجھے کس علاقے میں کھلی جوتوں کی دکان پہ جانا ہو گا یا پھر یہ کہ حاتم طائی والی موجودہ آفر کب تک چلتی رہے گی؟

میں یہ سوچ کر شدید اداس ہو جاتا ہوں کہ اگر ایسا ہو گیا تو پھر ان کا بنے گا کیا جو میرے ہی آسرے پہ اس دنیا میں بچوں کے سارے کپڑے لتے بیچتے ہیں؟ اس مرتبہ انہوں نے کتنے شوق سے مجھے فلیش ویک اینڈ سیل کی آفر بھیجی ہے۔ ان کے مطابق اس مرتبہ تمام سوئٹر، جیکٹس اور گرم کپڑوں پہ اَنے واہ پچیس پرسنٹ آف ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر دوسرے ہفتے ان کا فلیش ویک اینڈ ہوتا ہے، ہر دوسرے مہینے ان کے نزدیک موسم بدلتا ہے اور وہ سیزنل آف کا اشتہار لگاتے ہیں اور ہر تین ماہ بعد وہ پچاس فیصد رعایت کا اعلان کر دیتے ہیں۔ خیر میں سکون سے پورا میسج پڑھتا ہوں اور اسے ڈیلیٹ کر دیتا ہوں کیونکہ میری بیٹی اب بڑی ہو چکی ہے۔

شاید انہیں اپنے میسجنگ سافٹ وئیر میں کوئی ایسا فلٹر لگانے کی ضرورت ہے جو انہیں الرٹ کر سکے اور بتائے کہ بھئی فلاں گاہک کے بچے اب تمہارے کپڑے پہننے کی عمر سے نکل چکے ہیں، اس کا نمبر ڈیلیٹ کر دو۔ یاد رہے کہ یہ آفر مجھے ایک مرتبہ کمپنی سے موصول ہوتی ہے اور دوسری مرتبہ ایک دکاندار خاص طور پہ اپنے ذاتی نمبر سے یہ امید افزا پیغام بھیجنا پسند کرتا ہے۔

جس میسج سے میری صبح ہوتی ہے اس کے بغیر زندگی گزارنے کا سوچتے ہوئے بھی مجھے مشکل لگ رہا ہے۔ روز صبح ٹھیک دس بجے وہ لوگ مجھے ایک پیغام بھیجتے ہیں‘ جو پچھلے کئی سالوں سے ایک ہی فارمیٹ کا ہے۔ نہ اس کے لفظوں میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ اس کے اندر موجود سپیلنگ کی غلطیاں ٹھیک ہوئی ہیں۔ وہ ایک ٹیوشن سینٹر کا اشتہار ہے۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ سکول، کالج، پلے گروپ سے آٹھویں تک، او لیول، اے لیول، نائنتھ، ٹینتھ، ایف اے، ایف ایس سی، آئی سی ایس، بی اے، بی کام، اے سی سی اے، ایم کیٹ، ای کیٹ… ان سب چیزوں کو پڑھانے کے لیے ان کے پاس ایسے قابل استاد موجود ہیں جو گھر آ کے پڑھائیں گے۔ آپ صرف ان کا نمبر ملائیں اور ٹیچر آپ کے گھر آئے گا۔ میں ہر روز سوچتا ہوں کہ ان لوگوں کو اب تک کوئی ایسا بندہ کیوں نہیں ملا جو پی ایچ ڈی یا پوسٹ ڈاکٹریٹ کرانے کی صلاحیت رکھتا ہو؟ یا کم از کم ریسرچ آرٹیکل ہی پیسے لے کر لکھ سکتا ہو۔ جب یہ میسج مجھے ملنا شروع ہوا تھا‘ اس وقت میں خود ایف اے میں تھا۔ اب میری پڑھائی پوری ہو چکی، ہاں اس طرح کوئی پی ایچ ڈی کی آفر دے تو میں ضرور سوچنا چاہوں گا۔

ایک مہربان میرے نیٹ ورک والے ہیں۔ جس دن سے یہ نمبر میں نے خریدا ہے، تب سے لے کر آج تک یہ مجھے روزانہ بلاناغہ ایک ایسا میسج بھیجتے ہیں جس میں فری منٹس، فری میسجز اور فری ایم بی ڈیٹا کی بات ہوتی ہے۔ جو صارف پچھلے سترہ برس میں ایک بار بھی اس دھندے میں نہیں پھنسا کیا اسے اس آفر سے استثنیٰ دیا جانا ممکن نہیں ہے؟ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ اگر اگلا جنم ملا تو اس میں بہت سے ایسے میسجز بھی ہوں گے جن سے محروم ہونا مجھے تکلیف دہ لگے گا۔ جیسے ہر دفعہ جب وہ اشتہار آتا ہے، لکنگ فار اے رشتہ؟ تو دل زور سے دھڑک جاتا ہے ۔ باوجود ایک شادی کو بہت کافی سمجھنے کے، باوجود زندگی بھر میں دوبارہ ایسی کوئی حرکت کرنے کا ارادہ دور دور تک نہ ہونے کے، پھر بھی، کچھ ہوتا ہے جو دور کہیں فضاؤں میں بجنے لگتا ہے۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے پاکستانیوں کے لیے ان کے پاس ان گنت رشتے موجود ہیں اگر وہ سب پاکستانی ان کی ویب سائٹ پہ جانے کی نیت باندھ لیں۔ اگر وہ میسج کسی ایسے پاکستانی کو ملے جسے انٹرنیٹ استعمال کرنا نہیں آتا تو اس کے لیے ایک پرسنل نمبر کی سہولت بھی موجود ہے۔ نمبر کے ساتھ بریکٹ میں آنٹی فلاں کیوں لکھا ہوتا ہے‘ یہ کبھی سمجھ نہیں آیا۔ کیا کوئی بھی رشتہ انکل لوگ نہیں کروا سکتے یا آنٹی لوگ زیادہ قابل اعتبار ہوتی ہیں؟

اسی طرح کوئی ایک دو برس ہوئے ہر ویک اینڈ پہ مجھے وہ میسج بھی ضرور آتا ہے جس میں پہلے روس، آذربائیجان، یوکرائن، چائنا، تھائی لینڈ، فلپائن وغیرہ کے نام لکھے ہوتے ہیں اس کے بعد لکھا ہوتا ہے: رازداری شرط ہے اور اس کے بعد کچھ مساج وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ اطلاع بھی ہوتی ہے کہ آدھا گھنٹہ سروسز مہیا کرنے کے چار ہزار روپے ہوں گے۔ یا تو فقیر پارس پتھر ہے یا پھر ادارہ ہٰذا کے پاس کچھ ایسا جادو ہے جو آدھے گھنٹے اور چار ہزار روپے کی اکانومی تیس منٹوں میں سمجھا دیتا ہے، کچھ بھی ہو ایک تسلی ہر مرتبہ ضرور ہوتی ہے کہ صاحب کردار لوگوں میں بہرحال اپنا شمار ابھی تک ہوتا ہے۔ کمرشل ازم کی حد یہ ہے کہ جب سے مجھے ایسے میسج آنے شروع ہوئے ہیں عین تبھی سے بینکوں والے روز ایک نئے کریڈٹ کارڈ کی آفر کرتے ہیں یا پھر ادھار کی سہولت سے فائدہ اٹھوانے کے لیے فل مصروف ترین دفتری اوقات میں فون کال کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا دونوں اداروں میں فقیر کا پروفائل کیسے اور کیوں اپڈیٹ ہوا، یہ سوال تحقیقی مقالہ لکھوا سکتا ہے۔

ایک جوان وہ بھی ہے جس کی ایک کیٹرنگ کمپنی ہوا کرتی تھی اور جس سے کمپنی کے ایک فنکشن میں لنچ باکس منگوائے تھے، پانچ سال سے اس بندے کی میسجنگ لسٹ میں اپنا نمبر ایڈ ہے۔ جس قدر آپ کو اقوال زریں سے نفرت ہو اسی قدر فطرت لالے کی حنا بندی کا بندوبست کرتی ہے۔ بھائی جان کو یہ نہیں معلوم کہ ان میسجز سے چڑنے کے بعد ہی فقیر نے آج تک کبھی کسی دوسرے پروگرام کے لیے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ یار آخر ان میں اور ہربل سپرے یا ڈراپس بیچنے والوں میں کیا فرق ہے ؟ ایک عام آدمی کو جس طرح کسی غیر ضروری سپرے وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی عین ویسے ہی اسے کسی دانشوری کی بات پڑھنے کا ہوکا بھی نہیں ہوتا۔ کیا ایسی ضرورت ہے کہ بلاناغہ کا یہ بندوبست پانچ سال ترنم سے جاری رکھا جائے؟

سیریسلی دیکھیں تو ان سب میسجوں سے بری طرح تنگ آ کے نمبر بدلنے اور نیا جنم لینے سے انسان کو صرف ایک چیز روکتی ہے۔ وہ پرانے سب رابطوں کا نقصان ہے۔ کیسا اچھا لگتا ہے جب کسی دن کوئی بہت پرانی آواز آپ کو فون کرتی ہے اور آپ کو یاد آتا ہے کہ ہاں زندگی کی دوڑ میں ایک لمحہ ایسا بھی تھا جب کسی درخت کی چھاؤں میں بیٹھے تھے۔ جب کوئی خوبصورت پھول تھا جو سونگھا تھا، کوئی لمحہ تھا جو رکا نہیں تھا اور نہ ہی گزرا تھا، ٹھیک تھا یا غلط بس خود آپ آگے بڑھ گئے تھے۔ کبھی کسی استاد کے پاس آپ کا وہی نمبر محفوظ ہوتا ہے، کبھی کوئی کلاس فیلو بھولے بھٹکے فون کر دیتا ہے، کبھی کوئی باہر ملک گیا ہوا پرانا محلے دار اچانک یاد کر لیتا ہے‘ تو وہ جو اچانک والی خوشی ہے وہ پھر ساری عمر کے لیے رخصت ہو جائے گی۔ اب نئے دوست بنانے کی عمر نہیں ہے۔ فون نمبر کیسے بدلا جائے؟ کیا سپیم میسجز بھیجنے والوں کو رحم نہیں آ سکتا؟ ان سوالوں کا جواب آف کورس کبھی نہیں ہو سکتا، کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ گزارہ کرتے ہیں، آئندہ بھی کیے جائیں گے ۔

ہر دفعہ جب وہ اشتہار آتا ہے، لکنگ فار اے رشتہ؟ تو دل زور سے دھڑک جاتا ہے ۔ باوجود ایک شادی کو بہت کافی سمجھنے کے، باوجود زندگی بھر میں دوبارہ ایسی کوئی حرکت کرنے کا ارادہ دور دور تک نہ ہونے کے، پھر بھی، کچھ ہوتا ہے جو دور کہیں فضاؤں میں بجنے لگتا ہے۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے پاکستانیوں کے لیے ان کے پاس ان گنت رشتے موجود ہیں اگر وہ سب پاکستانی ان کی ویب سائٹ پہ جانے کی نیت باندھ لیں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain