گلگت بلتستان کے آئینی تشخص کی تلاش



اپنے آئینی تشخص کی تلاش اور ملک کا آئینی صوبہ بننے ، عبوری صوبہ بننے، مقبوضہ کشمیر طرز کا سیٹ لینے یا پھر آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ لینے کے لئے دربدرگلگت بلتستان نازک موڑ پر آکر کھڑا ہوا ہے۔ نتائج پر لگی نظر سے ہٹ کر اس دوران ہونے والی موومنٹ بڑی اہمیت کی حامل رہی ہے ۔ بالائی اور زیلی ایوانوں اور فورموں میں سنجیدگی سے گلگت بلتستان زیربحث رہا۔گلگت بلتستان کی آئینی تشخصکا یہ معاملہ اس وقت پاکستان، انڈیا، مقبوضہ کشمیر ، آزاد کشمیر اور سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے۔کمیٹیوں پر کمیٹیوں اور تاریخ پر تاریخ کا سلسلہ جاری ہے، وفاقی حکومت نے اپنی طرف سے تمام ترسفارشات اور اصلاحات کو موخر کرلیا ہے البتہ سپریم کورٹ میں اب بھی زیر سماعت ہے۔ اس دورانیہ میں گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال حسین مقپون کی وفاقی حکومت کو انتہائی اہم سفارشات ارسال کی ہیں۔جس میں آئینی تشخص کی ضرورت زیر بحث ہے۔

گورنر گلگت بلتستان کے سفارشات کو سامنے لانے سے قبل انڈیا کے زیر انتظام کشمیر عرف عام مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو واضح کرنا ضروری ہے۔ مقبوضہ کشمیر مسئلہ کشمیر کا سب سے اہم علاقہ ہے، ہندوستان کے زیر انتظام اس علاقے میں کم و بیش ہر موسم میںجنگ کا سماں رہتا ہے،اس جدوجہد سے قطع نظر انڈیا نے اس حصے کو دیگر ہندوستانی ریاستوں کے مقابلے میں خصوصی حیثیت دی ہوئی ہے جس کے لئے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں،مقبوضہکشمیر آئین ِ ہند میں درج ہے، جس کا رہنماءاصول کشمیری قیادت اور ہندوستان حکومت کے مابین 1950 کی دہائی میں کیاگیا معاہدہ ہے، ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 370 میں مقبوضہ کشمیر کی عبوری حیثیت ‘تا مسئلہ کشمیر کے حل ‘تک درج کی گئی ہے اس آرٹیکل میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق تمام اختیارات صدر ریاست انڈیا کو دئے گئے ہیںکہ صدر ہندوستان مقبوضہ کشمیر کے مشاورت سے کوئی بھی فیصلہ کرے گااس کے علاوہ یہ ایک مفصل آرٹیکل ہے جس میں مقبوضہ کشمیر میں فرائض و زمہ داریوں کو درج کیا گیا ہے۔ انہی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے صدر نے آرٹیکل 35 میں ایک زیلی آرٹیکل کا اضافہ کرتے ہوئے آرٹیکل 35-A درج کیا جس میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت اور مراعات کا اندراج ہے ، اسی آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر کی ‘شہریت ”نان کشمیری ‘پر بند کردی گئی ہے جس کی وجہ سے کشمیر کے مسلمانوں کی اکثریت اب بھی محفوظ ہے۔

پاکستان کے آئین میں بھی ریاست کشمیر کے حوالے آرٹیکل 257 موجود ہے تاہم اس آرٹیکل میں کچھ بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے سوائے اس کے کہ ‘جب کشمیری پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کریںگے تو دیگر معاملات کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق طے ہونگے، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی بھی اسلامی ملک کشمیر کے ساتھ اپنے مسلم علاقے کے طور پر اپنی ہمدردی رکھتا ہے جبکہ اس کے برعکس ہندوستان میں تمام معاملات طے شدہ ہیں، لیکن اس کے باوجود آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت نے اپنی جدوجہد کے زریعے نہ صرف 1974 میں پارلیمنٹ آف پاکستان سے ایکٹ منظور کرایا بلکہ 2018 میں جب جی بی کو آرڈر جاری کیا جارہا تھا اس وقت 13ویں ترمیم کے ساتھ اسے عبوری آئین قرار دیکر نافذالعمل کردیا اس کے علاوہ متعدد معاہدے وفاقی حکومت کے ساتھ طے پاگئے ہیں جن میں اختیارات، روینو شیئرنگ ، آسامیوں کا فارمولہ سمیت دیگر فارمولے طے کئے جاچکے ہیں۔ مگر گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا انتہائی حساس اور اہم حصہ ہونے کے باوجود کسی بھی ملک کے آئین میں شامل نہیں ہے، اور معاملات ہر اس بندے کی خواہش کے مطابق طے ہورہے ہیںجو وفاق میں اپنا اثررسوخ رکھتا ہے، یہ صورتحال 15لاکھ سے زائد عوام کے لئے ایک فکر کی محرومی کا سبب بنی۔ اصلاحات در اصلاحات کے باوجود گلگت بلتستان ابھی تک اس نہج پر نہیں پہنچا ہے جہاں سے اس کی حیثیت واضح ہوجائے ۔

گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال حسین مقپون کے دستخطوں سے بھجوائے گئے سفارشات میں انہی مسائل کی روشنی ڈالی گئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرلیا ہے ۔اس متنازعہ حیثیت کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے آزاد کشمیر کو سوائے کرنسی،خارجہ اموراور دفاع کے علاوہ سارے اختیارات آزاد کشمیر کے عوام کی منتخب حکومت کو سپرد کیا گیا ہے۔ اسی منطق کو مدنظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو آئین پاکستان میں شامل کرلیا جائے ۔جس کے لئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 257میں ترمیم کرتے ہوئے 257-Aکا اضافہ کیا جائے ، جس میں گلگت بلتستان کی عبوری حیثیت درج کرتے ہوئے عبوری طور پر صوبہ بنایا جائے۔جو کہ مسئلہ کشمیر کے حتمی فیصلے تک نافذ العمل رہے گا۔ گورنر جی بی نے ان سفارشات پر دلائل دیتے ہوئے مزید کہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 1999 کے فیصلے اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کو نقصان پہنچائے بغیر جی بی کو امپاور کرنے کا بہترین راستہ ہے ۔ گورنر گلگت بلتستان نے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لئے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنیادی حقوق کی ضمانت صرف اور صرف ایک عدالت عظمیٰ کے زریعے ممکن ہے اور عدالت عظمیٰ کے حدود کو جی بی تک توسیع دینے کے لئے آرٹیکل 175 تا209میں بعض ترامیم کی جاسکتی ہیں۔اور گلگت بلتستان میں ججوں کی تقرری کے لئے وہی فارمولہ اختیار کیا جائے جو ملک بھر میں رائج ہے تاکہ انصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوسکے۔ گلگت بلتستان میں موجود تمام مسائل کا واحد حل خصوصی حیثیت دیتے ہوئے عبوری صوبہ بنانے میں ہے۔ اس طریقے پر چلنے سے انڈیا کا منہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائیگا، جی بی کے لوگوں کی 70 سالہ محرومیاں ختم ہونگی، عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی مطمئن ہونگی اور جی بی میں چلنے والے میگا ترقیاتی منصوبوں کے لئے بھی مدد ملے گی ۔ اور اسی طریقے سے گلگت بلتستان کے عوام کا استصواب رائے کا حق محفوظ ہوجائیگا ۔

گورنر جی بی کے سفارشات جہاں نہایت اہمیت کے حامل ہیں وہی پر مستقبل قریب میں ان کی اہلیت پر بھی سوال اٹھا ئیںگے کہ اگر متذکرہ بالا سفارشات پر ان کی اپنی پارٹی کی وفاقی حکومت عملدرآمد نہیں کرائے گی تو اس کی حیثیت کیا بنے گی؟ یہ سفارشات پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی قیادت کے نہیں ہیں کیونکہ انہیں اس ایشو کی ابھی تک سمجھ ہی نہیں آئی ہے اوپر سے طرح طرح کی دھڑے بندیوں نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے ، پھر وفاقی کابینہ سے سفارشات کو موخر کرنے پر منہ چھپائے پھررہے ہیں۔ اور واحد امید کا راستہ علی امین گنڈاپور اور عمران خان کے کندھوں کے زریعے اگلے انتخابات میں حصہ لینا لگ رہا ہے ۔

گلگت بلتستان کے آئینی تشخص کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت پیپلزپارٹی کے زریعے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس میں گو کہ زیادہ تر سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے علی الاعلان شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پیپلزپارٹی اس اے پی سی کے زریعے روایتی مخالف (بحوالہ موقف) تنظیم اہلسنت والجماعت اور انجمن امامیہ کو ایک پیج پر لانے میں کامیاب ہوگئیں۔ اور مشترکہ اعلامیہ کے زریعے گلگت بلتستان کو اقوام متحدہ کی قرارداددوں کی بنیاد پر متنازعہ علاقہ قرار دیدیا۔ آل پارٹیز کانفرنس سے آئینی حقوق کے حوالے سے 180 زاویہ پر رہنے والی دونوں نمائندہ جماعتوں میں جمود ٹوٹ گیا ہے اور واثق امید ہے کہ ایک پیج پر آنے کے اس عزم سے مستقبل میں گلگت بلتستان کو اپنی سمت کے تعین کرنے میں مدد ملے گی ۔ پیپلزپارٹی کی اس کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کی عدم شرکت نے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ مسلم لیگ ن کی نمائندگی کرنے والے اورنگزیب ایڈوکیٹ متعدد ایشوز پر پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کی حمایت لینے میں کامیاب ہوگئے جبکہ پیپلزپارٹی نے بھی مسلم لیگ ن کو اپنے موقف پر لاکر کھڑا کردیا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).