آل ہنزہ ہوٹلز ایسوسی ایشن۔ دوسرے سیاحتی مراکز کے لیے ایک مثال!


آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن کا قیام 2009 میں عمل میں آیا۔ ہوٹل مالکان اور سیاحوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس ایسو سی ایشن کے قیام کے پس پردہ محرک آغا خان اکنامک بورڈ تھا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن کیا کرتی ہے اور سیاح اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟

آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن ایک طرف تو ہوٹل مالکان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے تو دوسری طرف سیاحوں کے لیے یہ بات یقینی بناتی ہے کہ ان کو ہنزہ میں قیام کے دوران کسی طرح کی دھوکہ دہی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن نے سب سے پہلے تمام ہوٹلز کا دورہ کر کے اس کے کمروں کا چیک کیا اور سہولیات کے اعتبار سے ان کے زیادہ سے زیادہ ریٹ کو فکس کیا۔ اس عمل کے دوران ایسوسی ایشن کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوٹل مالکان کے اس مؤقف کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا تھا کہ سیزن کی مدت بہت کم ہوتی ہے تو اس میں ریٹ کو فکس کرنے سے انہیں نقصان ہوتا ہے۔ آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن نے تمام ہوٹل والوں کو سمجھایا کہ آپ کی سرمایہ کاری ایک سے زیادہ سیزن میں واپس ہو سکتی ہے۔ اگر آپ یہ چاہیں گے کہ آپ کی سرمایہ کاری ایک ہی سیزن میں واپس آ جائے تو اس سے سیاحوں کے ساتھ زیادتی کا امکان زیادہ سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن کے قیام کا بڑا مقصد یہ بھی ہے سیاحوں کے ساتھ ہنزہ میں ہوٹل ریٹ کے حوالے سے زیادتی کے امکان کو صفر کیا جا سکے۔

آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری عالم صاحب اور صدرعلی مدد نے بتایا کہ ہم اوپن اکانومی کے معاملات کو سمجھتے ہیں اسی لیے کھانے کے ریٹ پر ہم نے کسی طرح کی قدغن نہیں لگائی لیکن اگر ہم ہوٹل کے ریٹس پر بھی سمجھوتہ کر لیں تو ہنزہ کو جلد ناران کاغان میں تبدیل ہوتے دیرنہیں لگے گی۔ آپ سوچیے کہ ناران میں ایک مڈل کلاس فیملی سیاحت کے لیے آتی ہے۔ فرض کریں اس کے پاس 20 سے 30 ہزار کا بجٹ ہے۔ ناران میں رش ہے اور کمرہ نہیں مل رہا۔ جو کمرہ ملتا ہے وہ سہولیات کے حساب سے 2 ہزار سے 3 ہزارکا ہے لیکن ہوٹل والا اس کو 20 ہزار کا بتا رہا ہے۔ وہ فیملی اپنے بچوں کو سردی میں ٹھٹھرتادیکھ کر شاید یہ رقم ان کے حوالے کرے اور دوسرے دن صبح واپس چلی جائے۔ بعد میں جب بھی وہ یاد کریں گے تو ان کے ذہن میں ناران کا کیا نقشہ آ ئے گا۔ ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہنزہ میں آنے والا کوئی مہمان ہنزہ کے حوالے سے منفی تاثر لے کر جائے۔ ہم نے زیادہ سے زیادہ ریٹ کا تعین ہوٹل والے کی سرمایہ کاری اور اور سرمایہ کاری کے واپس ہونے کی مدت کو سامنے رکھ کر کیا ہے۔ اس لیے ان ریٹس کے ساتھ ہوٹل والوں کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔

آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن نے سیاحوں اور مقامی لوگوں کو اس حوالے سے معلومات دینے کے لیے ہزاروں بروشرز چھپوائے اور تقسیم کیے۔ یہ بروشرز پولیس والوں کو بھی دیے گئے تا کہ ان کوبھی کوئی شکایت کرنا چاہے تو آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن کے ان اقدامات کو ان کو بھی علم ہو۔

آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری عالم صاحب نے بتا یا کہ ہمیں 2015 میں کچھ شکایات موصول ہوئیں اور ہم نے ازالہ بھی کیا لیکن کئی دفعہ پیچیدگی تب پیدا ہوتی ہے جب کوئی سیاح کسی ہوٹل کے مجوزہ ریٹ سے زیادہ ریٹ لینے کی شکایت تو کرتا ہے لیکن اس کے کوئی رسید کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ سیاحوں کو چاہیے کہ ہوٹل کا بل ادا کرتے وقت رسید ضرور لیں۔ اگر کسی ہوٹل کا ریٹ 3000 ہے تو وہ اس رقم سے کم وصول کر سکتا ہے لیکن زیادہ وصول نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی 4000 کی رقم لیتا ہے تو سیاح ہم سے بذریعہ فون رابطہ کر سکتے ہیں۔

(سیزن میں ہنزہ میں ایسے بورڈز لگائے جاتے ہیں جن پر مختلف ہوٹلز کے ریٹس کی معلومات لکھی ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی مشتہرکیا جاتاہے )

آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن سیزن میں رش کی صورت صفائی کے عمل میں بھی حصہ لیتی ہے اور علاقے میں کھلیوں ثقافتی و دیگر مثبت سرگرمیوں کو سپانسر بھی کرتی ہے۔

آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن پاکستان کے دیگر سیاحتی مراکز کے لیے بہت بڑی مثال ہے۔ مری اور ناران میں آئے دن بدمزگی کے واقعات سننے میں آتے رہتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر ناران اور مری میں انتہائی تلخ تجربات کا سامنا رہا۔ حتیٰ کہ جب بابو سر پاس کھلا بھی ہوتا ہے تو میری کوشش ہوتی کہ یہ راستہ اختیار نہ کروں بلکہ قراقرم ہائی وے سے ہی آتا جاتا رہوں۔ اس کی وجہ ناران کے ہوٹل والوں کا رویہ ہے جو یاداشتوں کا حصہ بن چکا ہے۔ سیاحوں کی تضحیک میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ اگر صبح کوئی سیاح پانی نہ آنے کی شکایت کرے تو ہوٹل والا اس کا گریبان پکڑتے وقت نہیں لیتا اور حیران کن منظر یہ ہوتا ہے کہ دس بارہ غنڈے ٹائپ لوگ ساتھ ہی دائیں بائیں سے اس کی مدد کو آ پہنچتے ہیں۔ تھپڑوں اور گالیوں سے سیاح کی درگت بنا دی جاتی ہے۔ تصور کیجئے کہ پہاڑ کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں اگر ان کے دامن میں درندے بستے ہوں جو بچوں اور خواتین کی بے بسی کو کیش کرتے ہوں تو میں ایسے علاقے میں ٹھہرنا تو دور کی بات گزرنا بھی پسند نہ کروں۔

ہنزہ اگر عالمی سطح پر جانا جاتا ہے تو اس کی وجہ فقط پہاڑ نہیں ہیں بلکہ یہ مقامی لوگوں کا رویہ ہے۔ میں اس کالم میں صرف ان واقعات کو گنوانا شروع کروں کہ جو میرے سامنے ہوئے اور ہنزہ کے باسیوں کی انسان دوستی کی سند ٹھہرے تو یہ کالم اس ضخامت کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔ سوچنا چاہیے کہ ہنزہ کے ہوٹل کیوں اپنے گھر جیسے لگتے ہیں؟ اس میں جہاں ہنزہ کے باسیوں کے رویوں کا عمل دخل ہے وہاں آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن جیسے اداروں کا قیام بھی ہے۔

آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن مختلف اوقات میں سیاحوں سے درخواست کرتی بھی نظر آتی ہے وہ اپنے ان رویوں پر غور کریں جو انہوں نے ناران اور مری جیسے سیاحتی مراکز سے سیکھے ہیں۔ یہ رویے یہاں نہیں چلیں گے۔ کچرا مت پھینکیں۔ شور نہ مچائیں۔ خواتین کا احترام کریں وغیرہ وغیرہ۔ تو دوسری طرف یہی ایسوسی ایشن مقامی لوگوں کو بھی یہ تربیت دیتی نظر آتی ہے کہ آپ مقامی سیاحوں سے فاصلہ پیدا نہ کریں۔ بالخصوص ایسے سیاحوں سے جو فیملی کے ساتھ نہیں ہوتے یعنی ’چھڑے‘ ہوتے ہیں۔ کیونکہ فیملی کے ساتھ سیاحوں کے ساتھ تو مقامی لوگ گھل مل جاتے ہیں گھروں میں لے جاتے اور خوف محسوس نہیں کرتے لیکن بغیر فیملی کے کسی سیاحوں کے ٹولے کو دیکھتے ہیں تو ایک خوف سا محسوس کرتے ہیں کہ یہ ضرور بد تمیز ہوں گے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ایسے لوگ جو بدتمیزی کا طوفان برپا کرتے ہیں بہت کم ہوتے ہیں لیکن باقی لوگوں کی بھی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن کے اس ’مڈل مین‘ کردار کو جتنا سراہا جائے کم ہے۔

ہنزہ میں ہوٹل ریٹس یا رویے کے حوالے سے کسی سیاح کو کوئی مسئلہ درپیش آئے تو ان نمبرز پر رابطہ کر سکتا ہے
علی مدد صدر آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن: 03449494224
عالم شاہ جنرل سیکرٹری آل ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن : 03465233792

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik