لیپوٹا کے سائنسدان، بغداد کے علما اور ہمارے دانشور


گلیورز ٹریولز میں جب گلیورز لِلیپٹ کے چھوٹے قد کے بڑے مغرور بونوں سے اپنی جان چُھڑا کر کے اصلی بڑے قد کے بڑے اِنسانوں کے سامنے خُود کو چھوٹا پاتا ہے اور جان لیتا ہے کہ وُہ اور اُس کی نسلِ انسانی کِس قدر چھوٹی مخلوق ہے تو پریشان رہتا ہے۔ اِن تمام چکروں سے نکلنے کے کُچھ ہی عرصہ بعد گلیورز دوبارہ سمندری سفر پر نِکل کھڑا ہوتا ہے، اب کی بار وُہ جاپان اور لیپوٹا کی سرزمین دیکھنے نِکل پڑتا ہے، قصہ مُختصر کِسی طرح دھکے کھاتا، ذلیل ہوتا وہاں پُہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وہاں کے رہائشی موسیقی اور ریاضی پر ایسی بحث کررہے ہوتے ہیں اور ایسی ایسی ایجادات کے چکر میں ہوتے ہیں جِن کا فائدہ کم از کم اِنسانوں کو ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔

مثلا وہاں کے لوگوں کے اپنے معاشرے سے زیادہ سُورج چاند کی فکر لاحق ہوتی ہے کہ آج سُورج کا رنگ گہرا سُرخ تھا کہیں پھٹ ہی نہ جائے اور وُہ ریاضی کے مسائل میں ایسے گُم ہوتے ہیں کہ اُس جزیرے کے اُمرا نے باقاعدہ مُلازم رکھے ہوتے ہیں جو اپنے ماسٹر کو چلتے ہُوئے خبردار کرسکیں کہ وُہ ریاضی کے مسائل حل کرتا ہُوا کِسی گڑھے میں ہی نہ گِر جائے۔

گلیورز حیران ہوتا ہے کہ یہ کیسے واہیات انسان ہیں جو نہ صرف اپنا بلکہ دُوسروں کا وقت بھی برباد کررہے ہیں اور اصل مسائل پر اِن کی نظر ہی کوئی نہیں۔ کِسی جگہ عجیب و غریب ایجادات کرنے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے کہ گھر ایسے بنائے جائیں جِن کو چھت سے شُروع کیا جائے یعنی چھت پہلے بن جائے باقی دیواریں یا بُنیادیں بعد میں، ایک سُکول میں بچوں کو بُھوکا دیکھ کر گلیورز بچے سے بُھوکا ہونے کی وجہ پُوچھ بیٹھا تو اُس نے کہا کہ اُس نے ریاضی کے سوالات کا سبق کھا لیا ہے اب وُہ دو تین دِن پانی پیے گا تاکہ وُہ عِلم معدے سے اُوپر دماغ کی طرف جاسکے۔ عام آدمی بُہت بُرے حالات میں زِندگی بسر کررہا ہوتا ہے اور اُس کی کِسی کو فِکر نہیں ہوتی جبکہ ریاضی کے لاینحل اور بے معنی مسائل پر بحث جاری رہتی ہے۔

تاریخ میں پڑھا ہے کہ ( اب معلوم نہیں کتنا سچ ہے یا کتنا جُھوٹ ) جب ہلاکو کی افواج بغداد جو اُس وقت مُسلمانوں کی عباسی سلطنت کا ایک بڑا اور شُہرہ آفاق شہر تھا اُس کو برباد کرنے نکل کھڑا ہوتا ہے اور کُوئی وقت جاتا ہے کہ وُہ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا اور شہر میں خُون ایسے بہے گا جیسے تیز بارش کے بعد پانی بہتا ہے۔ اُس وقت کے مُسلمان عالم ایسی ہی بے مقصد بحث اور مسائل پر بحث کرنے میں غرق تھے جِس کا فائدہ نہ دِین کو تھا نہ مُسلمانوں کو اور نہ ہی کِسی اور کو ہونے والا تھا۔

بحث کیا تھی بھلا؟ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں، کوا حلال ہے یا حرام؟ ایسی ہی کئی بحثیں ہفتوں چلتی تھیں اور بے نتیجہ ختم ہوجاتی تھیں۔ ہلاکو خان نے اُن کی مُشکلات آسان کرتے ہُوئے اُنھیں ڈائریکٹ اللہ پاک کے پاس بھیج دِیا کہ باقی کے جوابات وہاں سے آسانی سے مِل جائیں گے۔

آج حامد میر کے پروگرام میں ایک عیسائی سیاسی شخصیت، جمعیتِ اِسلام ( جے یُو ایف ) کے ایک سردار، اور پی ٹی آئی کے رہنما رمیش کُمار جو پچھلے دِنوں شراب کی پابندی کی قرارداد لائے تھے اُس پر بحث جاری تھی۔ یہ بحث کُچھ دِن سوشل میڈیا پر بھی چھائی رہی اور تمام مُجاہدینِ اِسلام سر بکف دِکھائی دیے۔ چوہدری فواد ایک مُنہ پھٹ اور بدتمیز وزیر ہے جِس کی اکثر باتیں بِلا سوچے سمجھے ہوتی ہیں لیکن اِس معاملے پر اُس نے دُرست کہا کہ یہ ایک سستی شہرت کا ڈرامہ تھا، جِس نے پینی ہے وُہ پیے گا اور جِس نے نہیں پینی وُہ نہیں پیے گا۔

اب اِس سارے معاملے کو اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو کیا لیپوٹا کے سائنسدان، بغداد کے عُلماء اور ہمارے دانشوروں اور عالموں میں کوئی فرق باقی ہے؟ شراب پینا نہ پینا، حرام، مکمل بین ہمارا کب سے مسئلہ بن گیا ہے؟ بھئی بُھٹو دور سے شراب پاکستان میں مُسلمانوں کے لئے بین ہے اور غیر مُلکی و غیر مذہب پیتے بھی ہیں، بیچتے بھی ہیں اور خریدتے بھی ہیں۔ خریداروں میں مُسلمانوں کا نمبر سب سے زیادہ ہے۔ واہگہ کے راستے سمگل ہوکر کتنی شراب اِنڈیا سے آتی ہے؟ اُس کو ریگولرائز کیوں نہیں کرتے؟ پی سی، سرینا، میریٹ، یا کِسی بھی بڑے ہوٹل اور جیمخانہ میں ہر برانڈ دستیاب ہے۔

ہمارے مُلک کی اپر مڈل اور ایلیٹ اور رُولنگ ایلیٹ میں سے چند فیصد افراد ہی شراب نہیں پیتے ہوں گے۔ شراب جذباتی اور راسخ العقیدہ مُسلمان کے لئے غُصے، نفرت یا مذہبی جذبات کے مجروح ہونے کی وجہ ہوسکتی ہے باقی لوگ کل بھی پیتے تھے آج بھی پیتے ہیں، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک فُضول بحث ہے اور سوائے سستی جذباتیت کے اِس میں کُچھ نہیں رکھا۔

یہ گلیورز کا قصہ، بغداد کا قصہ اور ہمارے پاکستان میں موجودہ زیادہ تر بحثیں یہ دراصل معاشرے پر ایک لطیف لیکن جانکن طنز ہے کہ جب معاشرے اپنے اصلی مسائل کو چھوڑ کر ایسے لایعنی اور کم اہمیت مباحثوں میں مشغول ہوجاتے ہیں تو اُن کی تباہی آسمانوں میں کہیں لِکھ دِی جاتی ہے۔ پاکستان میں مسائل کیا کیا ہیں وُہ آپ مُجھ سے بہتر جانتے ہیں لیکن دِل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا واقعی شراب پاکستان کا مسئلہ ہے یا ہم نے باقی تمام مسائل حل کر لئے ہیں کہ اب شراب پر بحث کرلِی جائے؟
نوٹ : شراب اِسلام میں حرام ہے، پاکستان اِسلام کے نام پر بنا ہے یہ مُجھے معلوم ہے۔ اِس لئے یہ بتانے میں اپنی توانائیاں صَرف کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).