بڑودہ میں ملازمت اور مولانا شوکت علی کی آمد


میرے دادا جان (1892-1963 ) ایک سیلانی آدمی تھے۔ غلام محمد نام تھا لیکن بابو غلام محمد مظفر پوری کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کا چپہ چپہ دیکھ رکھا تھا۔ اس کے علاوہ بسلسلہ ملازمت برما، ایران، عراق اور مشرقی افریقا کے ممالک (کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ) میں ان کا قیام رہا تھا۔ افریقا میں قیام کے دوران ہی (1938-46) انہوں نے اپنی سوانح لکھنا شروع کی تھی جس کا نام ”سفری زندگی“ رکھا تھا۔ ”سفری زندگی“ کے کچھ اقتباسات “ہم سب” میں شائع ہو چکے ہیں۔

٭٭٭    ٭٭٭

1920 ء کے اخیر میں، عراق میں ایگریمنٹ ختم ہونے پر گھر آ گیا تھا۔ دو ماہ گھر پر رہ کر پھر بی بی اینڈ سی آئی میں بطور اوورسئیر کے چلا گیا کیونکہ وہاں پر میرے استاد بابو شرف الدین صاحب بطور سپروائزر کے مستقل نوکری پر تھے۔ ان کی کوششوں سے مجھے وہاںپر نوکری مل گئی اور میں نے دو سال اس ریلوے کے رتلام ڈسٹرکٹ میں کام کیا۔ اس دو سال کے عرصے میں میں زیادہ تر سروے کے کام پر ہی لگا رہا۔ اس علاقے کی آب و ہوا جو کہ گجرات اور مالوہ کی حد ہے، بہت اچھی ہے۔ خاص کر دوہد سٹیشن پر ہمیشہ کافی سردی رہتی ہے۔

اس ریلوے کی ملازمت کے زمانہ میں دو دفعہ میں نے اپنے بال بچوں کو بھی اپنے پاس منگوایا تھا لیکن زیادہ عرصہ نہیں رکھ سکتا تھا کیونکہ میرے اور میری اہلیہ کے والدین بوڑھے تھے۔ ان کی دیکھ بھال کے لیے اور کوئی گھر پر نہیں تھا اس لیے جلدہی واپس بھیج دیا کرتا تھا۔

ان دو سال کے عرصہ میں کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔ صرف ایک دو واقعات جو پیش یا دیکھنے میں آئے، یہاں تحریر کرتا ہوں۔ اس زمانے میں ہندو مسلم اتحاد خوب زوروں پر تھا۔ 1921ء میں مولانا شوکت علی صاحب، جو کہ علی برادران کے نام سے مشہور تھے، دوہد میں ایک بھیل کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے تشریف لائے۔ ان کے استقبال کے لیے اس قدر ہجوم ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر تھا جو کہ شمار نہیں ہو سکتا تھا۔ جب گاڑی کے آنے کا وقت ہوا جو کہ 19 ڈاؤن کہلاتی تھی اور بی بی اینڈ سی آئی کی دہلی ایکسپریس تھی، تو لوگوں میں اس قدر شوق اور اشتیاق دیکھا گیا جو کہ بیان سے باہر ہے۔ پس گاڑی آئی اور سٹیشن پر آ کر رک گئی۔ بڑی مشکل سے مولانا صاحب کو گاڑی سے اتارا گیا اور ایک دو گھوڑے والی بگھی میں بٹھایا گیا کیونکہ ہجوم بے شمار اور قابو سے باہر ہو رہا تھا۔ اس وقت مولانا کے ساتھ دوسرے لیڈر شاید سردار پٹیل تھے جو کہ اسی علاقہ گجرات کے موضع کرمسد کے تھے۔ ان ہر دو  رہنماؤں کی شان اس وقت قابل دید اور رشک تھی۔مولانا تو دیکھنے میں اس قدر شکیل و جوان تھے کہ وہاں کے لوگ ان کو دیکھتے اور عش عش کر رہے تھے۔ جب سب مجمع جلوس کی شکل میں منڈوے تک پہنچا تو تقریریں شروع ہو گئیں۔ وہاں پر اس قصبہ میں بوہرہ لوگ، جو کہ شیعہ فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ کانگرس کے خلاف تھے، مولانا کے قدوقامت اور شکل و شباہت سے متاثر ہو کر وہ بھی کانگرس میں آکر شریک ہو گئے۔ مولانا صاحب اور ان کے دوسرے رفیق لیڈر ایک رات اور ایک دن وہاں پررہے۔

چونکہ اس کانفرنس کا نام بھیل کانفرنس تھا جو کہ اس علاقہ میں بہت تعداد میں جنگلوں میں آباد ہیں۔ وہ لوگ شراب بہت پیتے ہیں۔ جو بھی کماتے ہیں شراب کی نذر کر دیتے ہیں۔ ان کی عورتیں بھی اس شراب نوشی میں اپنے مردوں کے ہم پلہ رہتی ہیں۔ بس بھیلوں کو اس کانفرنس میں یہی نصیحت کی گئی کہ شراب مت پیا کرو۔ بھیل بے شمار اس کانفرنس میں آئے ہوئے تھے۔ اس وقت یہ کانفرنس بہت کامیاب رہی۔ لیکن بعد ازاں وہی نتیجہ کہ چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی۔ 1921ءکے بعد 1922 میں علی برادران پر کراچی میں مقدمہ چلایا گیا اور قید فرنگ میں ڈال دیا ۔

1880 میں بروڈہ کا ایک منظر

ایک دوسرا قصہ اپنے کام یعنی سروے کا لکھتا ہوں جس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ انگریز افسر بھی غلطی کر جاتے ہیں کیونکہ وہ کوئی فرشتے نہیں ہیں۔ کام کو خود کرنااور بات ہے اور کیے ہوئے کام کو چیک کرنا یا اس میں نقص نکالنا بہت آسان ہوتاہے۔ وہ پنجابی میں کہتے ہیں کہ جس کی کوٹھی دانے اس کے کملے بھی سیانے۔

ایک روز کا ذکر ہے مسٹر آرنلڈ چیف انجنیئر صاحب بمبئی سے دورہ کرتے ہوئے رتلام ڈسٹرکٹ میں آئے۔ رتلام کے ایکس ای این مسٹر میکملن ان کے ہمراہ تھے۔ دوہد میں اس وقت ایک بگاری سکیم زیر غور تھی یعنی مارشل یا رڈ لوکو کیرج شاپ بمبئی سے دوہد میں لانا تھی۔ شام کے دو بجے تھے جس وقت ایکس ای این نے چیف انجنیئر صاحب کی ہدایت پر ہم دو اوورسیئروں کو حکم دیا کہ فلاں جگہ سے شروع کرکے فلاں جگہ پر کمپاس اور لیول سے ٹراورس کرکے صبح کو پوری رپورٹ دو۔ Longitudinal section تیار کرکے ہم ہر دو نے اسی وقت کام شروع کر دیا۔ فاصلہ تقریباً تین میل ہو گا لیکن علاقہ صاف تھا، کچھ ناہموار تھا۔ خیر جب ہم اپنے closing pointپر شام کو پہنچے تو بہت اندھیرا ہو گیا۔ ہم اچھی طرح تسلی بخش طور پر اپنا کام correct نہ کر سکے۔ ہم نے رات کو لیمپ جلا کر ، کچھ باقی ماندہ انفارمیشن پرانے نقشوں سے لے کر اپنا Longitudinal سیکشن تیار کر لیا۔ چونکہ میںلیول پر تھا زیادہ سیکشن کی ذمہ داری میرے پر تھی۔ دوسرا اوورسیئر مسٹر دینا ناتھ میرے سے سینیئر اورپرانا تھا۔ ہم لوگ پرانے ریکارڈ سے مدد لینے میں قریباً چار فٹ کی غلطی کر گئے کیونکہ اس وقت تک پرانے ریکارڈ میں بہت ردوبدل ہو چکی تھی۔ میل وغیرہ آگے پیچھے ہو چکے تھے۔ ایکس ای این کا نادر شاہی حکم تھا۔ پس ہم اپنا نقشہ مکمل کرکے رات کو دس گیارہ بجے فارغ ہو کر اپنے اپنے کوارٹروں میں جا کر سو رہے۔ صبح چار بجے ایکس ای این کا چپڑاسی آیا کہ صاحب بلاتا ہے۔ اسی وقت چائے وغیرہ پی کر صاحب کی خدمت میں آ حاضر ہوئے۔ اسسٹنٹ انجینیر دوہد میر چندانی بھی آ گئے اور مسٹر دوسابھر بھی آ حاضر ہوئے۔ ایکس ای این نے جب میرا نقشہ دیکھا تو کہنے لگا کہ فلاں جگہ غلط معلوم ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں ٹھیک ہے۔ اس نے دوبارہ کہا کہ نہیں غلط ہے۔ میں نے پھر کہا کہ نہیں ٹھیک ہے۔ اس پر مسٹر دینا ناتھ میرے کان میں کہنے لگے کہ مان جاؤ، رات شاید ہم سے غلطی ہو گئی ہو۔ میں نے کہا کہ نہیں ٹھیک ہے۔ جب تین دفعہ ایکس ای این کے کہنے پر میں نہ مانا تو اس نے کہا سو سو روپیہ کی شرط۔ میں چپ ہو گیا۔ افسر سے مقابلہ کیا۔ جیسا کہ پنجابی میں مثال ہے کہ جس کو کہنا جی، اس سے لینا کیہ۔

خیر قصہ مختصر ایکس ای این صاحب اور ہم سب اس کام کی طرف، خاص کر وہی کام، چیک کرنے کے لیے چل دیے جو کہ دوہد سٹیشن سے تقریباً دو میل پر جانب مشرق تھا۔ وہاں پر پہنچ کر ایکس ای این صاحب نے وہی لیول کرنا شروع کر دیا اور مجھے کہا کہ تم پاس بھی نہ رہو، شاید اپنے لیول والے آدمیوں کو اپنے حق میں کوئی کچھ سمجھا نہ دو۔ میں کچھ فاصلہ پر آگے جا کر بیٹھ گیا۔ ایکس ای این اور اسسٹنٹ انجینیرنے میرا کام چیک کرنا شروع کیا۔ اس وقت ایکس ای این نے لیول بک کی باقاعدہ خانہ پری کرنے کے بجائے ایک ہی لائن میں جمع تفریق شروع کر دی۔ نہیں معلوم کہ وہ کیا غلطی کر گیا یا خداوند کریم کو میری عزت و حوصلہ افزائی منظور تھی، ایکس ای این صاحب بالکل میرے ساتھ tally ہو گئے۔ اس وقت اسسٹنٹ انجینیرصاحب نے تالی بجا دی اور ایکس ای این صاحب کچھ شرمندہ ہو سا ہو گیا۔ شرط وغیرہ تو کیا لینی تھی لیکن ایکس ای این صاحب کی تسلی ہو گئی۔ پھر اس روز کے بعد میں جیسا بھی کام کر دوں وہ کبھی کچھ اعتراض نہیں کرتا تھا۔

 میری اس دو سالہ ملازمت میں مجھے زیادہ تر سروے ڈیوٹی پر ہی رکھا گیا۔ ایک دفعہ تو میں 300 میل پیدل ہی چلا کیونکہ تمام ڈسٹرکٹ کا ٹریک ریکارڈ بنانا تھا جس میں ریلوں کی کریکشن و پل وغیرہ کی چینج بھی شامل تھی۔ لیکن اتنا کام کرنے پر بھی صاحب بہادر نے مجھے ترقی نہ دی اور نہ ہی میں نے ترقی کے لیے درخواست دی۔ 1923 کے شروع میں استعفا دے دیا کیونکہ میں ٹمپریری ہی تھا۔ گو 1921 میں مجھے پرماننٹ کرنے کے لیے ایکس ای این نے کہا تھا لیکن صرف 65 روپے بطور سب اوورسیئر پر پرماننٹ کرتے تھے جو میں نے منظور نہیں کیا۔ اس لیے ایکس ای این نے میرا استعفا منظور کر لیا۔ استعفا منظور کرتے وقت یہ لکھ دیا کہ یہ شخص بڑا لالچی ہے اس لیے اس کا استعفا منظور کیا جاتا ہے۔ واہ رے ایکس ای این صاحب! ترقی مجھے خود نہ دی اور سروے کا کام بڑے زور اور دباؤ سے لیا۔ اس پر طرہ یہ کہ مجھ پر لالچی کا ریمارک پاس کر دیا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).