ہم سب چور ہیں!


سالوں سے، شب و روز، سفر و حضر، دفتر و گھر، سیاسی جلسے سے لے کے دعوت ولیمہ تک میرے کان یہ سُن سُن کر سُن ہو چکے ہیں کہ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو چند بڑے چوروں کو جیل میں ڈال دیں یا پھانسی پر لٹکا دیں اور اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لیئے مُملکت خُداداد پاکستان کے وزیر اعظم سے لے کر میرے محلے کے محمد وزیر و ملک اعظم تک چین کی مثال کھڑاک سے میرے سر میں مارتے ہیں جس سے میری رہی سہی قوت برداشت بھی جواب دے جاتی ہے۔ جب وزیر اعظم اور محمد وزیر و ملک اعظم سے سوال پوچھ لیں کہ جناب! کون سے چند بڑے چور؟ تو یقین جانیئے کہ وہ آپ کو حرف بہ حرف ایک جیسے چند سیاستدانوں کے نام گنوا دیں گے کہ اگر ان کو جیلوں میں ڈال دیں یا پھانسی لٹکا دیں تو حضور ملک میں راوی چین ہی چین لکھے گا دودھ، شہد تو ایک طرف آسمان سے ایک بار پھر من و سلویٰ اُتر آنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔

جناب! مان لیا کہ مذکورہ اشخاص کرپٹ ہوں گے، اُنھوں نے چوری کی ہوگی مگر میرا سوال ہے کہ کیا صرف وہی کرپٹ ہیں؟ کیا صرف سیاستدان ہی پھانسی کے مُستحق ہیں؟ کیا صرف پارلیمینٹ میں بیٹھنے والے ہی جیل جانے کے حقدار ہیں؟۔جب چند ریٹائرڈ تجزیہ نگار سیاستدانوں کو چور، ڈاکو، مافیا قرار دے رہے ہوتے ہیں اور اُن کے لیے عُمر قید یا پھانسی کی سزائیں تجویز کر رہے ہوتے ہیں تو میں بھی سوال کا حق رکھتا ہوں کہ کیا اُن کے ادارے کے لوگ 70سالوں سے ووٹ کی چوری میں ملوث نہیں؟ کیا عدلیہ میں ایسے جج نہیں جنہوں نے قانون کی بجائے انصاف کو ہی اندھا کردیا ہے؟ کیاسرکاری افسران رشوتیں وصول نہیں کر رہے؟ کیا قلم کار اپنے قلم کی دلالی نہیں کر رہے؟

کیا ڈاکٹر مریضوں کی جیبوں پر ڈاکہ نہیں ڈال رہا؟ کیا اُساتذہ اپنے فرائض سے پہلو تہی نہیں کر رہے؟ کیا دُکاندار ملاوٹ نہیں کر رہے؟ کیا مل مالکان کسانوں کا استحصال نہیں کر رہے؟ کیا ایک ٹھیلے والا زہر نہیں بیچ رہا؟ کیا رکشے والا مُسافر سے ناجائز کرایہ وصول نہیں کرتا؟ کیا پولیس افسران ماورائے عدالت قتل میں ملوث نہیں ہیں؟ کیا علمائے دین مذہب کی غلط تشریح میں ملوث نہیں؟۔ ان تمام سوالوں کے جواب میں وزیر اعظم اور محمد وزیر و ملک اعظم ایک کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہیں اور جواب یہ دیتے ہیں کہ تم صحیح کہ رہے ہو مگر کہیں سے تو شروعات کرنی ہے نہ ان چند بڑے چوروں پر ہاتھ ڈالیں گے تو آہستہ آہستہ سب کی باری آئے گی نا۔

جناب! مان لیا کہ کہیں سے شروع کرنا ہے، احتساب کسی سے تو شروع ہوگا مگر صرف ایک قبیلے کے لوگ کیوں؟ اُس قبیلے کے بھی صرف دو خاندانوں کے لوگ ہی کیوں؟ ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ ہر گروہ میں سے ایک ایک شخص سے شروعات کر لی جائے؟ نواز شریف کے ساتھ اگر پرویز مُشرف، افتخار چوہدری کی بھی جواب طلبی کی جائے تو کیا حرج ہے؟ اکیلا ملک ریاض ہی کٹہرے میں کھڑا کر لیا جائے تو جرنیلوں سے جرنلسٹ تک سب کے نام آشکار ہو جائیں گے۔
چند بڑے چوروں کے احتساب کا نعرہ لگانے والوں سے میرا سوال یہ بھی ہے یہ طے کیسے کیا جائے کہ بڑا چور کون ہے؟ عہدے کا ناجائز فائدہ اُٹھانے والا یا قومی دولت لوٹنے والا یا عوامی رائے پر ڈاکہ ڈالنے والا یا وہ صحافی جو سر عام حقائق کا قتل کرتا ہے یا مل مالک جو کسان کا حق مارتا ہے یاوہ کسان جو پانی چوری کرتا ہے یا وہ پولیس والا جو ٹھیلے والے سے بھتہ لیتا ہے یا ٹھیلے والا جو پھلوں کے نام پر زہر فروخت کر رہا ہے یا وہ دُکاندار جو ملاوٹ کرتا ہے یا وہ مولوی جس سے اللہ کے بندوں کا ایمان محفوظ نہیں۔

آخر کون طے کرے گا کہ کس کی داڑھی میں زیادہ تنکے ہیں جب سب کی آنکھوں میں ہی شہیتر ہیں، کون کس کا احتساب کرے گا جب سب کے حساب کتاب میں ہیرپھیر ہے، کون کس کو سنگسار کرے گا جب سب کے دامن سامنے سے چاک ہیں، کون کسی پر کیا اُنگلی اُٹھائے گا جب اُس کی باقی اُنگلیاں اُس ہی کی طرف اشارہ کرتی ہیں تو بہتر یہی کہ قوم کا ہر فرد ہر ادارہ اپنے گھر سے احتساب کا عمل شروع کرے تاکہ لوگوں میں نا انصافی اور بد نیتی کا تاثر جنم نہ لے اور اس چور چور کے نعرہ سے قوم کی بس ہو چُکی ہے۔ اندرون دل ہم سب جانتے ہیں بڑا چور کوئی بھی نہیں کیونکہ ہم سب ہی کسی نہ کسی حوالے سے چور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).