جسٹس بھگوان داس: ایک بڑے انسان کے دل میں کتنی وسعت ہوتی ہے؟


میری والدہ کے انتقال کو ابھی ہفتہ بھر ہی ہوا تھا کہ ایک شام میرے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف سے آواز آئی، ’’سپریم کورٹ کے جج رانا بھگوان داس آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ مجھے کچھ کچھ حیرت سی ہوئی۔ بہت سے جج صاحبان سے شرفِ نیاز مندی حاصل ہونے کے باوجود میری رانا صاحب سے کوئی شناسائی نہ تھی۔

ذرا دیر بعد جسٹس صاحب لائن پر آ گئے۔ ایک نرم و ملائم سی آواز جیسے براہِ راست دل پر دستک دے رہی ہو۔ اظہارِ تعزیت کیا، تسلی دی اور کچھ ایسے الفاظ کہے کہ میرے تازہ تازہ زخم پر مرہم سا لگا گئے۔ میں نے شکریہ ادا کیا کہ غم کی اس گھڑی میں انہوں نے مجھے یاد کیا۔ فون بند ہو جانے کے بعد بھی میں دیر تک سوچتا رہا کہ کیسا نفیس اور درد مند شخص ہے کہ ایک ایسے آدمی کا دُکھ بھی محسوس کر رہا ہے، جس سے اس کا کوئی دُور کا بھی رشتہ نہیں۔ جو میرا ہم مذہب بھی نہیں، جس کے ساتھ سماجی میل جول اور رابطہ تو کیا، براہِ راست تعارف تک نہیں۔

اُس سے ایک دن بعد شام نمازِ مغرب سے ذرا بعد گھر کی گھنٹی بجی۔ معلوم ہوا کہ رانا بھگوان داس صاحب آئے ہیں۔ میرے گھر کا پتہ معلوم نہ ہونے کے باعث وہ میرے ایک صحافی دوست کو ہمراہ لے آئے تھے۔ ڈرائنگ روم میں بیھٹتے ہی انہوں نے رسمی تعزیتی جملے کہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ دعا اور فاتحہ خوانی تو ان کے ہاں روا نہیں، سو بات اسی نوع کی گفتگو تک محدود رہے گی، لیکن جناب جسٹس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ ثقہ مسلمانوں کے سے انداز میں فاتحہ پڑھی۔ وہ کوئی پون گھنٹہ ہمارے گھر رہے اور رخصت ہوتے ہوئے کہا، ’’اللہ تعالیٰ آپ کی والدہ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور آپ سب کو یہ بڑا غم برداشت کرنے کی ہمت اور توفیق دے۔‘‘

(جسٹس بھگوان داس قمبر، شہداد کوٹ میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کے قائم مقام چیف جسٹس رہے۔ 23 فروری 2015 کو وفات پائی۔ یہ تحریر محترم عرفان صدیقی کی کتاب ’’جو بچھڑ گئے‘‘ سے لی گئی ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).