کچھ وقاص احمد خان کی یاد میں!


2004 کی بات ہے۔ میں کمرشل مارکیٹ راولپنڈی کے ایک فلیٹ میں سویا ہوا تھا جب سیف کی آواز آئی تھی

”وقار اٹھ جا، وقاص مر گیا ہے“

آپ کو کیسا لگے گر کوئی آپ کو نیم غنودگی میں جھنجوڑ کر کہے۔ ۔

تم مر گئے ہو!

میں نے یا شاید وقاص نے فوراً پوچھا، ”جنازے کا کیا وقت ہے؟ “

میں جاننا چاہتا تھا کہ میرے اور قبر کے درمیاں کتنے لمحے حائل ہیں۔

 میرے قبر کے اندر جانے میں کتنا وقت رہ گیا ہے؟

جواب ملا۔ دوپہر دو بجے۔ ۔

چلیے دوپہر دو بجے تک کا وقت ہے ہی تو آپ کو اس جہان میں آئے اربوں انسانوں میں سے ایک انسان وقاص کے بارے میں کچھ بتاتا چلوں۔ ۔

چوبیس سال کی عمر میں مر گیا تھا۔ صرف چوبیس سال کی عمر میں۔ لیکن ان چوبیس برس میں شاید ہی کوئی لمحہ ہو جب چاند، سورج، ستاروں، نباتات چرند پرند سب نے اس کو حیرت سے نہ دیکھا ہو۔

علت و معلول کی زنجیر کا کسے معلوم لیکن زندہ ہوتا تو پاکستان کے نامور ادیبو ں اور دانشوروں میں شمار ہوتا۔

وقاص کے مرنے کے بعد میں نے زندہ ہونے کی ایک سعی 2014 میں کی جب بیٹا پیدا ہوا۔ میں نے اس کا نام وقاص احمد رکھا۔

لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ وقاص ایک ہی شاہکار تھا۔ یہ کوئی اور شاہکار ہے۔ خدا اربوں ایسے شاہکار بناتا چلا جا رہا ہے۔ بنیادی مماثلت رکھنے کے باوجود سب شاہکار جدا شاہکار ہیں۔ الہامی صحیفوں کی مانند کالم میں اس مقام کو مقام سجدہ ہی جانیے۔

میں پیدا ہوا تو سب سے پہلے ماں کا چہرہ دیکھا۔ دنیا خوبصورت لگی۔ ایسا لگا اگر یہاں نہ آتا کو کیا کچھ کھو دیتا

ماں کے بعد بچپن میں وقاص کا چہرہ ہے۔ ماں اور وقاص کے چہروں نے مجھے بتایا کہ زندگی میں بھوک لگے گی اور ہو سکتا ہے کھانے کو کچھ نہ ہو۔ زندگی میں درد بھی ہو گا۔ رنجشیں بھی ہو گی۔ لیکن اسی زندگی میں ماں اور وقاص کا چہرہ بھی ہو گا۔ میں نے بغیر حساب کتاب کے لمبے گوشواروں میں پڑے، زندگی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

میں نے کہا میں زندگی کروں گا۔۔۔ میں زندگی جیوں گا۔

وقاص پھوپھی زاد تھا۔ اور اس کی ڈھوک کا فاصلہ آدھا کلومیٹر تھا۔

خونی رشتے میں پائے جانے والے اس یک گونہ فاصلے اور ڈھوکوں کے مابین آدھا کلومیٹر طوالت سے ہم دونوں کبھی واقف نہ ہوئے۔

یہ واقفیت پہلی دفعہ اس وقت ہوئی جب اس کی عمراکیس سال تھی۔ میں اور وہ ایک اونچی جگہ پر کھڑے تھے۔ ہمارے قدموں میں نیچے کی جانب درختوں کا وسیع سلسلہ تھا، وقاص ایک چھڑی کے سہارے کھڑا تھا۔ اس کے پاﺅں بدستور کانپ رہے تھے اور اس کا بوجھ سہارنے سے انکاری تھے، اس کا ہاتھ چھڑی پر مضبوطی سے جما تھا لیکن کانپ رہا تھا، وہ ابھی multiple sclerosis  کے تازہ تازہ حملے سے نکل رہا تھا۔ اس کی نظریں افق پر تھیں۔ وہ افق جو چالیس سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔

’یار دیکھ تو سہی، ایک لمحے کے لیے سوچ تو سہی، جب یہاں بارش ہوا کرے گی تو کتنی دور تک نظر آ ئےگا۔ دیکھ یہ جگہ تو ہو گئی پولٹری فارم کی۔ اب وہ دیکھ اس جگہ پر ایک ایسا تخت بنائیں گے جس کے اوپر چھت ہو گی لیکن آس پاس دیواریں نہیں ہوں گی۔ تخت پر منقش سرخ تکیے دھرے ہوں گے۔ تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز، ٹانگ پر ٹانگ رکھے سگریٹ سلگائیں گے۔ اور پھر افق تک نظر آتی بارش کو دیکھیں گے۔۔۔ ایک آنکھ مکمل کھلی ہو گی اور دوسری آدھی۔ میں دونوں آنکھیں بہ یک وقت کھلی رکھ کر اس منظر کی تاب نہیں لا سکتا۔ دیکھ انسان کو عیاشی کے لیے بھی اپنے اوپر کچھ حدود و قیود رکھنی چاہییں۔ کیا کہتے ہو؟

میں مسکرا دیا۔

’پھر مجھے بتا تمھیں زندگی میں اور کیا چاہیے؟‘ وقاص نے پوچھا

اس سے ہم دوسروں کی زندگیاں نہیں بدل سکتے۔ اثر انداز نہیں ہو سکتے؟ تم نے جو منظر کشی کی ہے کمال ہے لیکن کیا یہ ایک خودغرضانہ سی بات نہیں ہے؟ میں نے اعتماد سے عاری لہجے میں کہا۔

’بکواس کرتے ہو، تمھیں صرف ٹائی پہننے کا شوق ہے۔ تم ٹائی اور سوٹ پہننا چاہتے ہو جو ڈراموں میں نظر آتے ہیں۔ جس نے اثر انداز ہو نا ہے وہ یہاں رہ کر بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ اپنے آ س پاس‘

میں نے لاجواب ہوتے ہوئے کہا، ’ صحیح ہے لیکن یہ دائرہ بہت محدود ہے ہم یہاں سے نکلیں گے تو دائرہ بڑھے گا۔ ہم انسانیت کے لیے بڑے پیمانے پر کام کر سکیں گے‘

وقاص نے واپس جاتے ہوئے کہا، ’ ایک بات کہوں، حرامی ہو تم۔ بس۔۔۔ او حرامی سب سراب ہے لیکن ٹھیک ہے جو جی میں آئے کر، میں اب واپس شہر نہیں جاﺅں گا۔ یہیں پولٹری فارم بناﺅ ں گا۔ اور دوستوں کے ساتھ زندگی گزاروں گا۔ تم نے جو زندگی میں بننا ہے جا کر بنو‘

وقا ص کی بات میں نے نہ مانی۔ وقاص اپنی بات پر ڈٹ گیا۔ اس نے اسی اونچی جگہ پر پولٹری فارم بنایا۔ تاحد نظر، دکھائی دینے والے درختوں کے عین اوپر تخت بنوایا۔ اس کی زندگی میں ہی وہاں منقش سرخ تکیے بھی رکھے گئے۔ اس نے شاید چند ایک بارشیں بھی دیکھیں۔ دوستوں کی دعوتیں بھی کیں اور پوری پوری رات تاش بھی کھیلی۔ جب اس کے خواب کی تکمیل ہوئی تو وہ اس وقت چلنے پھرنے میں شدید دقت محسوس کرتا تھا۔ دوستوں کے سہارے لاٹھی ٹیکتا اپنی جنت تک پہنچتا تھا۔ آج بھی وہ پولٹری فارم موجود ہے۔ ایک بورڈ بھی لگا ہے۔ وقاص احمد خان پولٹری فارم۔ لیکن میں بارہ برس میں کبھی اس پولٹری فارم کے پاس نہیں گیا۔ وہاں دھرا ہی کیا ہے۔

ایک ذہین آدمی کی مانند وقاص کی شہرت کے کئی حوالے تھے اور معاشرے میں مختلف طبقات اس کو مختلف وجوہات کی وجہ سے پسند کرتے تھے۔

وہ ایک بہترین اداکار تھا۔ کسی بھی انسان کی نقل کرنا اس کے لیے بے حد آسان تھا جبکہ دیکھنے والوں کو میں نے ہنس ہنس کر زمین پر لوٹ پوٹ ہوتے دیکھا۔ ہر انسان کی نقل میں مہارت تو تھی ہی لیکن محبت کہیں زیادہ تھی۔ اسی لیے اپنی ماں، یا باپ کی نقل کرنا۔ اپنے نانا یا میرے دادا کی نقل کرنا اس کے مشغلوں میں شامل تھا۔ اس نے اداکاری کی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے پوری تحصیل میں تھرتھلی مچا دی تھی لیکن اس کی تفصیلات آگے بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

اس کے اندر کا اداکار اتنا عظیم تھا، کہ وہ زندگی کو بہت جزئیاتی انداز سے دیکھتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تماشائیوں کے لیے بعض اوقات اس کی کی گئی نقل ایک دھچکے سے کم نہ ہوتی کہ تماشائی سوچتے، وقاص نے جس کی نقل کی ہے اس شخصیت میں یہ والا پہلو تو ہم نے کبھی نوٹ ہی نہیں کیا جبکہ اس کے ساتھ زندگی گزار دی۔

ایکٹنگ کے لیے مختلف سامان تو موجود نہیں ہوتا تھا اس لیے وہ تماشائیوں کے تخیل کی مدد لیتا۔

مثلا اپنے نانا کی نقل کرتے ہوئے تماشائیوں کو کہتا کہ آپ اپنے ذہن میں یہ لیکر آئیں کہ بابا آ رہا ہے اور اس کے پیچھے اس کی گائے ہے۔ اس نے چھڑی کو آدھے سے پکڑ رکھا ہے اور اس کے ہاتھوں میں گائے کی رسی بہت بے ترتیبی سے لپٹی ہے۔ شام کا منظر ہے اور فلاں والی جگہ کا منظر ہے۔۔۔ تو اب دیکھئے۔

اور اس کے بعد وقاص یوں نقل کرتا کہ تماشائیوں کی آنکھوں میں لگاتار قہقہوں کی وجہ سے پانی بہہ نکلتا۔

شہرت کا ایک اور مضبوط حوالہ لچھے دار گفتگو اور لفظوں سے کھیلنا تھا۔ فیصلہ کرنا مشکل لگتا ہے کہ بولتا اچھا تھا یا لکھتا اچھا تھا۔

اس کے بولنے کے قائل یوں تو سبھی تھے لیکن گاﺅں کے بڑی عمر کے لوگ اس کو عزیز دوست رکھتے تھے۔ گھر والے یوں تنگ تھے کہ وقاص کو ڈانٹ ڈپٹ کر پڑھائی کے لیے بٹھاتے کہ اچانک کو ئی ستر سالہ بابا آ نکلتا اور وقاص کو لے نکلتا۔ گھر والے بزرگ کے سامنے احتراما چپ رہتے، کیا کہہ سکتے تھے۔

اس کے خط بس اس کے خط تھے۔ خط لفافے میں پوسٹ نہیں کرتا تھا، رجسٹری کرتا تھا کہ پندرہ بڑے صفحے لفافے میں کہاں آ سکتے ہیں۔

میں فیصل آباد میں خوار تھا۔ گھر سے باغی تھا اور ایک مل میں جز وقتی مزدوری کا شغل تھا۔ کام کے اوقات کار بارہ گھنٹے تھے۔ ایک سے دو بجے تک کھانے اور نماز کی چھٹی ہوتی تھی۔ اور میں اس دورانیہ میں چار کلومیٹر بھاگ کر اس مقام تک جاتا جہاں کا پوسٹل ایڈریس دے رکھا تھا۔

 شدید گرمی میں دوڑ کر جاتا کہ شاید وقاص کا خط آ یا ہو۔ اور وقاص کا خط آیا ہوتا۔

ایک خط میں سے کچھ حصہ ملاحظہ ہو۔ ۔ (یاد رہے یہ ایک انیس یا بیس سال کا نوجوان لکھ رہا ہے)

”کل سے بارش تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ ابھی ڈھوک سے نچلے والے جنگل میں بیٹھا تھا۔ تمھیں معلوم ہیں کھلے میں بارش کی آواز دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک تو ان قطروں کی آواز کہ جو آسمان شریف سے کودے پڑتے ہیں اور دوسرا درختوں کے پتوں پر چھوٹے قطروں کا ایک بڑے قطرے میں تبدیل ہوتا اور سر کے بل زمین پر گرنے کی آواز۔ تو یہ دو آوازیں مل کر ایک خاص تال پیدا کرتی ہیں۔ اور یہ تال خاک اثر انداز ہوتا جو میں جیب سے ایک سگریٹ نہ نکالتا۔ فیصل آبادی منشیوں کے نیچے کام کرنے والے تمھیں معلوم ہے جیب میں رکھا کھلا سگریٹ جب ساون کے دنوں میں نکالا جاتا ہے تو ڈھیلا ہو کر خم دار ہو جاتا ہے۔ سفیدی والے حصے پر کچھ زرد سے نقش ونگار بنے ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ زرد نقش ونگار میرے پسینے سے بنے ہیں یا بارش کے پانی کے قطروں کی سازش ہے لیکن بارش کی آواز کا تال تبھی سمجھ آتا ہے جب کش لگایا جاتا ہے۔ لیکن ذرا زور سے۔ گیلے سگریٹ میں یہ قباحت ہے۔ اوپر سے فلٹر کاغذ چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن یہ قضیے تال کو سمجھنے میں رکاوٹ نہیں بنتے۔

یونس اپنے ریوڑ کے ساتھ کچھ دور ہی کھڑا ہے۔ جانور اپنی طرف سے درختوں کے نیچے کھڑے ہیں جیسے اس طرح وہ بارش سے بچ رہے ہوں۔ یونس کے ریوڑ میں ایک بکرا آج کل فل ٹائم حرامی ہوا ہوا ہے۔ اس کے جنسی حملوں سے بکریاں ایک طرف بکرے تک محفوظ نہیں۔ کل خبیث ایک بچھڑے کے پیچھے پڑا تھا۔ میں بس دیکھتا ہوں۔ کارخانہ فطرت میں ان معاملات کی اصلاح کرنا تمھارا کام ہے۔ میرا نہیں میں تو بس دیکھتا ہوں۔ آ جا واپس یار۔ چھوڑ دے یہ ضد۔ اوہ ٹھہرنا۔۔۔ ایک منٹ ٹھہرنا۔۔۔ ایک دھڑام کی آواز آئی ہے۔۔۔ میں آتا ہوں۔ ادھر ہی رک۔۔۔

خیریت رہی یار۔ وہ بابا کرم کا چھپر گرا تھا۔ لیکن اس کے نیچے کوئی جانور نہیں تھے۔ بچت ہو گئی۔ وہ تم نے ایک فیزیبلٹی رپورٹ بھیجی تھی چائے کے کھوکھے والی۔ مجھے قبول ہے۔ تمھاری خاطر آ سکتا ہوں۔ لیکن برتن اورگاہکوں تک چائے پہنچانا میرے ذمہ نہیں ہو گا۔ گلے پر بیٹھوں گا اور گپ شپ سے گاہکوں کو گھیروں گا۔۔۔ “

وقاص حیران کن تھا۔ ایک دفعہ گھر والوں کے لگاتار طعنوں سے تنگ آ کر سی ٹی یعنی تربیت اساتذہ کے کورس کے لیے اپلائی کیا۔ جہلم میں ایک ادارہ ہے وہاں پر۔ جس دن لسٹیں لگنی تھیں میں اور وقاص جہلم گئے۔ نوٹس بورڈ تک جاتے جاتے اس نے بارہا مجھے کہا کہ دعا کرو نام آجائے۔ یا ر پڑھائی کو دفع کر یہ دیکھ کہ ساتھ دریائے جہلم بہتا ہے۔ روز ریت پر لیٹا رہوں گا۔ گھر والوں سے جان چھوٹی رہے گی پورا ایک سال۔ ۔ بس دعا کر میرا نام آ جائے۔

جب نوٹس بورڈ پر پہنچے تو حسب توقع وقاص نے سب سے پہلے ویٹنگ لسٹ دیکھی۔ نام نہ پا کر مایوس ہو گیا۔

پھر کامیاب ہونے والے امیدواروں کی فہرست کو نیچے سے پڑھنا شروع کیا۔ نام کہیں نہیں تھا۔ میں بھی وقاص کے ساتھ مایوس ہو گیا۔

اچانک مجھے دھچکا لگا کہ وقاص احمد کا نام فہرست سے سب سے اوپر پہلے نمبر پر لکھا تھا۔ میں بہت خوش ہوا۔۔۔ لیکن وقاص خوش نہیں تھا۔

ہم منصوبے کے مطابق دریائے جہلم کے کنارے جی ٹی روڈ کے پل کے پاس گئے اور ریت پر لیٹے رہے۔

میں نے پوچھا، وقاص اب تک تم نے میرے کان کھائے ہوئے تھے کہ دعا کر وں داخلہ مل جائے۔ اب تکلیف کیا ہے؟

وقاص نے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ میرا نام فہرست میں کہاں تھا؟

میں نے کہا، سرفہرست

وقاص نے کہا، ذرا تھوڑی دیر کے لیے سوچ کہ جس ادارے میں، میں سرفہرست ہوں اس کا معیار کیا ہو گا۔ دفع کر یار۔ ویٹنگ لسٹ میں آیا ہوتا یا کامیاب امیدواروں کی فہرست میں آخر پر آیا ہوتا تو خوشی سے داخلہ لیتا۔ لیکن اب نہیں۔ اور تمھیں قسم ہے جو تم نے گھر بتایا

میں نے قسم کی لاج رکھی۔ گھر آ کر یہی بتایا کہ وقاص کامیاب نہیں ہو سکا۔

گھر والوں نے کہا۔ ۔ کیا ویٹنگ لسٹ میں بھی نام نہیں تھا۔

ہم نے کہا۔ ۔ نہیں

لوفر آوارہ گرد اور ذلیل ہو تم لوگ۔ ۔ گھر والوں کا ہمارے لیے ان سہ لفظی صفات پر اتفاق تھا۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments