مولانا فضل الرحمن: تصویر کا دوسرا رخ


انتحابات کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا گیا، الیکشن کو فراد الیکشن قرار دے کر ایک اتفاق رائے پیدا کیا گیا۔ دو چار اے پی سی ہوئیں۔ پیپلز پارٹی نون لیگ کے ساتھ بیٹھی۔ ان تمام ایکٹیویٹیز کا محرک مولانا فضل الرحمن صاحب تھا۔ بعد میں باقی بڑی جماعتیں کسی مصلحت یا نظریہ ضرورت کے تحت خاموش ہوئیں، حکومت کو چھ مہینے چلنے دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوئیں، لیکن ایک شخص اس کھوکھلے نظام کو للکارتا رہا۔

اس نے حکومت کو ماننے سے صریح انکار کر دیا۔ خیبر سے کراچی تک اور کوئٹہ سے پشاور تک مولانا فضل الرحمن جعلی انتخابات کے خلاف اپنا بیانیہ دیتا رہا۔ انتخابات کے نیتجے میں بننے والی حکومت کو جعلی حکومت اور وزیر اعظم کو جعلی وزیر اعظم کہتا رہا۔ اس سفر میں مولانا تنہا رواں دواں تھا۔ صدارتی انتخابات ہوئے۔ اس میں بھی مولانا نے حصہ لیا۔ اس طرح مقتدر قوتوں کو مولانا سے برابر زق پہنچتی رہی۔ کئی بڑی شخصیات کو مولانا کے پاس بھیجا گیا پیغامات دیے گئے کہ آپ خاموش ہو جائیں اور حکومت کو تسلیم کر لیں جس کا ثبوت معروف صحافی حامد میر نے اپنے ایک انٹرویو میں دیا۔

یہ سب کارگر ثبت نا ہوا۔ لہذا مولانا کو تنہا کرنے کے لیے بعض بڑے بڑے علماء سے رابطہ کیا گیا کہ آپ مولانا سے براءت کا اظہار کریں۔ تاکہ مولانا تنہائی کا شکار ہو جائے۔ چونکہ نواز شریف اور زرداری کو نیب وغیرہ کے ذریعہ رام کر لیا گیا تھا وہ فارمولا مولانا فضل الرحمن پر لاگو نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ مولانا کا ماضی کرپشن، سکینڈلز، اور خردبرد سے پاک ہے۔ مولانا نے درویشوں کی طرح سیاست کی ہے۔ مولانا اپنی چالیس سالہ سیاسی تاریخ میں کبھی سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوا۔ اس لیے مولانا کو رام کرنے کے لئے دوسرے طریقے اختیار کیے گئے۔

یہ سلسلہ جاری تھا اور عین ممکن تھا کہ کچھ علماء میدان میں آ کر عمران خان کی حمایت کرتے اور مولانا کو ڈی ویلیو کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اللہ پاک مولانا صاحب کو آئیسو لیٹ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ حکومت سے دو چار ایسے واقعات رونما ہوئے جن کے نیتجے میں مولانا کی باتوں کو تقویت ملی۔ قادیانی عاطف میاں کی تقرری، مدارس کے حوالے سے حکومتی رویہ، چنیوٹ میں قدیم مدرسہ کو شہید کرنا، اسرائیلی طیارے کی آمد کا معمہ اور آخر میں آسیہ مسیح کیس کا فیصلہ۔

یہ واقعات ایسے تھے جو مولانا کے دس سالہ تحریک انصاف کے بارے میں موقف کو درست ثابت کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوئے۔ انہیں فیصلوں کے بعد تمام مذہبی طبقہ بشمول ان مذہبی لوگوں اور علماء کے جو تحریک انصاف کے لیے نرم رویہ رکھتے تھے سب یک زبان ہو گئے۔ ایک نیشنل کنسینسز (اتفاق رائے ) پیدا ہوا۔ تمام علماء نے آسیہ مسیح فیصلے کے بعد شدید رد عمل دیا۔ اور ملک میں ایک نئی تحریک شروع ہوئی۔ تحریک تحفظ ناموس رسالت کے نام سے۔

اس تحریک کے نتیجے میں اب تک کراچی لاہور اور سکھر میں بڑے بڑے ملین مارچز ہو چکے ہیں۔ اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو اکیلا کرنے والے رب کائنات کی ترکیب پر ششدر رہ گئے کہ یہ تو سارا کام الٹ ہوا۔ مولانا صاحب تو جمہوری قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر رہے تھے اب تو مذہبی قوتیں بھی میدان میں مولانا کے ساتھ ہماری بنائی گئی حکومت کے خلاف برسرپیکار ہو گئیں۔

اس سارے منظر (scenario) کو ذہن میں رکھ کر اب آئین موجودہ حالات کی طرف۔ یہاں اس ملک میں کسی بڑی شخصیت سے کسی متنازعہ وزیر اعظم کی حمایت کروانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ لوہے سے لوہے کو کاٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک طرف سیاسی علماء اور دوسری طرف غیر سیاسی علماء کو سامنے لایا گیا ہے۔ یہ چال کہاں تک کامیاب ہوتی ہے یہ تو وقت بتائے گا۔ البتہ اتنی بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ وزیر اعظم کی حمایت میں بیان جاری ہوا ہے اور اس بیان کے بعد جو شدید رد عمل مذہبی طبقے کی طرف سے آیا اس کے بعد بعض علماء جو بڑے ہی سادہ ہیں اور بڑی آسانی سے جال میں آجاتے ہیں ان کا میدان میں اترنا خود بخود نہیں ہوا۔ یہ سب پری پلین لگتا ہے۔ اس بار پھر مولانا فضل الرحمن کو روکنا یے۔ لیکن دیکھتے ہیں کہ خالق کل جہاں کیا نقشہ بناتا ہے۔ ہماری علماء سے ہمدردانہ اپیل ہے کہ گرتی دیوار کو بچانے کی کوشش نہ کریں ایسا نہ ہو کہ اس بوسیدہ دیوار کے نیچے اپنا وقار بھی زمین بوس کر بیٹھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).