چیف جسٹس، دستخط شدہ فیصلہ اور فیس معافی


ہمارے ہاں لوگ سناروں، ٹھیکداروں اور آڑھتیوں سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتے تھے۔ ان کے بارے عمومی رائے تھی کہ ان کے پاس پیسے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ان سے جھگڑے کا مطلب تھا کسی لمبے کیس میں الجھنا، پولیس سے چھتر اور پیسے دے کر عدالتوں میں خواری۔ ہر شہر گاؤں میں ایسے پیسے والوں کو کوئی دھمکی لگاتا ہے اور نہ ہی ان سے کسی کیس میں الجھنا چاہتا ہے۔ حیران کن بات یہ کہ ان سب کے پاس تجوریاں ہوتی ہیں۔ سنار اور آڑھتی کی دوکان اور آڑھت پر آہنی تجوریاں رکھی ہوتی ہیں۔ ایک تنخواہ دار یا مزدور ان تجوریوں سے کیوں کر کیس لڑ سکتا ہے۔

میں ایک واٹس ایپ گروپ کا حصہ ہوں۔ اس گروپ کو والدین نے بنایا ہے۔ والدین تو ہم سب ہی ہیں مگر گروپ؟ جی ہاں۔ والدین کا گروپ۔ یہ سب اپنے بچوں کی تعلیم اور مہنگے سکولوں کے انتخاب پر پریشان ہیں۔ معاشرے کے سٹیٹس سمبل بن جانے والے سکولوں میں بچوں کو داخل تو کرا بیٹھے مگر اب ایک عجب مشکل کا شکار ہیں۔ علی الصبح بچوں کو تیار کر کے خوشی خوشی سکول بھیجتے ہیں اور پھر اس گروپ پر فیسوں، سکول کے مسائل اور سکول انتظامیہ کے رویے پر سیر حاصل بحث ہوتی ہے۔

فیس چالان کی کاپیاں پوسٹ کی جاتی ہیں۔ سکولوں سے موصول ہونے والی دھمکی آمیز باتوں کا ذکر ہوتا ہے۔ بچوں کو امتحانات میں نہ بیٹھنے کی اجازت سے لے کر رزلٹ روکنے کی بابت سکولوں، اداروں کی انتظامیہ کے دھمکی آمیز خطوط اور پیغامات شیئر ہوتے ہیں۔ پھر بچوں کی واپسی کی منتظر مائیں اپنے کاموں میں مگن ہوجاتی ہیں۔ صاحبان اپنی اپنی جگہ مصروف ہوجاتے ہیں اور شام کے اوقات میں یہ بحث پھر چھڑ جاتی ہے۔ گروپ میں پھر لمبی بحث اور گفتگو کا سلسلہ دراز ہو جاتا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنی حالیہ عدالتی کارروائی کے دوران نظام تعلیم کی تباہی، بربادی اور مسائل بر بات کرتے ہوئے پرائیویٹ سکولوں کو خوب للکارا۔ ان سے بچوں کی فیس میں 20 فیصد کمی کا کہا۔ گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس کا پچاس فیصد والدین کو واپس لوٹانے کا کہا گیا۔ ان سکولوں کے اکاؤنٹس کو فارنزک آڈٹ کے لئے ایف بی آر کو متحرک کیا اور ایف آئی اے کو احکامات صادر فرمائے کہ تمام اکاؤنٹس تحویل میں لے کر رپورٹ پیش کی جائے۔

واضح رہے کہ سکول کی طرف سے مہیا کردہ تفاصیل میں ڈائریکٹرز کی تنخواہ پچاسی پچاسی لاکھ تک درج تھی۔ جیسے ہی یہ عبوری حکم آیا ہر طرف بالعموم اور اس واٹس ایپ گروپ میں مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ چیف جسٹس زندہ باد کے نعرے لگے۔ اسے ایک عظیم انسان قراد دیا گیا۔ اور پھر واٹس ایپ گروپ میں مختلف ٹیلی ویژن چینلوں کے سکرین شاٹ پوسٹ کیے گئے۔ کچھ والدین نے تو یہ حساب کتاب بھی پوسٹ کیا کہ پہلے فیس اتنی تھی اور اب ہمیں یہ فیس ادا کرنا ہوگی۔

میں نے اچانک گروپ میں پوسٹ کردہ پیغامات کو دیکھا تو مسکرا کر رہ گیا۔ یہ مسکراہٹ کھسیانی سی تھی۔ والدین نے چند عدد خطوط پوسٹ کیے جو کہ سکول انتظامیہ کی طرف سے موصول ہوئے تھے۔ ان میں لکھا تھا کہ ہمیں عدالت عالیہ کی طرف سے دستخط شدہ فیصلے کی کاپیاں موصول نہیں ہوئیں اس لئے اس وقت تک عمل درامد نہیں ہو سکتا۔ مزید برآں ہم عدالت کے حکم کو ماننا چاہتے ہیں مگر اس عمل سے ہماری تعلیمی کارکردگی اور معیار پر اثر پڑے گا۔

اس بات کا واضح مقصد والدین کو پیغام دینا ہے کہ بچوں کی تعلیمی سہولیات میں بھی بیس فیصد کے لحاظ سے کمی کی جائے گی اور لازمی طور پر اساتذہ بھی وہ لئے جائیں گے جو کم تنخواہ میں مزدوری کر سکیں۔

سلیبس، تعلیمی سہولیات اور ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں، سیکورٹی، سٹرکچر ہر چیز پر کٹ لگائے جائیں گے۔ اور پوچھنے والا کون ہوگا؟ وہ ریگولیٹری اتھارٹی جو کبھی فعال رہی ہی نہیں۔ وہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر یا ڈپٹی کمشنر جو پرائیویٹ سکولوں کے عدالت جانے پر مجبور اور خاموش ہوگئے تھے یا پھر وہ چیف جسٹس جو چند ماہ بعد ریٹائرڈ ہو جائیں گے؟

چیف جسٹس صاحب، یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے۔ پریس کلب اسلام آباد سے لے کر راولپنڈی، لاہور، پشاور کراچی میں احتجاج کرتے والدین ہر سکول میں منفرد صورتحال سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ ہر بچے اور فیس بل کی الگ کہانی۔ ہے۔

ہر فیس بل کی الگ تفصیل اور رونا ہے۔ بچوں پر جسمانی تشدد اور فیسوں میں اضافے کے متعلق کافی کیسز اس وقت زیر سماعت ہیں۔

گورنمنٹ سکولوں سے لے کر نجی سکولوں تک اور پھر ان بچوں تک جو کسی سکول کا نجی حصہ بھی نہیں سب کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ سڑکوں، گلیوں، محلوں، ورکشاپس، بھٹوں اور ڈھابوں پر سرکاری نوکری کرتے ہمارے ”چھوٹوں“ کو بھی تعلیم کی ضرورت ہے۔ ان سب کے لئے ہنگامی بنیادوں پر حکومت کو متحرک کریں۔ اگلی پیشی پر تمام سیکرٹری تعلیم اور وزراء تعلیم کے لئے بھی شامل ہونے کا اہتمام کریں۔ ان کو اس تعلیمی ایمرجنسی کا حصہ بنائیں۔

اور پرائیویٹ سکول مالکان، سوداگران و تاجران کو پابند بنائیں کہ وہ کسی کی تو مان لیں۔ ان کو اب دستخط شدہ فیصلہ چاہیے۔ کل کو وہ اصلی دستخط کی تصدیق اور پھر تصدیق کرنے والی کمپنی کی تصدیق مانگیں گے۔ وہ لوگ اتنے پیسے والے ہیں کہ آپ کے فیصلے کو عالمی عدالت انصاف تک لے جا سکتے ہیں۔ ان کے ایک ڈائریکٹر کی تنخواہ صدر پاکستان، چیف جسٹس یا آرمی چیف سے دس گنا زیادہ ہے۔ یہ وہ تجوری والے سنار، آڑھتی اور ٹھیکیدار ہیں جن سے لوگ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).