کچھ ذکر محمد انور خالد کا ….


محمد انور خالد کی شاعری نے مجھے دفعتاً 1996 میں اپنی گرفت لے لیا تھا۔ پھر شاعر سے کچھ خط و کتابت بھی ہوئی۔ اگست 2005 میں یہ نعمت ہمیشہ کے لئے اوجھل ہو گئی۔ 2006ء کے اواخر میں علی افتخار جعفری کی غزل پسند آئی تو فروری 2014ء میں علی بھی بچھڑ گئے۔ اب کسی زندہ شاعر سے محبت کرنے کی ہمت نہیں رہی۔ فروری 2015 میں ایک کالم محمد انور خالد کی نذر کیا تھا۔ اس میں ایک خواہش بھی درج تھی کہ شاعر کا کل کلام شائع کر دیا جائے۔ مکرم اجمل کمال کی عنایت سے “آج کی کتابیں” نے محمد انور خالد کی کلیات “ریت آئینہ ہے” شائع کر دی ہے۔ انور خالد کم گو تھے۔ کلام بھی مختصر ہی ہے مگر ایک ایک سطر میں جوالا مکھی رکھا ہے۔ قیمت صرف 300 روپے ہے۔ گویا پیو کہ مفت لگا دی ہے خون دل کی سبیل۔۔۔

٭٭٭    ٭٭٭

خاکسار کو مقبول لکھنے والے کا درجہ حاصل نہیں۔ کبھی کوئی مہربان ایک آدھ سطر سے حوصلہ افزائی کر دیتا ہے۔ کہیں سے کوئی اختلافی زاویہ بھی سنائی دے جاتا ہے۔ لکھنے والے کو پڑھنے والے کے ردعمل پر ہمیشہ احسان مند رہنا چاہیے۔ پڑھنے والے کو حق ہے کہ بے اعتنائی سے صفحہ پلٹ دے یعنی ’اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے‘ ہی سے انکار کر دے ۔ اور اگر چاہے اڑتی اڑتی سی اک نظر ڈال کر اخبار ایک طرف رکھ دے۔ اگر چاہے تو غور سے پڑھ کر اپنی فہم اور اپنے مشاہدے کی روشنی میں رد کر دے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ لکھنے والے کی تال پر پڑھنے والے کے اندر کا سر بیدار ہو جائے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب تحریر سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھتی ہے۔ اس کے پروں پر رنگوں کی قوس قزح نمودار ہوتی ہے۔

حالیہ تحریروں میں ایک آدھ بار محمد انور خالد کا ذکر آیا اور کہیں ان کا کوئی اقتباس چلا آیا تو پڑھنے والوں میں اشتیاق پیدا ہوا۔ چمن سے محترم عزیزی اچکزئی نے لکھا کہ نظم کے استعارے وضاحت کے محتاج ہیں۔ ڈاکٹر محمد ایوب سے قدیم نیاز مندی ہے۔ ملتان نشتر میڈیکل کالج سے آنے والے ڈاکٹر ایوب اعوان اور ڈاکٹر ارشد وحید نے ہم جیسوں کو نوجوانی میں جدید اردو شاعری سے متعارف کرایا تھا۔ ڈاکٹر ایوب نے بھی انور خالد کی شاعری کے بارے میں استفسار کیا تو خیال آیا کہ غالباً انور خالد کا کچھ اجمالی تعارف ہونا چاہیے۔ معلوم تو ہو کہ کیسے کیسے جواہر پارے ہماری غفلت کے پردے میں اوجھل ہو گئے۔ جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر، وہ لوگ آنکوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کسی نظم کی سادہ اور اکہری تشریح کرنا اور اسے شعر کا حتمی معنی قرار دینا بدذوقی کہلاتا ہے۔ شاعری تو کہا ہی اسے جاتا ہے جو کسی دوسری زبان میں تو کیا، خود اسی زبان کے کچھ مختلف الفاظ اور پیرایہ ¿ اظہار میں بیان کی متحمل نہیں ہوتی۔ شاعری کے کسی نمونے کی ایک سے زیادہ تشریحات ممکن ہوتی ہیں اور ان میں کسی ایک تشریح کو غلط یا کسی دوسری تفہیم کو صحیح کہنا درست نہیں ہوتا۔ تاہم پڑھنے والوں کی محبت کے تشکر میں اس بدذوقی کا ارتکاب کرنے میں ہرج نہیں ۔ اگرچہ یہ وضاحت ضرور کرنی چاہیے کہ یہ تشریح میری ذاتی رائے ہے۔ مجھے اپنی سوجھ بوجھ پر اصرار نہیں ہوتا ۔ اپنی رائے میں غلطی کا احتمال ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے۔

محمد انور خالد کی نظم ”میں نے تحریر کیا“ میں متعدد تاریخی حوالوں اور استعاروں کی مدد سے حکمرانی اور عوام کے تضاد نیز اہل دانش کے دیوالیہ پن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ’آثار صنادید‘ سرسید احمد خان کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے دہلی کی تاریخی عمارات نیز مغل نوادرات کا اشاریہ مرتب کیا تھا۔ اس کتاب میں مغل عہد کی تعریف کی گئی ہے۔ غدر کے بعد سرسید احمد خان نے ’رسالہ اسباب بغاوت ہند‘ لکھا جس میں مغل عہد کی دل کھول کر مذمت کی گئی تھی۔مغل رئیس محمود خان کو جگہ جگہ ’نامحمود خان‘ لکھا گیا۔

تاریخ فرشتہ معروف ہندوستانی مورخ محمد قاسم فرشتہ کی تصنیف ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں جن حکمرانوں کی تعریف کی تھی، بعد ازاں ’دربار عزازیل‘ نامی کتاب لکھ کر ان کی مذمت کی۔ اسی رویے کی ایک مثال عبدالحلیم شرر کی تصنیف دربار حرام پور ہے۔ اس کتاب میں ’علم مسہری‘ کے جو دلچسپ زاویے بیان کئے گئے ہیں انہیں اخبار میں نہیں لکھا جا سکتا۔ صدق جائسی کی معروف کتاب دربار دُر بار (یعنی ایسا دربار جس پہ موتی برستے تھے) حیدرآباد دکن کے دربار کی تعریف میں لکھی گئی تھی۔ یہ کتاب بازار میں دستیاب ہے ۔تاہم اس کے اقتباسات یعنی اس دربار پر برسنے والے چنیدہ جوہر پارے بھی ضبط تحریر میں لانا آسان نہیں۔

’خط کوفی‘ خطاطی کا ایک معروف اسلوب ہے۔ مسلم تاریخ سے معمولی شد بد رکھنے والے جانتے ہیں کہ کوفہ سے دعوت نامہ کس مقدس ہستی کے نام لکھا گیا تھا۔ یہاں شاعر ’خط کوفی‘ اور ’کوفہ سے لکھے جانے والے خط‘ میں رعایت لفظی سے کام لیتے ہوئے اقتدار کے کھیل کی اونچ نیچ بیان کر رہا ہے۔ ’شام کا بازار‘ مسلم تاریخ کا معروف باب ہے۔ اسی طرح ’خط عارض‘ خطاطی کا ایک اسلوب ہے جس میں حروف کی گولائیوں کی مدد سے خوبصورتی پیدا کی جاتی ہے ۔ ’حلقہ گردن‘ سے شاعر کی مراد عوام اور ’عیار کی زنبیل‘ سے حکمران طبقے کے استحصالی ہتھکنڈے مراد ہیں۔

اس نظم میں شاعر نے تاریخی تلمیحات کی مدد سے عوام دوست شعور کا اظہار کیا ہے۔ نظم کا مکمل متن حاضر خدمت ہے لیکن پہلے کچھ مزید ذکر محمد انور خالد کا….

اردو شاعری کے پڑھنے والے محمد انور خالد سے کچھ ایسے نا آشنا نہیں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے تناظر میں خالد انور نے ’بخت خاں آنکھ اٹھاﺅ کہ ہرا جنگل ہے‘ جیسی سطر لکھی تھی۔ ہوائی جہاز کے حادثے میں ضیاالحق رخصت ہوئے تو انور خالد نے لکھا ’تو وہ ایسے گیا جیسے زمیں سے گھاس جاتی ہے‘۔ اختر حسین جعفری اور ثروت حسین کے بعد محمد انور خالد نے اردو نظم کی آبرو بڑھائی۔ انور خالد 1952ءکے برس میں دریا، گھاٹ اور کشتیوں کی اس اٹھلاتی ، گنگناتی دھرتی پر پیدا ہوئے تھے جو کبھی مشرقی پاکستان کے نام سے جانی جاتی تھی۔ پاکستان دو لخت ہوا تو وہ باقی ماندہ پاکستان چلے آئے۔ اس آشوب میں وہ سب دیکھا اور جھیلا جو اجتماعی خطاﺅں کی پاداش میں فرد پر گزرتا ہے۔

انگریزی ادب میں اعلیٰ تعلیم پانے والے محمد انور خالد کراچی میں تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے۔ فلسفے سے شغف تھا اور زندگی کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ واردات کے کاٹ دار بیان اور تاریخی شعور سے ’ریت کے آئینے‘ پر آج کی تصویر کے خدوخال تراشنے والے محمد انور خالد کی شخصیت میں وہ متانت تھی جو وجود اور فنا کی جدلیاتی کشاکش کے گہرے ادراک سے کشید کی جاتی ہے ۔ محمد انور خالد کا مجموعہ کلام ’ریت آئینہ ہے‘ کے عنوان سے 1993 میں کراچی سے شائع ہوا تھا۔ ایک آدھ دفعہ ان کے برادر بزرگ محمد راشد انور سے درخواست کی ہے کہ یہ مجموعہ اور باقی ماندہ کلام شائع فرما دیجئے۔ ابھی انتظار ہے۔ دیکھئے ، ہم کو چاہنے والے کب چاہیں۔ حسن ، امن اور انسانی آسودگی کا خواب دیکھنے والوں نے آج سے دس برس قبل یہ خبر گہرے دکھ سے سنی تھی کہ اب کوئی خط کوفی میں شام کے بازار کا حال نہیں لکھے گا کیونکہ فلسفہ و فکر کی تنسیخ پر کڑھنے والا محمد انور خالد 4 اگست 2005ء کی شام اس کھونٹ نکل گیا تھا جہاں ہری گھاس پر دھانی بادلوں کی چھاﺅں رہتی ہے ۔ گیانی لوگ کہتے ہیں کہ شاعر کی مٹی پر بارش کی بوندیں مسلسل برستی ہیں۔

میں نے گرتی ہوئی دیوار پہ تحریر کیا

جس نے آثار صنادید لکھی ہو وہی اسباب بغاوت لکھے

اس سے پہلے مگر اک رسم ملاقات بھی ہے

یہ بڑھاپے کی سزا ہے کہ جوانی کا عذاب

طشت میں پھول ہیں اور سر پہ سفر کا سورج

اور جو باقی ہے وہ عیار کی زنبیل میں ہے

میں محلات و عمارات سے تجرید کیا

جس نے تاریخ فرشتہ لکھی

وہی دربار عزازیل کا قصہ لکھے

خط کوفی میں لکھے شام کے بازار کا حال

نسخ میں فلسفہ و فکر کی تنسیخ لکھے

خط عارض میں لکھے حلقہ گردن کی گرفت

اسی گردن کی جو عیار کی زنبیل میں ہے

میں نے زنبیل پہ تحریر کیا

جس نے آثار صنادید لکھی ہو، وہی اسباب بغاوت لکھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).