نواز شریف کے سکیورٹی اہلکاروں کی بدمعاشی


کل پیرکے دن میاں نواز شریف جب پارلیمنٹ ہاؤس سے باہر آکر اپنی گاڑی میں سوا ر ہو رہے تھے تو رپورٹر اور کیمرہ مین فوٹیج بنانے کی کوشش کر رہے تھے، سابق وزیر اعظم کے گاڑی میں بیٹھتے ہی گارڈ نے کیمرہ مین پر حملہ کیا اور اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا یا، فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گارڈ نے بھا گ کر آتے ہوئے زمین پر گرے کیمرہ مین کے منہ پر کک بھی ماری جس سے کیمرہ مین کی ناک اور سر پر شدید چوٹیں آئیں۔

اگرچہ میاں نواز شریف نے اس کی مذمت کی ہے کہ وہ اپنے سٹاف میں ایسا کوئی شخص برداشت نہیں کریں گے جو اس قسم کا رویہ اختیار کرے۔ لیکن یہ کہہ کر میاں صاحب اپنی گلو خلاصی نہیں کرا سکتے کیونکہ اس سے پہلے بھی صحافیوں اور عام عوام پر ان کے سکیورٹی اہلکار بہیمانہ تشدد کر چکے ہیں، کئی ایک شہریوں کو میاں صاحب کی پروٹوکول کی گاڑیاں کچل چکی ہیں، عوام کے ذہنوں سے ابھی یہ بات محو نہیں ہوئی کہ 2017 ء میں سپریم کورٹ سے نا اہل ہونے کے بعد میاں صاحب جب جی ٹی روڈ سے لاہورجا رہے تھے تو لالہ موسی میں کم سن بچے کو میاں صاحب کی سکیورٹی پر مامور ایلیٹ فورس کی گاڑیوں نے بے دردی سے کچل دیا تھا کیا اس بچے کے لواحقین کو انصاف ملا تھا؟

تاریخ گواہ ہے پولیس یا کسی بھی فورس نے جب بھی کسی شہری کو نشانہ بنایا اسے انصاف نہ مل سکا، ہاں اتنا ضرور ہوا کہ دکھاوے کے لئے چند لاکھ اس کے لواحقین کو تھما دیے جاتے اورساتھ ہی دھمکی بھی دی جاتی کہ اگر وہ خاموش نہ رہے تو ان پیسوں سے بھی محروم ہوں گے۔

کل سما ٹی وی کے کیمرہ مین کو نواز شریف کے سکیورٹی گارڈ نے جس بے دردی سے گرایا اور دوسرے گارڈ نے جس طرح اس کے چہرے پر کک لگائی اس طرح تو کوئی غلاموں کے ساتھ بھی نہیں کرتا جو نواز شریف کے سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے آزاد شہریوں کے ساتھ سلوک روا رکھا گیا۔

اب چونکہ واقعہ رونما ہو چکا ہے، کیمرہ مین بھی زخمی ہو چکاہے اس کے بعد مرحلہ آتا ہے انصآف کی فراہمی کا، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کا، اور انہیں قرارواقعی سزا دینے کا، کیا مسلم لیگ ن اور ان کے تاحیات قائد اپنی سکیورٹی پر مامور اہلکار کو سزادلوانے اورمتاثرہ صحافی کو انصاف دلانے میں کردارادا کریں گے؟

جہاں تک میرا خیال ہے سکیورٹی اہلکار کوماضی کی طرح بچانے کی پوری کوشش کی جائے گی کیونکہ سیاستدان یہ بات جانتے ہیں کہ سکیورٹی اہلکار جو کرتے ہیں وہ ان کی حفاظت کے پیش نظر ہی کرتے ہیں سو اس سوچ کے بعد یہ کیسے ممکن ہو گا کہ سیاستدان سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی کا حصہ بنیں، رہی یہ بات کہ انہوں نے اس کی مذمت کی ہے اور سکیوٹی اہلکاروں کے اس طرح کے رویے کی بھی مذمت کی ہے تو یہ سب دکھاوے کے لئے ہے کیونکہ صحافی پر تشدد کی فوٹیج عوام دیکھ چکے ہیں۔

صحافی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ایک ایک بات عوام تک پہنچاتے ہیں، حتی کہ عوام کویہ بھی بتاتے ہیں کہ حکمرانوں نے ناشتے میں کیا کھایا، دوپہر اوررات کے کھانے میں کیا کھائیں گے؟ سیاست دانوں کو کیسے لباس پسند ہیں اور وہ شاپنگ کہاں سے کرتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ اس سب کے باوجود صحافیوں کو کون سا تمغہ ملتا ہے؟

اس لئے میں سمجھتا ہوں صحافیوں کو چاہیے کہ اپنی جان کی خود حفاظت کریں اور جن حکمرانوں کو وہ اہم سمجھ کر ان کی پل پل کی خبیریں نشر کر رہے ہوتے ہیں انہیں اتنی اہمیت نہ دیں، صحافی اپنے آپ کو صرف خبر تک محدود رکھیں، مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی کوریج کا اس وقت تک بائیکاٹ کریں، جب تک تشدد کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں کو ان کے کیے کی سزانہیں مل جاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).