لڑکیوں کی آن لائن بلیک میلنگ کا معاملہ


تحریر: سائمن پارکن، نیویارکر۔ تلخیص و ترجمہ: عدنان خان کاکڑ

عموماً سب کو لیکن خاص طور پر خواتین کو سوشل میڈیا اور موبائل پر ایک اچھا پاسورڈ لگانا  چاہیے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں بسا اوقات خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔  ’ہم سب‘ کے قارئین کے لیے نیویارکر میں شائع ہونے والا یہ مضمون دلچسپی کا باعث اور  معلوماتی ہو گا اور ان کو ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن سے بھی متعارف کروائے گا جو کہ کسی مشکل میں پڑنے کی صورت میں ان کی مدد کر سکتی ہے۔

***    ***

دو برس پرانی بات ہے کہ ایڈورڈز کالج پشاور کی ایک اٹھارہ سالہ طالبہ نے اپنی ایمیل کھولی تو اس نے ایک تصویر دیکھی جس میں اس کا سر کسی دوسری عورت کے برہنہ جسم پر چسپاں کر دیا گیا تھا۔ طالبہ نے ایمیل پڑھی تو اس کی نفرت خوف میں تبدیل ہو گئی۔ ایمیل بھیجنے والے نے، جس نے اپنا نام گنداگیر خان لکھا تھا، یہ دعوی کیا کہ اس نے لڑکی کا فیس بک اکاؤنٹ ہیک کر لیا ہے۔ اس نے دھمکی دی کہ اگر طالبہ نے اسے موبائل کے پری پیڈ کارڈ کی صورت میں پیسے نہ بھیجے تو وہ یہ تصاویر انٹرنیٹ پر پوسٹ کر دے گا۔ اس نے کالج کی دوسری طالبات کے بارے میں ذاتی تفصیلات جاننے کا مطالبہ بھی کیا۔

طالبہ نے انکار کیا تو گنداگیر نے یہ فوٹو شاپ کی ہوئی تصویر، بمعہ چند مزید تصاویر کے، فیس بک کے ایک پیج پر پوسٹ کر دیں جس کا نام ایڈورڈز کالج کی لڑکیاں تھا۔ ہر تصویر کے نیچے طالبہ کا نام، فون نمبر اور ایک جنسی پیغام درج تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ طالبہ ان پچاس خواتین میں سے ایک تھی جن کو گنداگیر کے اکاؤنٹ چلانے والے محمد علی شاہ اور سہیل نامی اشخاص پچھلے چار سال سے ہراساں اور بلیک میل کر رہے تھے۔ ان دونوں کو گزشتہ اگست میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

’سارا پشاور اس بات سے آگاہ تھا کہ کیا ہو رہا ہے‘، ان مجرموں کی ایک شکار رابیل جاوید نے مجھے بتایا۔ ’جب بھی کوئی لڑکی تصویر اتارتی، تو ہم کہتے کہ دعا کرو کہ یہ گنداگیر کے پاس نہ پہنچ جائے‘ ہر لڑکی کو لگتا تھا کہ اگلا نمبر اس کا ہو سکتا ہے‘۔

گو کہ رابیل کے خاندان کے کچھ لوگوں نے ہیک ہونے پر اسے الزام دیا، لیکن اس کی بہنیں اس کے ساتھ تھیں۔ ’وہ مجھے کہتی رہیں کہ یہ میری غلطی نہیں ہے بلکہ یہ شخص ہی ذہنی مریض ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میرا تعلق ایک لبرل خاندان سے ہے۔ زیادہ تر لڑکیاں مجھ جیسی (خوش قسمت) نہیں ہیں‘، رابیل نے بتایا۔ شروع میں جس طالبہ کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے والد نے اس کی پٹائی کی اور اس کے کالج جانے پر پابندی عائد کر دی۔

ایڈورڈز کالج کے طلبہ اور طالبات نے فیس بک پر یہ پیج ہٹانے کی پیٹیشن دائر کر دی۔ ’ہم رپورٹ کرتے رہے مگر کچھ کام نہ آیا‘۔ رابیل نے بتایا۔ گنداگیر کی تمام تصاویر کے نیچے جنسی تحریریں درج تھیں، مگر کسی میں ایسا مواد نہیں تھا جسے فیس بک کے کمیونٹی سٹینڈرڈ کے خلاف سمجھا جا سکتا۔ فیس بک کا قریب ترین دفتر بھارت میں حیدر آباد دکن میں ہے۔ ’پھر مجھے سمجھ آئی کہ یہ زبان کا مسئلہ ہے۔ یہ پیغام پشتو زبان میں لکھا ہوا تھا‘۔

کئی مہینے تک فیس بک کو قائل کرنے کی ناکام کوشش کے بعد، رابیل نے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نگہت داد کو خط لکھا۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن ان خواتین کو مدد فراہم کرتی ہے جو کہ آن لائن تشدد کی شکار ہوں۔ نگہت داد کے اس معاملے میں شامل ہو جانے کے بعد فیس بک نے فوری طور پر یہ تصاویر ہٹا دیں، اور ایک ترجمان نے مجھے بتایا کہ اس واقعے (اور اس جیسے دوسرے واقعات) کے بعد فیس بک نے تین درجن زبانیں بولنے والے ملازمین رکھے ہیں جو اس طرح کے مواد کا تجزیہ کرتے ہیں۔ سترہ اگست کو کراچی کے ایکسپریس ٹریبیون نے خبر دی کہ ایف آئی اے نے محمد علی شاہ اور سہیل کو گرفتار کر لیا ہے۔ نگہت داد کے مطابق، ان افراد نے اپنے معاملہ عدالت سے باہر طے کر لیا۔

’پاکستان میں آن لائن طور پر ہراساں کرنا مغرب سے مختلف انداز کا ہوتا ہے‘۔ صحافی عنبر شمسی نے مجھے بتایا۔ مارچ میں ایک قدامت پسند عالم نے یہ فتوی دیا کہ قندیل بلوچ کو سوشل میڈیا پر فالو کرنا غیر اسلامی ہے کیونکہ وہ دل لبھانے والی تصاویر پوسٹ کرتی ہے۔ جب عنبر شمسی نے کولیگ کا یہ دعوی ری ٹویٹ کیا کہ اس عالم کا فتوی اصلی ہے، اور بعض افراد کے بیان کے مطابق جعلی نہیں ہے، تو ٹرول کے ایک گروہ نے ان کی تصاویر ڈاؤنلوڈ کر لیں اور ان پر فحش الفاظ لکھ کر ان کو پوسٹ کرنا شروع کر دیا۔

’آن لائن ایسا رویہ عام ہے کیونکہ یہ ہماری گلیوں میں بھی عام ہے۔ جو آف لائن ہوا کرتا ہے، وہی آن لائن بھی ہوتا ہے۔ ایک ایسی خاتون جو کہ عوامی جگہ پر آتی ہے، جس میں سوشل میڈیا بھی شامل ہے، ایک بہکی ہوئی اور اپنے والد، بھائی اور شوہر کی پناہ سے باہر تصور کی جاتی ہے اور نشانہ بنتی ہے۔ آن لائن تعاقب کا نتیجہ حقیقی جانی خطرے کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے‘۔ مثال کے طور پر 2013 میں چند افراد نے دو لڑکیوں اور ان کی ماں کو اس وقت قتل کر دیا تھا جب ان کی بارش میں رقص کرتے ہوئے ویڈیو پوسٹ کر دی گئی تھی۔ پاکستان کے دیہاتی اور قدامت پرست علاقوں میں جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کا یہ خطرہ زیادہ عام ہے، لیکن کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر میں بھی یہ ہوتا ہے۔ اپریل میں ایک شخص نے اپنی بہن کا گلا اس وقت کاٹ ڈالا تھا جب اس نے اسے ایک موبائل فون پر بات کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔

نگہت داد کا تجربہ شہر اور دیہات دونوں کا ہے۔ وہ اور ان کے بہن بھائی لاہور اور کراچی میں پلے بڑھے، لیکن ان کے خاندان کی جڑیں پنجاب کے ایک گاؤں میں ہیں۔ نگہت نے بس ’حادثاتی‘ طور پر ہی قانون کی تعلیم حاصل کر لی۔ لیکن ان کے شوہر نے، جن سے ان کی ارینج میرج ہوئی تھی، ان کے کیرئیر پر قدغن لگا دی۔ دو سال بعد، جبکہ ان کا ایک چھے ماہ کا بچہ بھی تھا، ان کی طلاق ہو گئی۔ نگہت کے خاندان نے طلاق کا ذمہ دار ان کی یونیورسٹی کی تعلیم کو ٹھہرایا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ’اس نے تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے اس لیے تم گھر اور مرد سے سمجھوتہ کرنے میں ناکام رہی ہو‘۔ لیکن ان کے والد نے ان کی حمایت کی اور ان کو کہا کہ تم جو چاہتی ہو وہ کرو۔ انہوں نے لاہور کی ایک فرم میں وکالت شروع کی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اکثر ایسا ہوتا کہ جب میں اختتامی دلائل دینے کے لیے کھڑی ہوتی تو جج مجھے بیٹھنے کو کہہ دیتا۔ پیغام واضح تھا۔ خواتین وکلا اچھی وکلا نہیں ہوتیں‘۔ ان کو اپنی فرم میں بھی ایک مرد کولیگ کی طرف سے ہراساں کیے جانے کا معاملہ پیش آیا۔

نگہت کے تجربے نے ان کو رضاکارانہ طور پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے لیے کام کرنے کی تحریک دی۔ نگہت کا کہنا ہے کہ ’بہت سے مذہبی قامت پسند افراد کا یہ ماننا ہے کہ خواتین کو ٹیکنالوجی استعمال نہیں کرنی چاہیے، پاکستان میں دو کروڑ تیس لاکھ فیس بک اکاؤنٹ ہیں، لیکن کئی مرتبہ ایسی خواتین جن کو فیس بک پر ہراساں کیا جا رہا ہو، باضابطہ شکایت درج نہیں کراتی ہیں‘۔ جیسے جیسے مزید خواتین سوشل میڈیا میں شامل ہو رہی ہیں، ویسے ویسے ان کی موجودگی کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے۔

پچھلے اگست میں مردوں کے ایک گروہ نے لاہور میں خواتین ڈاکٹروں کو نشانہ بنایا اور ان کی وٹس ایپ سے تصاویر اور پیغامات چوری کر کے ان سے رقم کا مطالبہ کیا۔ نگہت کہتی ہیں کہ ’بدنامی کا خوف ان ورکر خواتین کو ایک آسان نشانہ بنا دیتا ہے، اور یہ اس جنگ کے علاوہ ہے جو کہ وہ کام کرنے کے حق کے لیے لڑتی ہیں‘۔ نگہت کی تنظیم کے دو افراد فیس بک کی شکایات پر کام کرنے کے لیے مخصوص ہیں لیکن وہ عوام کے ساتھ خود معاملہ کرتی ہیں۔ ہر بڑھتے دن کے ساتھ ان کے پاس خواتین کی اتنی زیادہ کالیں آ رہی ہیں جن سے وہ بمشکل نمٹ پاتی ہیں۔

عمومی طور پر امریکہ میں جڑیں رکھنے والی سوشل میڈیا کمپنیاں اپنے پلیٹ فارم پر مختلف ثقافتوں میں (خواتین کو) ہراساں کرنے کے معاملے سے نمٹنے میں سست رہی ہیں۔ مارچ میں عورتوں کے بین الاقوامی دن کے موقعے پر، فیس بک نے پاکستان، برازیل، انڈونیشیا اور ملائشیا میں خواتین کو آن لائن حفاظت اور پرائیویسی سے آگاہ کرنے کے لیے مقامی زبانوں میں ویڈیو جاری کی تھیں۔ نگہت کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔ ’اگر پشاور میں کوئی ایک ایسا فیس بک پروفائل رپورٹ کرتا ہے جو کہ پشتو زبان میں لکھا ہوا ہے، تو یہ یوزر کی غلطی نہیں ہے کہ فیس بک کو یہ زبان نہیں آتی ہے۔ ایسے پیج حقیقتاً نوجوان خواتین کی زندگی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس اثنا میں میں عورتوں کو آن لائن پرائیویسی سیٹنگ میں سکھاتی ہوں؟ فیس بک کے لیے یہ ڈیجیٹل مزدوری میں کر رہی ہوں‘۔

نیو یارکر کا مضمون

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments