اگر آپ ایک مرد ہیں


سڑک پر آمدورفت جاری تھی۔ یہ شہر کی ایک ضمنی سڑک تھی لہٰذا ٹریفک کم تھی پیدل چلنے والے زیادہ تھے۔ ان میں مرد و زن، بچے اور بوڑھے سب تھے۔ یونہی میری نگاہ سامنے سے آنے والے ایک شخص پر پڑی۔ یقیناً وہ مردانہ وجاہت کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ تقریباً چھ فٹ قد، مضبوط ہاتھ پیر، چہرے پر ہلکی داڑھی اور بڑی بڑی مونچھیں۔ ابھی میں اس کی رعب دار شخصیت سے مرعوب ہونے کو تھا کہ اچانک اس کی شخصیت کا بت ریت کے محل کی طرح مسمار ہو گیا۔

ہُوا یہ کہ اس نے اپنا ہاتھ شلوار کی طرف بڑھایا، ازار بند کھولا اور دیوار کی طرف بیٹھ کر پیشاب کرنے لگا۔ وہاں سے گزرنے والی چند عورتیں دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھنے کی طرح چلتی گئیں کچھ نے منہ دوسری طرف کر لیا۔ پہلے تو دماغ کا درجہ حرارت بوائلنگ پوائنٹ کی طرف بڑھا لیکن پھر فوراً نارمل ہو گیا۔ کیوں کہ مجھے خیال آیا کہ اس کا عمل بالکل درست تھا۔ وہ عورت نہیں ایک مرد تھا۔

اگر آپ ایک مرد ہیں اور وطنِ عزیز کے شہری ہیں تو یہ آپ کی خوش قسمتی ہے۔ آپ کو اتنے حقوق حاصل ہو جاتے ہیں جو دنیا کے کسی خطے میں مرد کو حاصل نہیں ہیں۔ مثلاً آپ جب چاہیں اپنے مخصوص اعضا کو کھجا سکتے ہیں خواہ آپ ریلوے اسٹیشن پر ہوں، کسی ریسٹورانٹ میں ہوں، کسی بزم میں کسی محفل میں یا کسی سڑک پر ہوں۔ خواہ آپ کے آس پاس مرد ہوں یا عورتیں یا بچے ہوں۔ ظاہر ہے خارش ہو گی تو بندہ کھجائے گا نہیں تو اور کیا کرے گا۔

بعض لوگ خارش کے مرہم کا مشورہ دے سکتے ہیں مگر انہیں معلوم نہیں کہ یہ معمولی ’خارش‘ نہیں ہوتی جو فقط کوئی کریم وغیرہ سے دور ہو جائے۔ اس کا تو ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے کھجانا۔ سرِ عام پیشاب کرنے کی طرح یہ بھی نارمل سا عمل ہے لیکن یاد رہے یہ حق صرف مردوں کو حاصل ہے۔ عورتیں کو یقیناً اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کیوں کہ عورت کے ایسا کرنے سے معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی کو فروغ ملے گا اور کوئی بھی با شعور انسان ایسا نہیں چاہے گا۔

اسی طرح اگر آپ مرد ہیں تو سیر وسیاحت اور تفریح پر آپ کا پورا حق ہے۔ آپ باغات میں جائیں۔ پارکوں میں گھومیں۔ سینما گھروں میں جا کر فلم دیکھیں۔ تاہم عورتوں کو ساتھ نہ لے کر جائیں بلکہ انہیں اکیلا بھی مت جانے دیں۔ پہلی بات تو یہ عورت کو چادر اور چار دیواری کے اندر ہی رہنا چاہیے۔ اور پھر عورتیں جب آٹا گوندھتی ہیں تو اچھی خاصی ورزش ہو جاتی ہے اور کپڑے دھونے کے بعد تو کسی ورزش کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ اگر گول روٹیاں پکانے، برتن مانجھنے، جھاڑو لگانے اور کپڑے دھونے کے بعد بھی کوئی عورت باہر کسی پارک وغیرہ یا سینما جانے کی فرمائش کرے تو فوری طور پر اس کا دماغی معائنہ کروائیں ہو سکتا ہے وہ کسی پیچیدہ ذہنی مرض کا شکار ہو۔ اس طرح کے امراض کو شروع میں ہی پکڑ لینا چاہیے تاکہ بعد میں تکلیف سے بچ سکیں۔

اگر آپ مرد ہیں تو آپ پہننے یا نہ پہننے کے حوالے سے بھی آزاد ہیں۔ وطن عزیز کے بیشتر علاقوں میں موسم تقریباً سارا سال ہی گرم رہتا ہے۔ اس لئے گھر کے اندر بھی صرف ایک چادر زیریں حصے میں باندھ کر مزے سے آدھے ننگے گھومتے رہیں۔ خواہ آپ مشترکہ خاندانی نظام کا حصہ ہوں۔ گھر سے باہر بھی ٹی شرٹ، نیکر یا باریک سے کپڑے پہن سکتے ہیں ویسے نہ بھی پہنیں تو آپ کو کون روک سکتا ہے۔

لیکن خیال رکھیے کہیں عورتیں اس قسم کی تمنا ظاہر نہ کریں۔ آخر آپ ایک مرد ہیں اور مرد کے لئے سب سے بڑی چیز غیرت ہے۔ جہاں غیرت کی بات ہو وہاں کچھ اور نہیں دیکھا جاتا۔ اول تو عورتوں کو گھر سے باہر جانے کی عادتِ بد سے ہر ممکن طریقے سے روکیں لیکن اگر آپ کے گھر میں ایسی ضدی عورتیں ہوں جو خریداری وغیرہ کرنے یا کسی سہیلی وغیرہ سے ملنے کے بہانے نکلتی ہوں تو انہیں بھاری بھرکم برقعے میں بھیجیں خواہ جون کا مہینہ ہو۔ کیوں کہ زمانہ خراب ہے اور اپنی عورتوں کو زمانے کی گندی نگاہوں سے بچانا بھی تو ضروری ہے۔ غور کیجئیے گا میں نے لفظ ’زمانہ‘ استعمال کیا ہے۔ براہِ کرم اس کا کوئی اور مطلب مت سمجھیں۔

اگر آپ ایک مرد ہیں تو اپنے لباس، چہرے اور آؤٹ لک سے آپ کو پرکشش دکھائی دینا چاہیے۔ خاص طور پر جنس مخالف کو آپ سے متاثر ہونا چاہیے۔ اچھا سا پرفیوم لگائیں۔ اگر آپ نوجوان بھی ہیں پھر تو لڑکیاں آپ کی طرف کھنچی چلی آئیں اور آپ پر مرمٹیں تو تب آپ صحیح معنوں میں مرد کہلانے کے حقدار ہیں۔ لیکن ان ناسمجھ اور نادان لڑکیوں پر کڑی نظر رکھیں جو بن سنور کر باہر نکلتی ہیں۔

آخر حد ہوتی ہے کسی بات کی۔ ذات کی لڑکی اور مقابلہ مردوں سے۔ ان لڑکیوں کو اپنی حد میں ہی رہنا چاہیے۔ باہر نکلتے ہوئے خاص طور پر ایسے گندے کپڑے پہننے چاہئیں جنہیں کم از کم تین ماہ سے دھویا نہ گیا ہو اور کسی مرتبان مین بند کر کے رکھا گیا ہو۔ کئی بے ہودہ لڑکیاں جن میں قدرت کی طرف سے پہلے ہی حسن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ میک اپ سے مزید نکھار پیدا کر کے ایسے دیدہ زیب لباس پہن کر نکلتی ہیں کہ بے چارے صاحبِ ایمان صالحین کے جذبات بھڑک جاتے ہیں۔ کم بخت اتنی سیکس اپیل رکھتی ہیں کہ بے چارے معصوم مرد یا تو حسرتِ گناہ میں گھل گھل کر مرتے ہیں یا گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔

اور پھر نام نہاد دانشور اور نادان کالم نگار ان بھولے بھالے مردوں کے خلاف لکھ لکھ کر اخبارات و رسائل کے صفحات کالے کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ مرد نے اگر کچھ ایسا ویسا کیا ہے تو لڑکی کی دعوت پر ہی کیا ہے۔ اب اگر لڑکی خود دعوت دے تو اسے قبول کرنا بھی تو مرد کا حق ہے۔

رہی بات لڑکی کی تو اگر وہ اتنی ہی نیک ہو تو دو گز کے کمرے میں بند ہو کر رہے۔ باہر نکلنے کا مطلب تو یہی ہوا ناں کہ وہ دستیاب ہے۔ ویسے دو گز زمین تو قبرکا استعارہ بھی ہے۔ اس لحاظ سے تو آپ بہت خوش قسمت ہیں اگر آپ ایک مرد ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).