سانحہ اے پی ایس اور سقوط ڈھاکہ سے ہم نے کیا کچھ سیکھا؟



آج 16دسمبر 2018 ہے۔16دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور کا خونی سانحہ رونما ہوا تھا۔گزشتہ چار سالوں کی طرح آج بھی شہید کئے جانے والے سینکڑوں بچوں کے لئے شمعیں جلیں گی۔ایک بار پھر ہماری آنکھیں نم ہوں گی ۔ایک بار پھر ان دہشت گردوں کی مزمت کی جائے گی جنہوں نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم بچوں کا قتل عام کیا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم انفرادی اوراجتماعی طور پر حساس انسان ہیں ۔ہمیں غم کا اظہار کرنا چاہیئے ۔سوال یہ ہے کہ کیا غم منانا ،آنکھوں میں آنسو برپا کرنا اور درندوں کی مزمت کرنا کافی ہے؟سانحات سے قومیں بنتی بھی ہیں اور تباہ بھی ہوتی ہیں۔سانحات سے قومیں کمزور بھی ہوتی ہیں اور طاقتور بھی ۔سوال یہ ہے کہ ان سانحات سے ہم نے کچھ سیکھا؟
اے پی ایس سانحہ انسانی تاریخ کا ایک بدترین سانحہ تھا۔ایسا سانحہ کسی بھی قوم کے لئے فیصلہ کن موڑ ہوتا ہے۔اس طرح کے سانحہ کے بعد قومیں سوچتی ہیں کہ اب انہوں نے کیا کرنا ہے؟ کیا ریاست پاکستان نے اس سانحے کے بعد فیصلہ کن موڑ اختیار کیا؟ کیا ریاست کا دوغلا پن ختم ہوگیا ہے؟ اس سانحے کے بعد کیا ریاست نےفیصلہ کن نظریاتی متبادل بیانیہ اختیار کیا؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اگر متبادل بیانیہ نافذ کیا جاتا تو صورتحال کتنی مختلف ہوتی؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہماری ریاست کی وہی پالیسی ہے کہ ہم شیر کے ساتھ بھی ہیں اور شکاری کے ساتھ بھی؟

آج سے 47 سال پہلے 16 دسمبر 1971 کے دن سقوط ڈھاکہ ہوا تھا۔ اس دن اہلیان بنگلہ دیش یوم آزادی مناتے ہیں اور ہم افسردہ ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یوم سقوط ڈھاکہ سے ہم نے کیا سیکھا؟ 16 دسمبر 1971 کے بعد ریاست پاکستان کو اپنا احتساب کرنا چاہیئے تھا۔ کیا ریاست پاکستان نے اپنا احتساب کیا؟ ہمیں یوم سقوط ڈھاکا کو یوم احتساب ریاست کے دن کے طور پر منانا چاہیئے تھا، کیا ایسا ہوا؟ ریاست ،طاقتور اداروں اور حکومتوں کو چاہیئے تھا کہ وہ سولہ دسمبر 1971 کے آیئنے میں باقی پاکستان کو بار بار دیکھتے، سوچتے کہ کیسے ہم ریاست کے روایتی ،سیاسی اور نظریاتی ذہنی فریم ورک کو توڑ کر باہر نکل سکتے ہیں،کیا ایسا ہوا؟16  دسمبر 1971 کے سانحے کے صدقے ہم پاکستان کے وفاقی یونٹوں کے درمیان سیاسی ،اقتصادی ،نظریاتی اور قومیتی عدم توازن ختم کرسکتے تھے، کیا ہم اس میں کامیاب ہوئے؟ اگر ہم سولہ دسمبر 1971 کے سانحے سے سبق سیکھ لیتے تو تمام مسائل حل ہوچکے ہوتے اور دنیا کی ترقی یافتہ ریاستوں میں ہماری ایک شناخت ہوتی۔ لیکن ہم آج بھی وہی کھیل کھیل رہے ہیں جو کھیل ہمارے خون میں رس بس چکا ہے۔ مرضی کی جموریت لائی جا رہی ہے؟ مرضی کے سیاستدان حکومت کر رہے ہیں؟ کبھی سوچا کہ ہم ایڈہاک حکمرانی کی صورتحال سے کیسے ،کیوں اور کب نکلیں گے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ طاقتورسیاستدان اور ریاستی ادارے سولہ دسمبر 1971 اور سولہ دسمبر 2014 جیسے سانحات کے حقیقی ذمہ دار ہیں؟ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ ہم نے ایک علاقے کی ثقافت ،سیاست ،سماج ،ںطریات کی حقیقت کا انکار کیا جس کے سبب پاکستان دو ٹکڑے ہوا؟ یاد رکھیں ہم جتنا بھی 16 دسمبر 1971 اور 16 دسمبر 2014 کے سانحات کو بھولنے کی کوشش کر لیں ،ہم بھلا نہیں پائیں گے۔ یہ دونوں سانحات تاریخ کا حصہ ہیں ۔جب تک ان سانحات کے آیئنے میں ہم صورتحال کو نہیں سمجھیں گے، معاملات درست نہیں ہوں گے اور اس طرح کے مزید سانحات ہونے کا اندیشہ رہے گا؟ ان سانحات کوبھولنے کی بجائے ہمیں ان کو یاد رکھنا چاہیئے تاکہ ہم سوچیں کیا غلطیاں ہوئی ہیں اور کیسے ان غلطیوں کو درست کیا جائے ۔صرف نصاب کی کتابوں میں یہ لکھ دینا کہ 16 دسمبر 1971 کو پاکستان دشمن کی مکروہ سازش کی وجہ سے دولخت ہوا تھا ،اس سے کام نہیں چلے گا۔ سوال یہ ہے کہ دشمن کی سازش کے ساتھ ساتھ ہماری کتنی کوتاہیاں تھی؟ہم نے کیوں سینتالیس سال بعد بھی ان کوتاہیوں پر توجہ نہیں دی؟
جب تک ریاست اپنا احتساب نہیں کرے گی اور شتر مرغ کی کیفیت سے باہر نہیں نکلے گی ۔معاملات ایسے ہی رہیں گے؟ سولہ دسمبر 1971 کے سانحہ کے حوالے سے جسٹس حمودالرحمان کمیشن تشکیل دیا گیا ۔سوال یہ ہے کہ جسٹس حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ شائع کیوں نہیں کی گئی؟ وہ رپورٹ لیک ہوکر بھارتی اخبار میں شائع ہوگئی؟ لیکن پاکستانی نہیں جانتے کہ اس رپورٹ میں کیا تھا؟ کیا جسٹس حمود الرحمان کمیشن حکومت پاکستان نے نہیں بنایا تھا؟ اس کمیشن کی رپورٹ جاری نہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟ آرمی پبلک اسکول کی انکوائری کہاں ہے؟ شہید ہونے والے سینکروں بچوں، بچیوں کے والدین آج بھی بے یار ومدگار ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کا اس طرح کیوں قتل عام کیا گیا؟ کیا ان مظلوم والدین کو کچھ بتایا گیا ہے؟ کیا جوڈیشل انکوائری ہو گئی؟ صرف شہید ہونے والے بچوں کے لئے رونا دھونا، ہر سال ان کے لئے ایک نیا ملی نغمہ بنا لینا، جذبات سے کھیلنا ،اس سے صورتحال تبدیل نہیں ہوگی ۔ریاست پاکستان کو حقائق میں گھسنا ہوگا ،ایسا ہوگا تب ہی نیا پاکستان بنے گا ؟
سانحہ کوئٹہ رپورٹ کا کیا ہوا؟ جی جی جسٹس قاضی فیض عیسی رپورٹ ؟ کیا اس رپورٹ پر عمل در آمد ہوا ؟ صرف یہ کہنا کہ شہید بچوں کی قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، یہ کوئی فلسفہ نہیں۔ کس چیز کی قربانی؟ کیا بچے اسکول میں قتل ہونے کے لئے گئے تھے؟ یہ قربانی نہیں تھی یہ معصوم بچوں کا وحشیانہ قتل عام تھا؟
یاد رکھیں جب تک ہم سچ کو تسلیم نہیں کریں گے ،سچ کو سننے کا حوصلہ نہیں رکھیں گے، صورتحال تبدیل نہیں ہوگی۔ 16 دسمبر 1971 کے مسئلے کاحل یہ نہیں کہ غداروں اور کافروں کی فیکٹریاں بڑھاتے جائیں۔اب سب جان چکے ہیں کہ کسی کو غدار یا کافر قرار دینے کا کلاسیکل تکنیکی کھیل صرف حقائق اور سچ سے توجہ ہٹانا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).