انیس ہارون نے فہمیدہ ریاض کے بارے میں کیا لکھا؟


پاکستان میں انسانی حقوق کی تحریک کی معروف رہنما انیس ہارون کی آپ بیتی ’’ کب مہکے گی فصل گل ‘‘ کچھ عرصہ قبل پڑھی تو اچھی لگی۔فہمیدہ ریاض کی موت نے اس کتاب کی پھر سے یاد دلائی کہ اس میں فہمیدہ ریاض کا ذکرِ خیر مصنفہ نے یوں کیا ہے جیسے کوئی دوست کسی دوست کا کرتا ہے۔ یعنی بڑی محبت سے۔ اس کتاب کے شروع میں فہمیدہ کا مضمون ہے جس کے عنوان سے دونوں کے تعلق کی شرح ہو جاتی ہے: میری دوست ، میری مونس و دم ساز۔

دونوں کی دوستی زبیدہ کالج حیدر آباد میں ہوئی۔ یہ ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی برسوں کی بات ہے۔ یہ ہنگامہ خیز دور تھا۔ سندھ میں اینٹی ون یونٹ تحریک چل رہی تھی۔ ایوب خان کی تعلیمی پالیسی کے خلاف کراچی میں طالب علم سراپا احتجاج تھے۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے والے بہت سے طلبا سرکاری عتاب کا نشانہ بنے۔ طلبہ تنظیم نے یوم سیاہ کا اعلان کیا اور تعلیمی اداروں کے طالب علموں سے کلاسوں کے بائیکاٹ اور کالے جھنڈے لہرانے کی اپیل کی۔ فہمیدہ ریاض اور انیس ہارون نے پرنسپل کی منشا کے برخلاف کالج کی عمارت پر سیاہ جھنڈا لہرا دیا۔ انیس ہارون نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں ان کی فہمیدہ کے ساتھ علمی اور سیاسی موضوعات پر خوب بحث ہوتی جس میں ان کے والد بھی شریک ہوتے اور انھیں مارکسزم پر راسخ کرنے کی کوشش کرتے۔ انھوں نے ہونہار لڑکیوں کو جولیس فیوچک کی کتاب ’’ نوٹس فرام دی گیلوز‘‘ پڑھنے کو دی جسے دونوں نے مل کر پڑھا۔ فہمیدہ نے اس کتاب کا ذکر اپنی نظم ’’ کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے‘‘ میں بھی کیا ہے۔

فہمیدہ کے والد فوت ہو چکے تھے اوران کی والدہ بیٹیوں کے معاملے میں شیر کی نگاہ سے دیکھنے کی قائل تھیں۔ اس لیے این ایس ایف میں شامل ہونے کے بعد اس کی میٹنگوں میں شرکت پر فہمیدہ سے باز پرس ہوتی۔

انیس ہارون نے اپنی کتاب میں اس سمے کا ذکر بھی کیا ہے جب دونوں ہم جولیاں چلچلاتی دھوپ میں پیدل ایوب خان کے خلاف گھر گھر پمفلٹ بانٹنے جاتیں۔ اس دور میں بارہ طالب علموں کو کراچی بدر کر دیا گیا۔ ان سب نے شہر بدری سے اگلے روز سندھ یونیورسٹی حیدر آباد میں بھوک ہڑتال پر بیٹھنا تھا۔ بھوک ہڑتالیوں کی فہرست میں انقلابی سہیلیوں نے نام درج کرا دیا۔ ڈر کے مارے یہ بات گھر والوں سے چھپائی۔ فہمیدہ نے رات انیس کے گھر ٹھہرنے کا فیصلہ کیا اور اطلاع والدہ کو بھجوا دی لیکن والدہ کو یہ مخبری ہوگئی کہ بیٹی اگلے روز کیا کرنی جا رہی ہے۔ وہ رات کو انیس کے گھر پہنچ گئیں اور ڈانٹتے ڈپتے فہمیدہ کو گھر لے آئیں اور یوں بھوک ہڑتالی کیمپ میں شمولیت کا منصوبہ چوپٹ ہوگیا۔ فہمیدہ نے انیس کے گھر اور ان کے ابا کے بارے میں بڑی محبت سے لکھا ہے:

 ’’ یہ ایک محبت اور سادگی کی حرارت سے بھرا چھوٹا سا گھر تھا… انیس کے ابا ترقی پسند خیالات کے ایک بہت پڑھے لکھے قابل آدمی تھے اور ان کے پاس مارکسزم ، تاریخ اور دوسرے موضوعات پر بہت سی کتابیں تھیں۔‘‘

کالج کے زمانے کی ایک سنہری یاد دونوں سہیلیوں کا تقریری مقابلہ میں حصہ لینا تھا۔ اس سلسلے میں ان کا دوسرے شہروں میں بھی جانا ہوا۔فہمیدہ ریاض کے بقول : ’’دو برسوں میں ہم نے اپنے کالج کی ڈبیٹنگ ٹیم کی حیثیت سے پورے پاکستان کا دورہ کر لیا تھا۔ وہ سفر جو ہم طالب علموں کے رعایتی ٹکٹوں پر تھرڈ کلاس کے کمپارٹمنٹ میں کبھی بندھے ہوئے بھاری بھرکم خاکی بستر بندوں پر بیٹھ کر کیا کرتے تھے (جن کو لکڑی کی آمنے سامنے بینچوں کے بیچ ڈبے کے فرش پر پھنسا لیا جاتا تھا) یادوں کے دھندلکوں میں کہیں آج تک محفوظ ہیں۔ ‘‘

انیس ہارون نے یہ دلچسپ بات بھی لکھی ہے کہ شادی کے بعد شوہر کے کپڑے تیار کرنا انھیں اچھا لگتا لیکن ان کا یہ عمل فہمیدہ ریاض کو کھلتا تھا۔ ان کے بقول :

 ’’ اگر میں تھوڑا سا وقت نکال کر ان کے کپڑے تیار کر دیتی تو کیا حرج تھا مگر ہماری فیمنسٹ دوست فہمیدہ کو یہ بالکل پسند نہیں تھا۔ بہت مذاق اڑاتیں کہ ستی ساوتری بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس میں کون سا فیمنزم کا نقصان تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ یہ تو میری محبت کا اظہار تھا اور مجھے اچھا لگتا تھا۔ ‘‘

 انیس ہارون کے بقول، پہلی شادی میں ناکامی کے بعد فہمیدہ نے ایک دھواں دار عشق کیا۔ لیکن عشق کس سے تھا؟ اور یہ بیل منڈھے کیوں نہ چڑھ سکی؟ اس باب میں انھوں نے کچھ نہیں بتایا۔

انیس ہارون نے اپنی آپ بیتی میں پڑھے لکھوں کے جنرل پرویز مشرف کی روشن خیالی سے متاثر ہونے کا ذکر کیا ہے جو انھیں اتاترک سمجھنے لگے تھے۔ انھوں نے اس ضمن میں کسی خاص شخصیت کا نام تو نہیں لیا لیکن بات چونکہ فہمیدہ ریاض کے بارےمیں ہو رہی ہے تو ہم یہ بتادیں کہ وہ جنرل پرویز مشرف کی پرجوش حامی تھیں۔ لاہور میں مختلف مجلسوں میں ان کے منہ سے مشرف کی تعریف سن کر حیرت بھی ہوئی اور دکھ بھی کہ ان جیسی خاتون جو آمریت کی ضلالت دیکھ چکی ہے ، بھگت چکی ہے، وہ بھی اس کے بھرے میں آگئی۔

فہمیدہ ریاض، والدہ اور بہن کے ہمراہ

اس کتاب میں فہمیدہ کے جواں سال بیٹے کبیر کی درد ناک موت کا ذکر بھی ہے جس نے انھیں زندہ درگور کر دیا۔ انیس ہارون نے لکھا ہے کہ کبیر کی آزاد خیالی کے باعث فہمیدہ کو ڈر تھا کہ کہیں شدت پسند اس کی جان کے درپے نہ ہوجائیں ،اس لیے بیٹے کو تعلیم کے لیے امریکا بھیجنے میں انھوں نے عافیت جانی۔

 انیس ہارون نے فہمیدہ کو بیٹے کے خیالات پر مشوش دیکھ کر کہا ’’ اپنا وقت بھول گئیں تم تو اور بھی زیادہ منطق جھاڑتی تھیں اور امی جان اس طرح پریشان ہوتی تھیں کہ یہ لڑکی کس کے گھر جائے گی ؟وہ تو ٹھیک ہے ، فہمیدہ بولی ، مگر! ہمارا زمانہ مختلف تھا انتہا پسندی نہیں تھی۔ کوئی ڈنڈا اور بندوق لے کر مارنے نہیں دوڑتا۔ اس کا کیا ہوگا؟‘‘

کبیر امریکا سدھارا، جہاں وہ تیراکی کرتے ڈوب گیا۔ بیٹے کے فراق نے فہمیدہ پر کیا قیامت ڈھائی اس بارے میں انیس ہارون نے لکھا ہے۔ :

’’ فہمیدہ وہ فہمیدہ نہیں رہی تھی۔ سب لاکھ دل جوئی کی کوشش کرتے اس کو چین ہی نہیں آتا۔ میں اسے کچھ لکھنے کا کہتی تو اس کا جواب ہوتا۔’’ وہ فہمیدہ ختم ہوگئی ہے اب میں کبھی قلم ہاتھ میں نہ پکڑوں گی۔ میں نے اپنی دوست کو غم کے اندھیروں میں کھو دیا تھا۔

دو مہینے بعد ہی ایک اور سانحہ ہوا جو قومی بھی تھا اور ہمارا ذاتی بھی تھا۔ بے نظیر بھٹو ستائیس دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ سے واپسی پر شہید کردی گئیں۔ بی بی سے ہماری ہی نہیں کروڑوں پاکستانیوں کی امیدیں وابستہ تھیں۔ ہم سے ایک ذاتی اور سیاسی تعلق بھی تھا۔ رنج والم اور ناامیدی کا ایک باب کھل گیا اور آج تک اس خلا کو پر کرنے کوئی نہیں آیا۔

 اس سانحے کے دو روز بعد اچانک فہمیدہ میرے گھر آگئی۔ ہم دونوں گلے لگ کر خوب روئے۔’’ انیس یہ کیا المیہ ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ کبیر کے بعد مجھے کوئی غم نہیں ہوگا۔ میں نے یہ دن دیکھنے کی توقع نہیں کی تھی۔ ‘‘ ہم لوگ بہت مایوس اور دل گرفتہ تھے۔ میں نے ایک قلم اور کاغذ لاکر فہمیدہ کو تھما دیا اور خاموشی سے چلی گئی۔ کچھ دیر بعد آئی تو دیکھا فہمیدہ کا قلم تیزی سے چل رہا تھا، اس نے ایک خوبصورت نظم لکھ دی،’ سلام بے نظیر‘ وہ کاغذ میرے پاس محفوظ ہے۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).