پیالہ ناف سے مرا جام سفال اچھا ہے


\"Mکچھ لوگوں کو میڈیا سے شدید حد تک پیار ہوتا ہے چاہے ان کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر یا مسلک سے ہو، ایسے میں ان کی انتخاب کی بھی داد دینی پڑے گی کیونکہ وہ اگر کسی کو اپنے ساتھ خبروں میں منسلک کرنے کے لئے منتخب بھی کرتے ہیں تو بقول حضرت جون ایلیا کہ لباس مفلسی سے دور رہتے ہیں کیونکہ لباس مفلسی میں تو بندہ بے قیمت نظر آتا ہے اور جاذبیت دولت و شہرت کی پروردہ ہے۔

جو رعنائی نگاہوں کے لئے فردوسِ جلوہ ہے
لباسِ مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی
یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ
یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بدصورت نظر آتی صحافیوں دوستوں سے معذرت کے ساتھ لیکن پاکستانی میڈیا میں آج کل یہی سب کچھ نظر آرہا ہے۔ کہیں اگر دو بندے ایک بھوکے کو کھانا کھلا رہے ہیں تو یہ کسی کے لئے بھی خبر نہیں لیکن اگر ایک مولانا کسی جانی مانی شخصیت سے ملنے جاتے ہیں یا اسے بلاتے ہیں تو وہ ٹاپ ہیڈلائن تصور کی جاتی ہے۔ اتنا امتیازی سلوک کیوں؟

گذشتہ دنوں یہی امتیازی سلوک کچھ زیادہ ہی نظر آرہا ہے کہ ایک طرف شیرانی صاحب کے ہلکے پھلکے تشدد کے چرچے تو دوسری جانب مفتی صاحب اور قندیل بیگم کا ذکر۔ دونوں کو میڈیا میں خاصی پذیرائی ملی جس پہ دونوں دل ہی دل میں خاصے خوش ہوچکے ہوں گے۔ کیا یہی صحافت ہے؟ کیا اخلاقی طور پر کسی بھی زاویہ سے کوئی جواز بتاسکتا ہے کہ کیوں تمام نیشنل میڈیا نے ایک ویڈیو کو اتنا اچھالا جس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اگر کسی چیز کو ختم کرنی ہو تو اس کی تشہیر بند کرو۔ اگر اس ویڈیو کی تشہیر نہ ہوئی ہوتی تو نہ تو مفتی عبدالقوی جیسے لوگ علماء کے نام پر دھبا بنتے اور نہ ہی ایک غیرمعروف و مشکوک لڑکی لوگوں کے ذہنوں پر سوار ہوتی۔

ہم یہ سب کچھ کیوں کررہے ہیں؟ صرف ریٹنگ کے لئے یا  اپنے دیکھنے والوں کو \”ایکسکلیوسیوز\” کے چسکے سے فراغت نہ دینے کی خاطر۔ کیا پاکستان میں دوسرے مسائل ختم ہوگئے کہ کئی دنوں تک میڈیا پر مفتی صاحب اور قندیل کا راج رہا۔ آج کوئی ان کو یاد نہیں کررہا اسی لئے تو  قندیل بلوچ بیگم نے لاہور پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کروائی اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ جناب وزیرداخلہ صاحب ان کو سیکیورٹی فراہم کریں۔ ایک طرف تو سندھ حکومت فنکاروں کے اسی مطالبے کو مذاق سمجھ کر ٹھال رہی ہے جبکہ دوسری جانب ایک نہایت ہی مستند صحافتی ادارہ اس قندیل بلوچ بیگم کی پریس کانفرنس کے پورے \”11منٹ\” اپنی ویب سائٹ پر شائع کرتی ہے۔

ذرا سوچئیے شمالی و جنوبی وزیرستان کے بے گھر لوگ گذشتہ دو سالوں سے اپنے ہی ملک میں مہاجرین کی سی زندگی بسر کررہے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں اور نہ ہی کوئی میڈیا چینل وہاں جا کر ان سے پوچھنا گوارا کرتا ہے کہ ان کی زندگی کیسی گزررہی ہے ؟ رمضان کیسے چل رہا ہے، گذشتہ دو سالوں میں انہوں نے کیا کچھ دیکھا، کیا کچھ محسوس کیا اور کیا کچھ سیکھا؟ کیا وہ اس وطن کے باشندے نہیں؟ کیا ان کا ان میڈیا چینلوں پر کوئی حق نہیں کہ ٹاپ ہیڈلائن نہ سہی پورے بلیٹن میں کچھ منٹ ان کو دئیے جاسکیں؟ شاید کچھ مجبوریاں بھی ہوں گی کیونکہ ان کو جن لوگوں نے بے گھر کیا ہوا ہے ان کے سامنے کوئی کچھ بول بھی نہیں سکتا اور شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ جہاں وہ رہ رہے ہیں وہاں راج کسی اور کا ہے۔

ایسا کیوں ہورہا ہے؟ جواب انتہائی سادہ اور آسان ہے اور وہ یہ کہ نہ تو وہ مفتی عبدالقوی اور قندیل بلوچ جیسے ویڈیو بناتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی بڑے لیڈر کے ساتھ ملنے کے بعد کی تصاویر شائع کرتے ہیں، وہ عام لوگ ہیں اور عام غریب لوگوں جیسی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں غریب لوگوں کا کوئی حق ہی نہیں، ان کو نہ تو جینے کا حق دیا جارہا ہے اور نہ ان کے حالات کے بارے میں کوئی جانچنے کی کوشش کررہا ہے۔ شاید  یہاں ہر کسی کو پیالہ ناف مبارک کی تلاش ہے اور اسی کی وجہ سے چینلوں کی رینٹنگ بہتر ہورہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments