سولہ دسمبر اور شناخت سے محروم مشرقی پاکستانی


قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو کر مشرق میں غروب ہوگا اور تب توبہ کے دروازے بھی بند ہو جائیں گے، لوگ اپنی غلطیوں پر شرمندہ ہوں گے اور گناہوں پر توبہ کریں گے مگر ان کو معافی نہیں ملے گی۔ 16 دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا سب سے سیاہ ترین دن ہے، جس دن پاکستان پر قیامت ٹوٹی، اس دن سورج مغرب پاکستان سے نکل کر مشرق پاکستان میں ڈوبا، اور پاکستان کا ایک بازو کٹ کر الگ ہوا تو پاکستان دولخت ہو گیا۔ جسے پاکستان میں سقوط ڈھاکہ اور بنگال میں مکتی جدھو کہتے ہیں۔

26 مارچ 1971 کو حریت پسندوں کے خلاف پاک فوج کے عسکری آپریشن سے شروع ہونے والی جنگ کے نتیجے میں مقامی گوریلا گروہ اور تربیت یافتہ ”مکتی باہنی“ ملیشیا نے عسکری کارروائیاں شروع کیں اور افواج اور وفادار عناصر کا قتل عام کیا۔ مارچ سے لے کے سقوط ڈھاکہ تک تمام عرصے میں بھارت بھرپور انداز میں مکتی باہنی اور دیگر گروہوں کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا اور بالآخر دسمبر میں مشرقی پاکستان کی حدود میں گھس کر اس نے 16 دسمبر 1971 ء کو ڈھاکہ میں افواج پاکستان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔

یہ جنگ عظیم دوم کے بعد جنگی قیدیوں کی تعداد کے لحاظ سے ہتھیار ڈالنے کا سب سے بڑا موقع تھا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے نتیجے میں پاکستان رقبے اور آبادی دونوں کے لحاظ سے بلاد اسلامیہ کی سب سے بڑی ریاست کے اعزاز سے محروم ہو گیا۔ سانحہ مشرق پاکستان ہماری تاریخ کا ایک ایسا باب ہے، جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ قوم آج بھی ان لاتعداد سوالوں کے جوابات کی منتظر ہے کہ سقوط ڈھاکہ کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ کیا یہ ایک فوجی شکست تھی یا بھٹو کی ہوسِ اقتدار کا بدترین نتیجہ یا شیخ مجیب الرحمٰن کا سیاہ کارنامہ یا پھر بھارت کی کارستانی یا عالمی طاقتوں کا بھیانک گٹھ جوڑ؟ جس کے سبب یہ سب ممکن ہوا۔

بھٹو کے ساتھ اس کی ذمہ داری سے جنرل ایوب خان کو نہیں نکالا جاسکتا جنہوں نے 11 برس حکمرانی کی۔ وہ بنگال کے دکھوں کا مداوا نہ کرسکے۔ پھر یحییٰ کا اقتدار تھا وہ بھی ذمے دار ہے، اس کے علاوہ ون یونٹ، بنگالی سیاست دانوں پر پابندی اس کے کواکب ہیں۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب جاننے کے لیے جسٹس حمودالرحمٰن کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا، اس کمیشن نے 10 سفارشات تیار کیں جن میں ایک آدھ پر عمل کیا گیا لیکن کئی سال تک کمیشن کی رپورٹ حکومت کے سرد خانے میں پڑی رہی۔ جب پرویز مشرف کے دور میں اس کمیشن کے کچھ حصے بھارتی ہفت روزہ ”انڈیا ٹو ڈے“ میں شائع ہوئے تو قومی حلقوں میں ہلچل مچ گئی کہ یہ رپورٹ بھارت میں کس طرح پہنچ گئی جب کہ پاکستان کے عوام اس رپورٹ سے سرے سے لاعلم تھے جس کے بعد جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت نے حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ شائع کر دی تاہم رپورٹ کے کچھ حساس حصوں کو خفیہ رکھا گیا۔

سانحہ سقوط ڈھاکہ کو گزرے ہوئے اب نصف صدی ہونے کو ہے، لیکن آج بھی سانحہ سقوط ڈھاکہ کا دکھ بنگال میں بہاری اور پاکستان میں مقیم بنگالیوں پر ڈھایا جا رہا ہے۔

پورے پاکستان کا تو نہیں پتا مگر کراچی میں لگ بھگ 35 لاکھ کے قریب بنگالی برادری کے لوگ آباد ہیں جن میں سے اکثریت سقوط ڈھاکہ سے قبل یہاں رہ رہے ہیں اور چند سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان آ بسے جن کی تیسری نسل یہاں آج بھی شہریت سے محروم ہے کراچی کے 35 لاکھ بنگالیوں کو اب تک شناخت نہیں مل رہا جن کے پاس شناخت ہے یا تو انہوں نے شناخت کے لیے بھاری رقم رشوت دے کر اپنی شناخت حاصل کی اور جو رشوت نہ دے سکے وہ آج بھی نادرا کے دفاتر پر چکر لگا کر اپنی ایڑیاں گھسا رہے ہیں مگر کوئی شنید نہیں ہوتی، 2008 کے بعد کراچی میں مقیم بنگالیوں کی شرح خواندگی تیزی سے منفی ہوتی جا رہی ہے، بے فارم نہ ہونے کی وجہ سے بچے بچیاں میٹرک بھی نہیں کر پاتے شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ملازمت بھی نہیں ملتی۔

اگر یہ سلسلہ مزید آگے چلتا رہا تو ان میں تعلیم یافتہ افراد ڈھونڈنا بہت مشکل ہو جائے گا اور جس سے نقصان ان سے زیادہ معاشرے کو ہوگا، گزشتہ دو دہائیوں سے لاکھوں افراد میں ایک فرد مشکل سے کسی سرکاری ادارے کا ملازم تھا، جو اب ریٹائرڈ ہو گئے اب شاید ہی کوئی بنگالی برادری کا فرد ہے جو کسی سرکاری محکمے میں ہوگا اگر ہے بھی تو آٹے میں نمک برابر ہے، گزشتہ تین سال قبل میری والدہ کا کارڈ تجدید کروانے کے دوران روک دیا گیا اور ان کی تحقیق کروائی گئی ایک سال میں اپنی والدہ کے ساتھ نادرا کے دفتر پر مجرم کی طرح حاضری لگاتا رہا بالآخر ایک سال بعد والدہ کا کارڈ بن گیا جس کے فوری بعد میں نے اپنا کارڈ جمع کروایا مگر وہی امتیازی سلوک میرے ساتھ بھی کیا گیا اور تین سال تک مستقل مجھے بھی رسوائی کا سامنا کرنا پڑی اور نادرا کے دفاتر پر ذلیل و خوار ہوتا رہا۔

نادرا کے مظالم سے تنگ آ کر میں اسلام آباد نادرا کے ہیڈکوارٹر پہنچا جہاں جا کر انکشاف ہوا کے حکومت کی جانب سے اتنا مسئلہ نہیں جتنا یہاں نادرا پر بیٹھنے والے اپنا جیب گرم کرنے کے لئے مسئلوں میں الجھاتے ہیں۔ میں سوشل میڈیا پر مستقل کہانیوں اور تحریروں کے ذریعے اپنے مسائل سے لوگوں کو آگاہ کرتا رہا جتنے معروف لکھاری ہیں سب کی توجہ اس طرف مبذول کر دی اور سب نے اپنے اپنے پروفائل پر لکھا جن کی وجہ سے میری شہرت میں اضافہ ہوا اور یہی میرے لئے شناخت کے حصول کا سبب بنا۔

میں نئے پاکستان میں ان دوستوں سے درخواست کرتا ہوں جنہوں نے نئے پاکستان بنانے میں عمران خان کا ساتھ دیا اور اس کے رکن ہیں اب حکومت ان کی ہے تو ان پر فرض ہے کہ وہ اس مسئلے پر فوری کوئی قدم اٹھائیں اور اس مسئلے کو حل کریں اور یہاں بسنے والے پاکستانی بنگالیوں کو شناخت دیں ورنہ یہ لوگ اللہ نہ کرے کبھی بغاوت پر اتر آئیں کیوں کہ جہالت اور بھوک انسان کو درندہ بنا دیتی ہے۔ مجھے تو میری شناخت مل گئی مگر مجھ پر اپنے بھائیوں کے لیے آواز اٹھانے کی ذمہ داری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).