2018 اور صدر ٹرمپ کے ملفوضات


امریکہ میں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کا دوسرا سال مکمل کرچکے ہیں۔ عالمی منظر نامے پر امریکی صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد سے اب تک بہت سی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جس میں مقبوضہ بیت المقدس یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنا اور امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنا بھی شامل ہے۔ صدارت کا منصب سنبھالنے سے اب تک ڈونلڈ ٹرمپ کو کئی حوالوں سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والے حکمران کے پاس تو فیصلے مسلط کرنے کا مینڈیٹ ہوتا ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے سامراجی اور استعماری پالیسیوں کو نہ صرف جاری رکھنے بلکہ تیز تر کرنے کے لئے صدارت کے منصب پر ایک ایسے شخص کے لئے راہ ہموار کی جس نے پینٹاگون کے مقاصد کی تکمیل میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی خاطر منتخب جمہوری حکومت اور اس کے اراکین پرتنقید کا دروازہ کھول دیا۔ جس کی تازہ مثال گزشتہ دنوں ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر جیمز کومے کی امریکی صدارتی الیکشن میں روسی مداخلت کے حوالے سے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو ہے جس میں ریپبلکن پارٹی کے اراکین کو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کی حمایت پر تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو ویسے بھی اپنی عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ سال دوہزار اٹھارہ میں بھی ان کے بہت سے ایسے اقدامات ہیں، جس پر سنجیدہ حلقوں کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں امریکی صدر کے رواں برس دیے گئے بیانات اور ردعمل پر۔

رواں برس امریکی صدر نے اوباما دور میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ معاہدہ احمقانہ اور ہمارے مفادات کے خلاف ہے۔ امریکی صدر نے معاہدے کے اسٹیک ہولڈرز دیگر ممالک سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ایران جوہری معاہدے سے علیحدہ ہوجائیں۔ جس پر یورپی ممالک اور روس نے معاہدے سے علیحدگی سے انکار کردیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر پیوٹن سے فن لینڈ میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انتخابات میں روس نے مداخلت نہیں کی۔ جبکہ امریکہ میں روسی مداخلت پر ابھی تحقیقات ہورہی تھیں۔ لیکن امریکہ واپس آتے ہی بیان بدل ڈالا اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے بیان کو غلط انداز میں پیش کیا گیا، میں نے امریکی انتخابات میں روسی مداخلت سے انکار نہیں کیا۔

ایک امریکی صحافی ووڈورڈ نے اپنی کتاب میں انکشافات کیے کہ ٹرمپ کے افسران ان کی غیرمتوقع رویے سے خاصے پریشان رہتے ہیں۔ وہ صدرکے ڈیسک سے اہم کاغذات کو چرا لیتے ہیں تاکہ وہ ان پردستخط نہ کردیں۔ ووڈورڈ نے یہ بھی لکھا کہ ٹرمپ کے چیف آف اسٹاف جان کیلی انہیں احمق کہتے ہیں جبکہ وزیردفاع جیمز میٹس نے ایک موقع پرکہا کہ ٹرمپ کی ذہانت ایک پانچویں یا چھٹی جماعت کے طالب علم جتنی ہے۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے کتاب کو افسانہ قرار دے دیا اور کہا کہ ایسی کتابوں کی کوئی اہمیت نہیں۔

امریکی اخبارنیویارک ٹائمز نے نام مخفی رکھتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کے اہم اہلکار کی جانب سے لکھا گیا آرٹیکل شائع کیا جس میں ٹرمپ کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی گئی۔ آرٹیکل پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ نیویارک ٹائمز جھوٹی خبریں شائع کرتا ہے۔ اخبار مضمون لکھنے والے کو نیشنل سیکیورٹی کے حوالے کرے۔

ایک ریلی سے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسا بیان دے ڈالا جس پر ان کی اپنی پارٹی کے اراکین کانگریس بھی حیران رہ گئے۔ ایک ریلی سے خطاب میں امریکی صدر نے کہا کہ اگر امریکہ نہ چاہے تو سعودی بادشاہ ایک ہفتہ بھی اپنے عہدے پر قائم نہیں رہ سکتے، ہم سعودی بادشاہت کو امداد فراہم کرتے ہیں۔

وائٹ ہاوس میں پریس کانفرنس کے دوران ایک خاتون صحافی سے بدتمیزی پر امریکی صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ زیر لب خاتون صحافی پر طنز کرتے رہے جبکہ ساتھ کھڑے محافظ اور اسٹاف اراکین مسکراتے رہے۔

رواں برس ہی امریکہ میں وسط مدتی انتخابات میں عوام کی اکثریت نے ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ووٹ دیا۔ نتائج سے پریشان امریکی صدر نے پریس بریفنگ کے دوران صحافیوں کو جھاڑ پلا دی۔ ٹرمپ نے سی این این کے صحافی جم اکوسٹا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چینل کے لیے شرمناک ہے کہ تم جیسے رپورٹرز بھرتی کیے ہوئے ہیں، تم غلط خبریں دیتے ہو تم لوگوں کے دشمن ہو۔ جس کے بعد وائٹ ہاوس انتظامیہ نے جم اکوسٹا کا پریس کارڈ منسوخ کردیا اور وائٹ ہاؤس میں صحافی کا داخلہ تاحکم ثانی بند کر دیا گیا۔ جس پر سی این این نے امریکی صدر ٹرمپ پر مقدمہ دائر کردیا۔ عدالتی فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف آنے کے بعد سی این این کے صحافی کا کارڈ بحال کردیا گیا۔

دراصل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی امریکہ کا اصل چہرہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آزادی، مساوات، جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر منافقت کا جومعیارپہلے قائم تھا، وہ ذرا مدھم پڑ گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکہ کے استعماری عزائم کھل کرسامنے آگئے ہیں، مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنا، شمالی کوریا سے مذاکر ات کے باوجود پابندیاں برقرار رکھنا، ایران جوہری معاہدے سے علیحدگی اور سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کے باوجود اربوں ڈالر کے معاہدوں کے پیش نظر سعودیہ سے تعلقات صرف امریکی مفادات کا تحفظ ہیں اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم ممالک بالخصوص اور دیگر ممالک بالعموم غور فکر کریں اور امریکہ کے آرٹیفیشل معاشی و سیاسی شکنجے سے نکلنے کے لئے اقدامات کریں۔ جو شخص اپنے بیانات پر یوٹرن لینے کا ماہر ہے وہ امریکہ کے لئے صرف اس لئے قابل قبول ہے کہ استعمارانہ پالیسیوں کو دوام دینے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہو سکی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).