عِلم برائے فروخت


علم مومن کی معراج ہے۔ علم وہ موتی ہے جسے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں سے بھی نکالنا پڑے تو گھاٹے کا سودا نہیں۔ علم، اعمال و کردار کی بلندی کا سبب ہے۔ جو کسی بھی معاشرے میں مثبت نتائج کے حصول کے لئے ناگزیر ہیں۔ مگر! علم کیسا ہونا چاہیے؟

اِس کا جواب آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ و سلم کی سیرتِ مبارکہ سے بخوبی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آپ صل اللہ علیہ والہ و سلم نے ہمیشہ ”علمِ نافع“ کی طلب کی اور اِسی بنیاد پر جماعت کی تشکیل اور سوسائٹی کا نظام بنایا۔ علم نفع بخش تبھی ہوسکتا ہے جب وہ سوسائٹی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جس سے لوگوں کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کا ایسا نظام قائم ہو جو بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب کے عوام الناس کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کرے۔

جو علم عام عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے مخصوص طبقے کے مفادات کا تحفظ کرے وہ یقیناً نفع بخش نہیں ہو سکتا اور اِس کا حصول طبقاتی کشمکش کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ علم استحصال کا سبب کیسے بنتا ہے؟

آج جن ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام اپنی جڑیں مضبوط کیے ہوئے ہے تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بنیاد دولت کی اساس پر معاشرے کے غریب عوام کی لوٹ کھسوٹ اور استحصال پر مبنی ہے۔ اٹھارویں صدی عیسوی میں یورپ کے صنعتی انقلاب نے سرمایہ دارانہ اصولوں کی بنیاد پر ایک ایسی سوسائٹی تشکیل دی جس میں دولت کو محنت کے مقابلے میں اوّل مقام دیا گیا جس کی اساس پر محنت کش طبقے کا استحصال ناگزیر تھا۔ سرمایہ داروں کی اِس مطلق العنانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں اِس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف محنت کشوں نے کئی تحریکات منظم کیں، یونینز بنائیں، حتیٰ کہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے اپنی جانیں تک قربان کیں۔ آج اگر ترقی یافتہ ممالک کے محنت کش طبقے کا طرزِ زندگی ترقی پذیر ممالک کے محنت کش طبقے سے بہتر ہے تو اُس کے پیچھے اُن کی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مسلسل جدوجہد ہے۔

بہرحال سرمایہ داروں کو اُن کی ناک پر بیٹھی یہ مکھی ہرگز پسند نہ تھی۔ چنانچہ محنت کش طبقے کی سرمایہ دار مخالف تحریکوں سے نجات پانے کے لیے علم اور اہلِ علم کا استعمال شروع ہوا۔ گریجویٹس کی ایسی کھیپ تیار کی گئی جو غریب عوام کے خلاف سرمایہ داروں کی آلہء کاری کا کام کرتے رہیں۔ 1859 میں ”میساچوسٹس بورڈ آف ایجوکیشن“ کے سیکرٹری نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ”سرمایہ دار اب ایسے تعلیم یافتہ طبقے کا خواہش مند ہے جو اُس کی ڈگڈگی پر ناچ کر اُن کے مفادات کا تحفظ کرے اور سرمایہ داروں کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کو کچل ڈالے“۔ چنانچہ تعلیمی نصاب ایسا بنایا گیا جو اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو باغی قرار دے کر سرمایہ داری کا حامی بنائے۔

سرمایہ دارانہ اِنہی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہمارے اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز پوری تندہی سے کوشاں ہیں جو انسانی شکل میں ایسے روبوٹس پروگرام کر رہے ہیں جنہیں تہذیب کے خول میں رکھ کر اپنی فکری و نظریاتی آزادی سے محروم رکھا جائے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ گریجوئیٹس کی ایک پوری کھیپ ہے جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان کے مفادات کا تحفظ کیے ہوئے ہے۔ اکاؤنٹنٹ ہو یا مینیجر حتیٰ کہ ایک ریسرچر بھی اپنا علم سرمایہ دار کے حق میں رام کرتا ہے۔ جس سے محنت کشوں کا استحصال ناگزیر ہے۔

معیشت کا پہیہ تب ہی چلتا ہے جب ایک کسان کھیت میں ہل چلاتا ہے، ایک مزدور فیکٹری میں کام کرتا ہے یہی لوگ ملک کی پیداواری قوتوں میں اضافے کا سبب ہوتے ہیں۔ جو عالم یا دانشور محنت کش طبقے کی بدحالی پر پردہ ڈال کر اپنے علم کی بولی لگائے اور جھوٹ کو سچ کی سیج پر سجائے تو اُس کا یہ علم فتنہ کے مترادف ہے۔

علم (نافع) انسان کے فکر و عمل کو جلا بخشتا ہے اُس کا نظریہ بلند کرتا ہے جس کا عکس سوسائٹی کے مسائل کے حل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہی علم اگر ایک مخصوص طبقے کے مفادات کے لئے استعمال ہونے لگے اور اِس کے حاملین کو سرمائے کے عوض خرید لیا جائے تو یہ علم مجموعی طور پر نفع بخش نہیں رہتا۔

چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم علم نافع اور علم غیر نافع کا فرق سمجھیں اور معاشرے کی فلاح و ترقی کے لیے عدل و انصاف کی بنیاد پر جدوجہد اور کوشش کریں کہ اسی سے علم کا حق ادا ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).