”منزلیں گرد کی مانند“ (خلیق ابراہیم خلیق) اک نظر میں


اردو زبان و ادب آج کل اپنی نومولودیت کے تقریباً تمام مراحل سے گزر چکا ہے۔ اس زبان کا اگر ساختی نظام دیکھا جائے تو محققین نے اس کا مادہ کئی زبانیں جیسے عربی، فارسی، ترکی اور پنجابی وغیرہ کو بتایا ہے۔ اردو کے الفاظ تقریباً انھی زبانوں سے مستعار ہیں۔ داستان تقریباً عربی و فارسی ادب سے لی گئی ہے۔ غزل بھی فارسی سے لی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ناول اور افسانہ وغیرہ اور جتنی بھی نئی اصناف ہیں۔ وہ کم و بیش انگریزی ادب سے لی گئیں ہیں۔ آپ بیتی بھی ایک جدید صنف ادب ہے۔ اور اس کو آ ج کل بہت زیادہ پسند کیا جا رہا ہے۔

آپ بیتی یا سوانح نگاری کا بانی اردو ادب میں سر سید احمد خان کے رفیق کار الطاف حسین حالی کو مانا جاتا ہے۔ مگر اس سے پہلے (ذکر میر) کے نام سے میرتقی میر بھی اپنے طور پر اپنی داستان لکھ چکے تھے۔ الطاف حسین حالی نے مرزا غالب کی یادگار غالب، حیات جاوید کے نام سے سر سید احمد خان کی زندگی پر اور اس کے علاوہ حیات سعدی کے نام سے شیخ سعدی کی سوانح لکھی۔

جدید اردو ادب نے قیام پاکستان کے بعد انگڑائی لی اور اسی میں نت نئے تجربات کیے گئے ہیں۔ ان میں نئی نئی تحریکوں کے، رحجان بھی واضح طور پر ہمیں نظر آتے ہیں آپ بیتی آج کل بہت زیادہ مقبول ہے۔ کیوں کہ اس میں مشہور ومعروف شخصیات اپنی زندگی کے حالات و واقعات سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد جن آپ بیتوں نے شہرت حاصل کی ان میں ”گرد راہ“ اختر حسین رائے پوری، شہاب نامہ، قدرت اللہ شہاب، اپنا گریبان چاک جاوید اقبال وغیرہ کی بہت مشہور ہو چکی ہیں۔

”منزلیں گرد کے مانند“ خلیق احمد خلیق کی آپ بیتی یا خود نوشت ہے۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعرہیں۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے لکھنو میں 1926 ؁ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ 1953 ؁ء میں وہ ستائیس برس کی عمر میں پاکستان آگئے اور اس کے بعد یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ ان کی یہ آپ بیتی، خود نوشت سے زیادہ ایک سرگزشت معلوم ہوتی ہے۔ اس کتاب کے اندر حالات و واقعات، اہم شخصیات کا تعارف، اہم شہروں کا تعارف، اردو زبان کے متعلق بعض موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں۔

ان کے علاوہ اردو ادب اورہندوستان کی بعض اہم تحریکوں کا تعارف اور ان کے بارے میں معلومات بھی اس کتاب میں مل جاتی ہیں۔ اگر ہم اس کتاب کو ایک فلم کا نام دیں تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ کیوں کہ اس میں 1880 ؁ء سے لے 1953 ؁ء تک کے عہد کے اہم لوگ، شاعر، ادیب نقاد تحریکیں، بغاوتیں تصویر ی شکل میں واضح طور پر ہمیں نظر آتی ہیں۔ اس لیے اگر اس خود نوشت کو یادوں کا ایک مرقع قرار دیں تو برُا نہ ہوگا۔

اس آپ بیتی کو کل 31 ابواب میں تقسیم کیا گیا ابتدائی پندرہ ابواب 1985 ؁ء سے لے کر 1987 ؁ء تک کراچی کے ماہنامہ ”افکار“ میں چھپتے رہے ہیں۔ جو کہ عمومی صورت حال سے لے کر لکنھو میں ترقی پسندوں کا حلقہ تک مکمل ہوجاتے ہیں اس کے علاوہ آگے کے 12 ابواب کراچی کے ایک اور رسالہ ارتقاء میں چھپے۔ اس کے باقی چار ابواب الگ الگ طور پر شائع ہونے والے ایڈیشنوں میں اضافہ کے بعد شائع ہوئے۔

ان ابواب کے مکالمے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف نے زیادہ تر اپنے حالات و واقعات سے لوگوں کو روشناس کروانے کی بجائے اردگرد کے واقعات کو چھیڑدیا ہے اور ایک طرح سے اپنے موضوع سے ہٹ گئے ہیں۔ مگر پھر بھی یہ ایک فائدہ مند کتاب ثابت ہوئی ہے۔ کیوں کہ اس میں اتنے لوگوں کے بارے میں معلومات ظاہر ہوئی ہیں۔ اور اہم اہم شہراور ان شہروں کے اندر رہنے والے لوگوں کے بارے میں کافی زیادہ ڈیٹا ہمارے پاس آجاتا ہے۔ مصنف نے اپنے اسلوب کے حوالے سے خاص قسم کی احتیاط برتی ہے۔ ان کا اسلوب ادبی کی بجائے علمی نظر آتا ہے۔

کیوں کہ وہ شہروں اور تحریکوں کی بہت زیادہ معلومات دیتے ہیں اور یوں ایک تاریخ نویس ظاہر ہونے لگ جاتے ہیں۔ ابتدائی ابواب میں وہ سرسید احمد اور تعلیم نسواں کے موضوع کے پر لکھتے ہیں۔

1860 ”؁ء کی دہائی میں سرسید احمد خان نے جدید مغربی علوم کی تعلیم کومسلمانوں میں عام کرنے کی غرض سے جس تحریک کا آغاز کیا تھا۔ قدامت پرستوں اور روایت پسندوں نے اس کی کافی مخالفت کی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک زور پکڑتی گئی اور 20 ویں صدی کے شروع ہوتے ہی مسلمان لڑکے اور لڑکیاں انگریزی تعلیم حاصل کرنے لگ گئے“ ۔ (صفحہ 40 )

لکنھو میں چونکہ عیش پرستی اور رنگین مزاجی عام تھی۔ اس لیے وہاں مذہب سے دوری ایک اہم محرک کی وجہ یہی باتیں تھیں۔ اگرچہ محرم کے ابتدائی دس ایام میں کافی زیادہ مذہبی جوش سے کام لیا جاتا تھا۔ یہاں اس آپ بیتی میں لکنھو میں مذہبی صورت حال پہ بھی بحث کی گئی ہے۔ جس کے مکالمے سے اس بات کی واقعی طور پر تصدیق ہوجاتی ہے۔ کہ لوگ اپنے مذہب سے کس قدر دور تھے۔ مگر حالات کے آگے وہ بھی جھک جاتے اور محرم کے دنوں میں مجالس عزاء، بیبیوں کا مجالس کا انعقاد کروانا اور امام باڑوں میں لوگوں کا غم حسین منانا کافی زیادہ باعث تبرک سمجھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ کئی اور مذہبی واقعات کی طرف بھی عکاسی کی گئی ہے۔ جن میں شہید انسانیت، شیعہ سنی تعلقات، اہل حدیث والوں کا رویہ، علامہ شبلی نعمانی کا کرداربھی سامنے آیا ہے۔ یہاں پر ایک غیر جانبدار محقق کے طور پر خلیق انجم خلیق سامنے آتے ہیں۔

آگے چلتے ہیں تو ہمیں قدیم علوم کے بارے میں کافی معلومات ملتی ہیں جن میں طب خاص طور پر یونانی طب کے بارے میں مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ لکھتے ہیں۔

”حکیم اجمل خان کی قائم کردہ آل انڈیا ویدک اینڈ یونانی طبی کانفرنس کا ابتدائی اجلاس 1910 ؁ء میں دہلی اور 1911 ؁ء میں انتہائی مخالفتوں کے وجود لکنھو میں ہوا۔ اور کافی زیادہ کامیاب بھی“ ۔ (صفحہ 85 )

یہاں تک وہ ایک واقعہ نگار کی حیثیت سے موجود ہیں اور اپنے اسلوب بیان پر کوئی زور نہیں دیتے ہیں ان کا اسلوب کافی زیادہ روکھا اورخشک معلوم ہونے لگتا ہے اصل میں یہ ان کا کوئی قصور نہیں ہے کیوں کہ وہ اصلیت کو بیان کر رہے ہیں اور حقیقت نگاری میں وہ اس قدر بناوٹ سے کام لیتے اور ادب کی تحریکیں اور اس کے علاوہ ہندوستان کے اندر پنپنے والی دوسری تحریکوں پر بھی بات ہوتی ہے اور اس بار ے میں وہ ایک غیر جانبدار محقق کے طور پر اپنے مشاہدات اور حقائق کی روشنی میں واقعات بیان کرتے ہوتے نظر آتے ہیں تحریک خلافت کے بارے میں بھی وہ حقائق بیان کرتے اور اس میں گاندھی کے کردار اور پھر ان کا ایک دم سے یو ٹرن لینے کا بھی واضح طور پر ذکرکرتے ہیں۔

گاندھی جی مسلمانوں کے اس تحریک میں کردار سے اور ان کے جوش و جذبہ سے ڈر گئے اور دوسرا ان کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ اگر اس تحریک کے نتیجے میں برصغیر نے آزادی حاصل کر لی تو مسلمانوں کو ان کے تناسب سے زیادہ نشستیں دینی پڑیں گی دوسرا وہ عوامی طاقت سے بھی خوف زدہ ہو گئے اور تحریک کے خاتمے کا اعلان کر دیا اس فیصلے سے مسلمانوں کے ساتھ گاندھی کی عیاری کھل کر سامنے آگئی نہرو نے بھی جیل میں یہ کہا کہ بنیے نے آخر دھوتی کھول ہی دی۔ (صفحہ 80۔ 81)

کتاب کے اگر اہم ترین حصوں کا مطالعہ کیا جائے تو ساری کتاب ہی اہم ہے۔ اور حقائق سے بھر پور ہے۔ اگر اس کتاب میں جو شہروں کے تذکرے کیے گئے ہیں وہ کمال کے ہیں۔ اردو ادب میں آج تک میں نے شہروں کے بارے میں اور ان کے اندر لینے والی شخصیات اہم مقامات اور ادیبوں کا اتنا بھر پور تذکرہ پہلے نہیں پڑھا۔ اس کتاب میں لکنھو، اجمیر، لاہور، الہ آباد، دہلی اور بمبئی کا ذکر آیا ہے۔ اور اس کے علاوہ ان شہروں میں اہم شعراء اور ادیبوں پر بھی خاصی اچھی گفتگو کی گئی ہے۔

اس لیے یہ کتاب ایک مستند حیثیت کی حامل ہے۔ لکنھو کا ذکر ابتدائی ابواب میں بھی آچکا ہے۔ مگر اس کے علاوہ الگ باب میں بھی اس کا اضافی ذکر کیا گیا ہے۔ اجمیر میں بھی مصنف نے اپنی ذاتی زندگی کے اس شہر میں حاصل ہونے والے تجربات کی روشنی میں قلم کو اٹھایا ہے۔ اور وہ بعض اوقات یہاں پر واقعات اور تاثرات کو بیان کرتے ہوئے کافی گہرائی میں چلے جاتے ہیں۔ اور ان کا اسلوب قدر ے بوجھل معلوم ہوتا ہے۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے خواجہ سید عبدالرؤف کو برص یعنی سفید داغوں کی بیماری ہوگئی تھی۔ اور اسی کے علاج کے لیے انہوں نے میرے والد کو بلایا تھا۔ ٹاڈگڑھ میں ہم تقریباً ایک ہفتے ان کے مہمان رہے۔ ان کے دفتری عملے میں ادھیڑ عمر کے ایک شخص چودھدی فتح محمد تھے۔ جو انہیں کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ پنجاب کے رہنے والے تھے ( 460۔ 461 ) ”۔

ان کا ایک واقعہ کو حد سے زیادہ تفصیل سے بیان کرنا واقعی ان کے فن کو کافی زیادہ بوجھل بنانا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے دوسرے شہروں کے واقعات میں زیادہ تر شعراء اور ادیبوں سے پالا پڑتا ہے۔ اور ان میں سے اکثر نام میرے ذہن میں نہیں ہیں یا میں خود ان سے واقف نہیں ہوں۔ کیونکہ ابھی تک میرا مطالعہ ان کے بارے میں کافی محدود سطح پر ہے۔ ان ابواب کے مطالعہ کے دوران قاری کافی بوُریت کا شکار ہو جاتا ہے۔ الہ آباد کے مطالعے کے دوران فراق گورکھپوری سامنے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر اعجاز حسین بھی متعارف ہوتے ہیں۔

فراق گورکھپوری کا کافی لمبا چوڑا ذکر ہے اس میں ان کے فن شاعری پر کافی زیادہ بحث کی گئی ہے۔ نمونہ کے اشعار بھی دیے گئے ہیں۔ اس لیے ان کے ان اشعار کی روشنی میں ان کے فن کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ ان کا ایک شعر دیکھیں۔

زندگی کیا ہے آج اسے اے دوست
سوچ لیں اور اُداس ہوجائیں

فراق کے تعارف اور فن پہ بات کرتے ہوئے وہ واقعی محقق قسم کے آدمی نظر آتے ہیں۔ اور ان میں ہمیں کافی معلومات نظر آتی ہے۔ یہ فراق کی شاعری کے پہ ایک قسم کا تحقیقی مضمون لگتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ لاہور شہر کے بارے میں بیان کرتے ہیں اور لاہور شہر کا ذکر وہ فارسی زبان کے ایک شہر سے کرتے ہیں۔

لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم
جاں دادا ایم وجنت دیگر خریدہ ایم

لاہور کا ابتدائی تعارف اور اس کا تاریخی پس منظر وہ مکمل دلائل کے ساتھ دیتے ہیں۔ اور پھر وہ اردو زبان کی ترقی میں لاہور کے کردار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اس شہر سے نکلنے والے رسائل اور جرائد سے بھی ایک قاری کو واقف کرواتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اس کے بعد وہ اپنے عہد میں واپس آجاتے ہیں اور تقسیم کے بعد کے لاہور میں رہنے والے ادیبوں کا تعارف کرواتے ہیں۔ یہاں پر انداز مختصر ہوتا ہے۔ یہاں وہ امتیاز علی تاج، احمد ندیم قاسمی، نذر محمد ارشد، کا ذکر کرتے ہیں اور ن، م راشد کے خطوط کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ اقبال کا ذکر بھی اس باب میں آیا ہے اور علامہ محمد اقبال کے خطوط کا بھی ذکر بھی موجود ہے۔

لاہور کے علاوہ وہ بمبئی کا تعارف اور لاہور کی طرز پر وہاں کے اہم اداروں اور لوگوں کا تعارف اپنے انداز میں کرواتے ہیں۔ اور اس حوالے سے ان کا انداز وہی مختصر ہوتا ہے۔ اور وہ یہاں پر مکمل طور پر وہ ایک فلمی منظر پیش کرتے ہیں۔ فلمی لوگوں کی باتیں اور ان کے اندرموجود صفات، بمبئی کے شب وروز کا ذکر، خاص انداز میں، ۔

نواب سن تیس کی دہائی میں کلکتہ کی فلم ”یہودی کی لڑکی“ میں بوڑھے یہودی کا کردار کر کے کیریکٹر کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا چکے تھے، مشکل کرداروں کی ادائیگی میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ان کے چہرے کی کیفیات کے فطری اتار چڑھاؤ اور ان کی ایک ایک جسمانی حرکت، اشارہ بلا کا معنی خیز ہوتا تھا۔ محن کمار پہلے ہیرو اور پھر بعد میں کیریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے صف اول کے اداکاروں میں شمار کیے جاتے تھے ” ( 655 صفحہ نمبر)

محن کمار کے علاوہ وجاہت مرزا چنگیزی کا ذکر بھی انہوں نے خاص انداز میں کیا۔ اور ان کے ابتدائی زندگی سے لے کر ان کے فلمی کیرئیر کے اختتام تک تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کا انداز واقعتاً ایک حقیقت نگار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس لیے شاید ان کا بیان کرنے کا انداز خشک اور روکھا سا ہے۔ دوسرے مصنفین کی طرح سے نظر نہیں آتا ہے۔ لیکن آپ بیتی میں اس طرح کے اسلوب کی کافی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).