مشرقی پاکستان سے مغربی سرحد تک


وہ کالے بونے بدشکل بنگالی کہلائے جاتے تھے، تحریک پاکستان ڈھاکہ سے ہی شروع ہوئی تھی جب 27 تا 30 دسمبر 1906 کو ہندوستان بھر سے تین ہزار کے قریب مسلمان وفود نے ڈھاکہ میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کی جہاں تین روز کی طویل مشاورت کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا، اجلاس کی صدارت نواب وقار الملک اور نواب محسن الملک (سیکرٹری محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس) نے کی۔ محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کے اس سے قبل شملہ اور لکھنو میں ہونے والے اجلاسوں میں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک نمائندہ سیاسی جماعت کے قیام پر فیصلہ ہو چکا تھا جس کو ڈھاکہ میں عملی جامہ پہنایا گیا۔ یہی مسلم لیگ بعد میں قیام پاکستان کی موجب بنی۔

تاریخ کوجتنا زیادہ کھنگالا جائے اتنی ہی درد بھری داستانیں نکل کر سامنے آ جاتی ہیں جو داستانیں ہمیشہ تاریخ میں ہی کھرے سچ کے طور پر لکھی اور بیان کی جاتی ہیں زمانہ حال میں ان داستانوں کے رقم کرنے سے کئی طرح کے خطرات سامنے آ سکتے ہیں۔ خیر تاریخ کو چھوڑیئے۔ تاریخ میں رہنے والے کبھی مستقبل پر نظر نہیں دوڑا سکتے۔ مشرقی پاکستان اب بنگلا دیش کے نام سے جانا جاتا ہے جس کی سرکاری کرنسی بنگلادیشی ٹکا ہے جو 1972 میں رائج ہوئی۔

جنوبی ایشیاء کی معاشی قوت کے طور پر جانا جانے والا پاکستان بنگلا دیش بننے کے بعد زبوں حالی کا شکار ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی نے معیشت کو دوبارہ سے مستحکم کر دیا گو اس سے نجی سرمایہ کار ملک سے بھاگ گیا جس کے آگے جا کر پاکستانی معیشت کو بدترین نقصان ہوا لیکن پاکستانی معیشت ضیاء الحق دور بعد ازاں بے نظیر بھٹو کے دور میں بری طرح سے تباہی کی طرف گئی۔

1990 میں نوازشریف کی صورت میں ایک سرمایہ کار ملک کا وزیراعظم بنا تو پاکستان میں پرائیویٹائزیشن کا آغاز ہوا جس سے سرمایہ کاری بڑھی اور پاکستان دوبارہ معیشت میں بھارت کو پیچھے چھوڑنے لگا۔ 1999 میں پاکستان جنوبی ایشیاء میں دوبارہ ایک معاشی قوت کے طور پر سامنے تھا اور بھارتی روپیہ ہم سے پیچھے رہ چکا تھا۔ مشرف کی آمریت کے دور میں اوائل میں معیشت نے کافی ترقی کی تاہم محدود مدت کی پالیسیوں نے معیشت کو تباہی کی جانب دھکیلا جبکہ مشرف کی امریکی جنگ میں جانے کے فیصلے نے بھی پاکستانی معیشت اور ملکی سلامتی اور امن کو تباہی سے دوچار کر دیا۔

زرداری دور میں پاکستان جنوبی ایشیاء میں سب سے پیچھے کھڑا تھا، 2013 میں لوڈشیڈنگ، دہشت گردی اور لاقانونیت میں ڈوبا ملک ایک بار پھر نوازشریف کے اقتدار میں آیا تو پانچ سال کی انتھک محنت اور لگن کے ساتھ پاکستانی معیشت ایک بار پھر مستحکم ہو کر سامنے آئی۔ افراط زر 8.5 فیصد کی تاریخی گراوٹ سے نکل کر 2016 میں مثبت 5.1 فیصد کی طرف لوٹ آئیْ۔ جی ڈی پی گروتھ 2016 میں 4.6، 2017 میں 5.4 اور 2018 میں 5.8 فیصدہوئی جو کہ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں کم ہو کر 5.1 فیصد اور 4.8 فیصد پر آ جائے گی۔

ہم نے ایک سال سے ملک کی گاڑی کو ریورس گیئر میں ڈال رکھا ہے۔ بنگلا دیشی ٹکا ہمیں مات دے کر جنوبی ایشیاء میں پہلی پوزیشن پر آ چکا ہے، بنگلادیشی جی ڈی پی جنوبی ایشیاء میں بلند ترین مقام یعنی 7.9 فیصد پر ہے۔ فی الحال جی ڈی پی میں ہم افغانستان اور سری لنکا کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں جبکہ نیپال اور مالدیپ بھی ہم سے آگے ہیں۔ 2019 کے آخر تک شاید یہی حالات رہے توہم افغانستان اور سری لنکا سے آخری پوزیشنیں چھین لیں گے۔

ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر کن محرکات کی وجہ سے ہم چار قدم آگے بڑھ کر آٹھ قدم پیچھے آ جاتے ہیں؟ ہمیں بنگلا دیش کا مطالعہ کرنا ہو گا کہ 1994 میں انہوں نے اپنے ملک سے جمہوریت میں ہر طرح کی مداخلت کا خاتمہ کیا اور دستیاب سیاسی قیادت پر انحصار کرتے ہوئے انتخابات کے اور صرف انتخابات کے ذریعے حکومتیں بدلیں، نیپال نے حال ہی میں بادشاہت سے جان چھڑا کر جمہوریت حاصل کی اور ہم سے چار قدم آگے نکل گیا۔ ہم بھی جمہوریت کے تحت چل رہے ہیں مگر ہماری جمہوریت اتنی توانا بھی نہیں ہے کہ چار قدم خود پاؤں پر کھڑے ہو کر آگے بڑھ سکے اسے بیساکھیوں کی ضرورت پڑتی ہے اور سیاستدان ہمیشہ بیساکھیاں ڈھونڈ کر جمہوریت میں غیرجمہوری آمیزش کرتے ہیں۔

ادھر ہمارے وطن عزیز میں مغربی سرحد پر افغانی خطرات منڈلا رہے ہیں، 1970 میں ہم ون یونٹ کے تحت مشرقی اور مغربی پاکستان میں بٹے تھے اب ہم دشمنوں کی سازشوں کے نتیجے میں مشرقی اور مغربی تقسیم سے دوچار ہیں۔ مشرقی پاکستان کی طرف انڈیا پھن پھیلائے سانپ کی طرح ہر وقت ڈسنے کو تیار رہتا ہے تو مغرب میں افغانستان آستین کا سانپ ثابت ہو رہا ہے۔ بھارت سے ہماری دشمنی سمجھ آتی ہے مگر افغانستان جس کی قیادت تک ہمارے ملک میں بیٹھ کر تیس تیس سال اس وطن کو نچوڑ کر کھاتی رہی ہے اور جن کی وجہ سے ہماری معیشت آسمان سے زمین پر آئی ہے وہ بھی اژدھے کی صورت سامنے کھڑا ہے۔

بلوچستان میں بھارت نے وہی چال چلی ہے جو مشرقی پاکستان میں چلی تھی یعنی جہاں دھواں دیکھو وہاں پیٹرول ڈالو، آگ جلاؤ اور زیادہ سے زیادہ تیل ڈالو۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بھڑکاوے کی تمام تر سہولیات ہم خود بھی مہیا کرتے ہیں۔ جب دشمن سازش کرتا ہے تو اس کا سب سے پہلا اورموثر ہتھیار پراپگنڈہ ہوتا ہے جتنا زیادہ پراپیگنڈہ ہوگا اتنی سازش کامیاب ہو گی۔ حکومت پاکستان اور پاکستان کے اداروں کو سنجیدگی بردباری اور معاملہ فہمی کے ساتھ ان حالات کے سدباب کے لئے آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے۔ پی ٹی ایم کے پیچھے پاکستان دشمن طاقتیں ضرور ہو سکتی ہیں لیکن پی ٹی ایم کے آگے ہمارے اپنے بہن بھائی پاکستانی پشتون ہیں جن کے مطالبات سننے اور انہیں گلے سے لگا کر ان کے گلے شکوے دور کرنے سے ہم اس نئی پیداہ ہونے والی نفرت کو محبت میں بدل سکتے ہیں۔ بس اس بار کوشش کریں کہ ہم نے جیسے بنگالی پاکستانیوں کو راضی کرنے کی کوشش کی تھی اس طرح پشتون پاکستانیوں کو راضی کرنے کی کوشش نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).