امبانی کی شادی: سال کا سب سے بھیانک سچ


بغیر کسی تمہید کے سال کا سب سے بھیانک سچ سنیے۔ وہ یہ کہ بھارت کے نمبر ون کھرب پتی مکیش امبانی کی بیٹی کی شادی میں، تمام ہندوانہ رسوم کا پالن کرنے پر بھگوان ان سے بے حد خوش ہوا۔ پندرہ ملین امریکی ڈالر کی لاگت سے ہونے والی یہ شادی غربت کے گھپ اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارتے بھارتیوں کو کچھ اس لیے بھی سرتاپا نہال کرگئی کہ تقریب میں سابق امریکی خاتونِ اول ہیلری کلنٹن اور سینیٹر جان کیری بھی ”اوم جے جگ دیش ہرے“ کی لے پر کھڑے آرتی اتارتے نظر آئے، جس سے ہندوتوا سماج کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔

ڈیڑھ ڈالر روزانہ پر جینے والے بھارتیوں کی اکثریت اپنی غربت کی لکیر پر پڑنے والے ریلائینس کمپنی کے ہاتھی جیسے پاؤں سے صرفِ نظر کرکے اس کھوج میں لگی رہی کہ بولی وڈ کے خانوں اور دیگر مسلمان اداکاروں نے بھی آرتی اتاری یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ سنگیت کی ساری محفلوں میں ٹھمکے لگانے کے بعد انہیں اچانک اپنا مذہب یاد آگیا ہو۔ ٹویٹر پر بھارتی شہری مکیش امبانی کو مبارک باد دیتے رہے کہ انہوں نے ہندو مذہبی رسومات کا خیال رکھ کر سب کے دلوں میں اپنی عزت اور قدر میں مزید اضافہ کرلیا ہے۔

بھارتیوں کے خیال میں اتنا پیسہ آنے کے بعد تو انسان کے دماغ ہی فرش سے عرش پر پہنچ جاتے ہیں لیکن مکیش امبانی بیٹی کی شادی میں جس عاجزی اور انکساری کا پیکر بنے رہے ایسی مثال تو بے چارے بھارتیوں نے پہلے کبھی دیکھی ہی نہیں، ایسی دریا دلی کہ چار روز تک ادے پور میں اکیاون ہزار لوگوں کو تین وقت کا کھانا کھلایا گیا۔ اس سے بڑا بھیانک سچ بھلا کیا ہوگا کہ عام شہریوں کے غصب کردہ وسائل ذاتی خواہشات کی بھڑکتی آگ میں جھونکنے والے انیل امبانی، اس شادی کے بعد بھارتی ہندوؤں کی طرف سے کسی ہیرو کی طرح سراہے گئے۔ ایشا امبانی بھارتی قوم کی بیٹی قرار پائی۔ سوشل میڈیا ہندو دھرما نعروں سے ایسے گونجنے لگا کہ ممبئی میں واقع مکیش امبانی کے ستائیس منزلہ عالی شان محل کو بس مندر کا درجہ دینے کی ہی کسر رہ گئی۔

بھیانک سچ یہیں ختم نہیں ہوا اور بھی سنیے۔ 47 ارب امریکی ڈالر کے کل اثاثوں کے مالک مکیش امبانی کے تلوے چاٹتے ہوئے بولی وڈ کے مشہور ستارے ان کی بیٹی کی شادی میں جم کر صرف ناچے ہی نہیں بلکہ مہمانوں کو کھانا پروسنے کے لیے ویٹر بھی بنے رہے۔ شاہ رخ خان، عامر خان، ایشوریا رائے، ابھیشک بچن اور امیتابھ بچن سے بھگوان جانے مکیش امبانی نے کون سے جنم کا بدلہ چکایا کہ انہیں کھانا پروسنے کے کام پر لگا دیا اور بھارتیوں کے دیوتاؤں جیسے یہ سپراسٹار جانے کس مصلحت اور مجبوریوں کا شکار تھے کہ شادی میں ویٹر کا فرض انجام دیتے ہوئے ان کے ماتھے پر ایک بَل نہ آیا، بلکہ وہ باچھیں کھلائے اسے ہندووانہ شادیوں کی ایک رسم قرار دیتے رہے، جس میں لڑکی والے لڑکے والوں کو کھانا پروستے ہیں۔ کمال ہی ہوگیا! قوم نے اب جانا کہ لڑکی کے والدین اور بھائیوں سے زیادہ سگے تو یہی فن کار تھے، جن کے حصے میں یوں شرفِ میزبانی حاصل کرنا آیا۔ فن اور فن کاروں کی اس تذلیل سے مکیش امبانی کی اپنی فن کاریاں بھی کھل کر سامنے آگئیں جو انہوں نے ہمیشہ سادگی کے لبادے میں دفنا کر رکھی ہوئی تھیں۔

نصف صدی کے دوران یہ شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کی شادی کے بعد دنیا کی دوسری مہنگی ترین شادی قرار پائی ہے۔ مکیش امبانی کئی سال سے بھارت کے سو کھرب پتی افراد میں سر فہرست ہیں۔ پہلی بیٹی کی شادی میں انہوں نے اپنے دیس کے غریبوں کا اس خوبی سے ٹھٹھا اڑایا کہ ان بے چاروں کو پتا بھی نہ چلا۔ باقی دو بیٹوں کی شادی میں اللہ جانے کیا طوفان برپا کریں گے اور اس پر مفلس بھارتی اور کس طرح جھومیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن حیرت ہے کہ عوام سے لے کر میڈیا تک کسی نے ان سے یہ سوال نہیں کیا کہ شادی میں خزانے کا جو منہ انہوں نے کھولا تھا، اتنی دولت آخر جمع کیسے کی؟ کسی نے یہ نہیں بتایا کہ ان امیروں کی دولت کے حصول کی لت نے کتنے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کیے ہیں۔

بھارت جیسے مثالی جمہوری معاشرے میں غربت کی شرح جتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے وہیں حیرت انگیز طور پر کھرب پتیوں کی جائیداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مکیش امبانی کی دولت کے راز سے کون واقف نہیں۔ لیکن افسوس ناجائز طریقوں سے دھن دولت حاصل کرنے کے باوجود انہیں بھارتی میڈیا ایک کرپٹ بزنس مین کے بجائے فادر آف نیشن جیسا درجہ دیتا ہے۔ ان کی اسی اہمیت کے ہیشِ نظر 2008 میں ایک رپورٹر نے ان سے سوال کیا کہ کیا بھارت کو انتہائی غربت کے چنگل سے نکالنا ممکن ہو گا؟ اس کا جواب انہوں نے کڑک دار لہجے میں دیا اور کہا، ”ہاں صرف دس سے پندرہ سال میں آپ دیکھیں گے کہ ایسا ہو گا۔ ہم بہت تیزی سے نئے انڈیا کی جانب بڑھ رہے ہیں، جہاں آپ ایک مضبوط سوشل انفرا اسٹرکچر دیکھیں گے اور اس انڈیا میں اونچ نیچ کا کوئی تصور نہیں ہوگا۔ “

آج دس سال بعد مکیش امبانی نے ثابت کردیا کہ انڈیا واقعی بدل چکا ہے لیکن صرف ان کے اور ان جیسوں کے لیے۔ اونچ نیچ تو خیر کیا ختم ہوتی، ایسا سوشل انفرا اسٹرکچر تعمیر ہوچکا ہے جہاں غریب اپنی کھولی سے جھانک کر باہر کی دنیا دیکھنے سے بھی خوف زدہ ہے۔ نئے بھارت میں چند ارب پتی خاندانوں کا راج ہے، جن کے بچے ہیرے جواہرات سے مزین کپڑے زیب تن کرتے ہیں اور دیس کے آدھے بچے سردی سے ننگا بدن بچاتے ہوئے گٹر لائنوں میں سوتے ہیں۔

پھر بھی میڈیا میں مکیش کو ایک ایسا ارب پتی تاجر قرار دیا جاتا ہے جس کا دل بھارت کے غریبوں کے لیے خون کے آنسو روتا ہے۔ لوگ اسی بات پر ان سے خوش ہیں کہ وہ انگریزی کے بجائے گجراتی میں بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، مذہب پر سختی سے کاربند ہیں حتی کہ دورانِ سفر بھی مندروں کے سامنے گاڑی رکوا کر بھگوان کے چرن چھوتے اور آشیرواد لیتے ہیں۔ لیکن افسوس! کسی بھگوان نے ان کو دولت کمانے کی اخلاقیات سکھائیں نہ ہی دولت کی منصفانہ تقسیم کا اصول۔ ان کو کسی نے ویدوں میں لکھے سادگی کے پاٹھ نہیں پڑھائے۔ کسی مندر نے ان کے اندر احترامِ آدمیت کی شمع روشن نہ کی۔ پھر بھی وہ ہندؤں کے ہیرو ہیں۔ کیوں؟ کیوں کہ ان کے پاس بے تحاشا دولت ہے، سو سمے بھی ان کا ہے اور یار بھی سارے ان کے ہیں۔ اور یہی اس سال کا سب سے بھیانک سچ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).