فلاحی ریاست میں سانس لینے پہ ٹیکس


فلاحی ریاست کتنا خوبصورت تصور ہے اور ایسی ریاست کے بارے سوچتے ہوئے عام شہری کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ فلاحی ریاست ایسی ریاست ہوتی ہے جس میں سبھی کو یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں، جس میں تمام شہریوں کو تحفظ اور ان کی بہتری کے لیے اقدامات ریاست کے ذمہ ہوتے ہیں۔ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے؟ جی بلاشک و شبہ یہ فلاحی ریاست کے سفر پر گامزن ہو چلی ہے اور اس فلاحی ریاست کو پہلی اسلامی فلاحی ریاست سے تشبیہہ دیتے ہوئے ریاست مدینہ کی مانند بنائے جانے کے دعوے بڑے زور و شور سے کیے جا رہے ہیں مگر اقدامات خال خال نظر آتے ہیں۔

مگر جو اقدامات نظر آتے ہیں وہ بڑے زبردست قسم کے ہیں، ریاست نے ایک قدم اٹھایا اور ہزاروں لوگوں کو چند دنوں میں بے گھر کر دکھایا۔ ریاست کا اگلا قدم اس سے بھی بڑا اور عظیم تھا جس کی چھلانگ سے معیشت کو ایسا ریورس گیئر لگا کہ اس سے قبل اتنی تیزی سے معاشی پہیہ کبھی نہیں چلا تھا۔ فلاحی ریاست کے کارنامے بہت زیادہ ہیں جنہیں گنواتے ہوئے الفاظ ختم ہونے کا اندیشہ ہیں کیونکہ اتنی قلیل مدت میں حیرت انگیز پھرتیاں دیکھیں تو نظر آیا کہ فلاحی ریاست میں ریاست کی بقا کے علاوہ سبھی ”مثبت“ دکھائی دیا حالانکہ وہ منفی تھا۔

فلاحی ریاست کے ترجمانوں کی آنکھوں نے جب تبدیلی کا چشمہ لگایا تو انہیں جو دکھائی دیا وہ کافی مثبت تھا۔ جیسا کہ ہم نے ڈالر کی اڑان کو مزید اونچا کر دیا۔ ہم نے معیشت کی گاڑی کو تیز رفتاری سے ریورس گئیر میں چلا کر دکھایا۔ ہم نے گھروں کو بنانے سے قبل ان کے گرانے کا تجربہ کامیابی سے مکمل کیا۔ ہم نے کشکول کا سائز مزید بڑا کیا، جو اس سے قبل کافی چھوٹا تھا۔ ہم نے صاف لٹرین سسٹم کا تصور پیش کیا، مرغی، انڈے اور کٹے کی بات کی جو کہ اس قبل معیوب سمجھی جاتی۔

ہم نے معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں جیسا کہ شراب پر پابندی کی بیانگ دہل مخالفت کی اور رندوں کا ساتھ دیا۔ ہم نے شغل میلہ کے لیے بسنت منانے کا اعلان کر کے ثابت کر دیا کہ ہم ہی زندہ دل ہیں اور ہم سوچ رہے ہیں کہ سب سے زیادہ ہمارا ساتھ نوجوانانِ ریاست نے دیا تو امید رکھیں کہ ویلنٹائن کو بھی سرکاری سرپرستی میں لیتے ہوئے قوم کے جوانوں کو مفتے میں گلاب کی پتیاں مہیا کریں گے۔ ہماری حکومت کے کارنامے اتنے زیادہ ہیں اور اتنی کم مدت میں بڑی کامیابیاں سمیٹتے ہوئے دنیا کو بتا دیا ہے کہ پاکستان ایک عظیم فلاحی ریاست ہے، جس کو بظاہر ہم چلا رہے ہیں مگر درپردہ وہ چلا رہے ہیں۔

مزید کارنامے گنوانے کی بجائے آپ کو بتلائے دیتے ہیں کہ سادگی کو فروغ دیتے ہوئے ہمارے لیڈر اعظم مانگے کے کپڑے پہنتے ہیں۔ اس قوم کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا معلوم نہیں ہو رہا تھا جبھی تو ہم نے سگریٹ نوشی پہ گناہ ٹیکس عائد کیا۔ اور اس سادہ قوم کو نوید ہو کہ وہ دن دور نہیں جب آپ کو آزاد فضا میں سانس لینے کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے سانس لینے پہ ٹیکس لگا دیا جائے گا تاکہ یہ ریاست حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست بن سکے، جس میں کسی جرنیل کو جج پر اور سیاستدان کو عوام پر کوئی فوقیت حاصل نہ ہو سوائے بیان بازی کے مگر عوام کے لب اس میں آزاد نہیں ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).