بخشو بی بلی ۔ ۔ ۔ ۔


بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا، کہاوت پر کسی نے قصہ یوں بنایا کہ ایک بلی نے موقعہ پاکر ایک چوہے پر حملہ کردیا۔ جس طرح کرکٹ کے میدان میں شاٹ کھیلتے ہوئے ٹائمنگ کی غلطی ہو جاتی ہے اور گیند میدان سے باہر جانے کی بجائے آسمان سے بھی بلند ہونے کا گمان کرنے لگتی ہے بالکل ایسا ہی کچھ بلی کے ساتھ ہوا، ٹائمنگ رونگ ہونے کی وجہ سے نشانہ چوک گیا اور پورے کا پورا چوہا ہاتھ نہ لگ سکا البتہ اس کی دم بلی کے پنجے میں ضرور آگئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صرف دم ہی بلی کے ہاتھ لگی کیونکہ جان کے آگے دم کی کیا حقیقت ہو سکتی تھی اس لئے چوہا زندگی بچانے کے لئے دم تڑا کر بھاگ نکلا اور بل میں جا گھسا۔

یہ واقعہ اور اس طرح چوہے کا بھاگ نکلنا بلی کے لئے بہت سبکی کا باعث بنا۔ بہت دیر تک بلی سوچتی رہی کہ اب کروں تو کیا کروں کیونکہ جب میں یہ دم لے کر اپنی برادری میں جاؤنگی تو بہت ہی شرمندگی کی بات ہوگی اور اس کی برادری اس پر قہقہے لگائے گی۔ اچانک اس کو ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے دنیا کا سارا درد اور پیار اپنی آواز میں جمع کیا اور چوہے کے بل کے قریب جاکر نہایت پر درد اور پیار بھرے لہجے میں کہا۔ میاں چوہے میں تو تم سے مذاق کر رہی تھی۔ تم سے کھیلنا چاہ رہی تھی۔ تم خوامخواہ ہی ڈر گئے۔ میں نے تمہاری دم یونہی کھیل کھیل میں پکڑی لیکن تم نہ جانے کیوں خوف زدہ ہو گئے اور پورا زور لگا کر بھاگے جس کی وجہ سے تمہاری دم ٹوٹ گئی۔ بغیر دم کیسے لگو گے۔ مجھے اس حادثے پر بہت دکھ ہے۔ تم مجھے معاف کردو۔ میں تمہاری دم کو لیے کھڑی ہوں۔ تم باہر آؤ تو میں اسے جوڑ دوں گی۔ مجھے یہ کام بہت اچھی طرح آتا ہے۔

چوہا اس کی پیار بھری جھوٹی باتوں سے خوب اچھی طرح آگاہ تھا اور جانتا تھا کہ ابھی تو صرف وہ بلی کے ہاتھوں اپنی دم ہی گنوا بیٹھا ہے، اگر باہر نکلا تو اس کی جان بھی جائے گی اس لئے اس نے بل میں بیٹھے بیٹھے زور سے کہا ’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘ ۔

ایک خبر کے مطابق امریکہ بہادر نے کہا ہے کہ ”معاشی مشکلات کم کرنے کے لیے پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں، ۔ تفصیلات کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکا کی اقتصادی مصروفیت کا بنیادی مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ مستقبل میں پاکستان ناکام نہیں ہوگا اور ایک غریب ملک ہونے سے بچ جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی امور کے لیے خزانہ کے انڈر سیکریٹری ڈیوڈ مالپاس نے کانگریس کی سماعت کے دوران قانون سازوں کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتی ہے کہ پاکستان کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا کوئی بھی قرض چین کے قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال نہ ہو۔ کانگریس رکن کے سوال پر ڈیوڈ مالپاس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بارے میں سیکریٹری پومپیو نے ٹھیک کہا تھا، لہٰذا ہم اس بات پر کام کر رہے ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ یہ واضح کیا جائے کہ اگر وہ پاکستان کو کسی بھی طرح کی فنڈنگ دیتا ہے تو یہ چین کے قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان اپنا معاشی پروگرام تبدیل کرے تاکہ اسے مستقبل میں کوئی ناکامی نہ ہو، لہٰذا پاکستان سے متعلق ہمارا بنیادی مقصد یہی ہے“۔

یہ وہی امریکہ ہے جو گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان کو مختلف زاویوں سے ڈراتا دھمکاتا رہا ہے۔ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں بھی سخت رکاوٹ بنا رہا ہے، وہ پاکستان کو دی جانے والی امداد کو بھی روکے ہوئے ہے اور ان ساری دھمکیوں اور رکاوٹوں کا سہارا لے کر وہ پاکستان سے اپنی باتیں منوانا چاہتا ہے اور امداد بحال کرنے کے لئے اپنی شرائط منوانا چاہتا رہا ہے۔ آج وہی امریکہ پاکستان کے لئے اپنی آواز میں سارے درد سمیٹے اور پیار گھولے پاکستان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کر رہے اور لالچ دے رہا ہے کہ وہ پاکستان کو معاشی اعتبار سے کمزور نہیں دیکھنا چاہتا اور چاہتا ہے کہ پاکستان ایک آبرومند قوم کی طرح دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ اس سلسلے میں اس کا کہنا ہے کہ ”امریکہ پاکستان کی اقتصادی صورت حال کو مستحکم بنانے کے لئے ہر قسم کی مدد کرنے کو تیار ہے“۔

امریکہ ساری باتیں بہت اعلیٰ سطح پر نہیں کہہ رہا جس سے شکوک و شبہات کا ختم ہوجانا یا امریکہ کے خلوص کو مان لینا آسان نہیں۔ مثلاً ”کیلیفورنیا کے ڈیموکریٹ کانگریس رکن بریڈ شرمین“ اگر کوئی امداد بحال کرنے کی بازگشت سنتے ہیں تو اس پر یہ خیال بھی ظاہر کرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم پاکستان کے لئے جو امداد روانہ کریں تو وہ امداد چین کے قرضے اتارنے کے لئے استعمال نہ ہو۔ ان کی اس بات پر اس پر ایک اور ممبر ڈیوڈ مالپاس کہتے ہیں کہ ”ہم بھرپور کوششیں کریں گے کہ ایسا نہ ہو اور مجھے یقین ہے کہ کامیاب کوششوں سے وہ نہیں ہوگا جو آپ نے بیان کیا“۔

امداد کا لالچ دینے والے امریکیوں کی بد گمانی کسی مقام پر بھی ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ایک جانب تو وہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کی لالچ پر لالچ دے رہے ہیں اور دوسری جانب آپس میں ہی شکوک شبہات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ چناں چہ ڈیوڈ مالپاس کے جواب میں بریڈ شرمین پوچھتے ہیں کہ واشنگٹن کس طرح اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اسلام آباد آئی ایم ایف پیکج سے جڑی شرائط کو پورا کرے گا تو اس کے جواب پر ڈیوڈ مالپاس کا کہنا تھا کہ ہم ان طریقوں پر غور کریں گے کہ راؤنڈ ٹرپنگ اس طرح نہ ہو جیسے آپ نے بیان کیاتاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے کے لیے اس کی مدد کرنا زیادہ اہم ہے۔

پاکستان اہم بھی ہے اور پاکستان اہم بھی نہیں، یہ مخمصہ اب امریکہ کے گلے کی ہڈی بنتا جا رہا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ایسا لگتا تھا کہ بس امریکہ ابھی کے ابھی پاکستان کو کسی چیونٹی کی مانند کچل کر رکھ دیگا اور پاکستان اس کی جھولی میں آگرے گا لیکن اب یوں لگتا ہے کہ امریکہ اپنے تئیں جس کام کو سہل ترین کام سمجھتا رہا وہ مشکل ترین کام ہے اور پاکستان اتنا کمزور یا غیر اہم نہیں جس کے متعلق یہ گمان کر لیا جائے کہ اسے جب چاہے اور جس انداز میں چاہے دبا یا جا سکتا ہے۔

اس وقت امریکہ افغانستان میں بہت بری طرح پھنسا ہوا ہے اور سانپ کے منھ میں اس چھچھوندر کی طرح بنا ہوا ہے جس کو اگر وہ اگل دے تو چھچھوندر اس کو اندھا کر دے گی اور اگر اس نے اسے نگل لیا تو اس کا زہر اس کو کوڑھی بنا دیگا۔ یہ وہ موقعہ ہے جب اس کے لئے افغانستان سے نکلنا سخت مشکل ہو گیا ہے اور وہاں ٹکے رہنا اس کی ساری فورسسز کے لئے سخت دشوار اور پر خطر ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسے موقعہ پر شاید اس کی عقل اس درجہ چکرا چکی ہے کہ اسے یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ پاکستان کے خلاف ہے یا اس کی تائید میں کھڑا ہے اسی لئے کبھی اس کی آواز میں دھمک پیدا ہوتی ہے تو کبھی پیار، کبھی وہ پاکستان کو ڈرا رہا ہوتا ہے اور کبھی لالچ دے رہا ہوتا ہے۔

ان سب حالات پر اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو یہ حالات پاکستان کے لئے بہت ہی موافق اور موقعہ سے صحیح فائدہ اٹھانے کے لئے ساز گار ہیں۔ یہ وہ موقعہ ہے جب پاکستان اپنی شرائط پر امریکہ سے بہت کچھ منوا سکتا ہے کیونکہ اس وقت امریکہ کو پاکستان کی جتنی ضرورت ہے ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ اگر یہ بہترین اور موافق موقعہ پاکستان نے کھو دیا تو یاد رکھیں وقت کبھی کسی کے لئے لوٹ کر نہیں آیا کرتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کا امن پاکستان کے لئے نہایت ضروری ہے لیکن پاکستان سے کہیں زیادہ امریکہ کو اس امن کی ضرورت ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں گھس کر اپنا سب کچھ برباد کر لیا ہے اور اب اس کی حالت اس سوویت یونین کی سی ہے جو وہاں گھس کر نہ صرف ذلیل و رسوا ہوا بلکہ ٹکڑے ٹکڑے ہونے پر بھی مجبور ہو گیا۔ یہی حال اس وقت امریکہ کا ہے۔ وہ افغانستان میں اپنا سب کچھ پھنسا بیٹھا ہے اس لئے وہ راہ فرار چاہتا ہے لیکن ایسا سب کچھ پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس موقعہ سے بھر پور فائدہ اٹھائے۔ وہ بے شک امریکہ کی مدد کرے لیکن اپنی شرائط پر۔

ماضی میں پاکستان اس ہمدردی کے نتیجے میں بہت زیادہ نقصان اٹھا چکا ہے۔ اس وقت پاکستان نازک ترین دور سے گزررہا ہے۔ ایک درست فیصلہ اسے بلندی پر لیجا سکتا ہے تو ایک غلط فیصلہ اسے تباہ و برباد کر سکتا ہے۔ جو بھی فیصلہ کرنا ہے اسے بہت ہی سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔

اس سلسلے میں جو بات راقم کے نزدیک اہم ہے وہ یہ ہے کہ وہ کسی لالچ میں نہ آئے، ’دُم‘ کا جو نقصان اسے اٹھانا تھا اٹھا لیا لیکن اب جان لے کہ یہ ’دُم‘ بلی نہیں جوڑ سکتی۔ اس دُم کو اس کی ماہر سوچوں کے ڈاکٹر ہی جوڑ سکتے ہیں اس لئے وہ امریکہ کی دی جانے والی نئی پیشکشوں، لالچوں اور معیشت کی بحالی کی خوشامدی باتوں کے لچھے میں نہ آئے اور صاف صاف کہہ دے کہ ’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).