میاں خوجی فحاشی پکڑتے ہیں


(فسانہ آزاد کا تحریف شدہ جدید ایڈیشن)

خواجہ بدیع الزماں کے نام سے تو آپ خوب واقف ہیں۔ بے تکلف دوست اور راہ چلتے انہیں خوجی کے نام سے پکارتے ہیں۔ ٹینی مرغے کے برابر قد پایا ہے، عمر ساٹھ سے کچھ اوپر ہے۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار کے زمانے میں تو خود کو دگلے والی پلٹن کا کمیدان (کپتان) بتاتے تھے اور اسی کمیدانی کے زعم میں رستم سے بھی بھڑ جاتے تھے۔ ایسے ہی ایک معرکے کے بعد جب ایک لونڈی نے ان کو کہا کہ \’واہ میاں گئے تھے پیٹنے اور الٹے پٹ کر آئے۔ اتنی پڑیں بے بھاؤ کی کہ کھوپڑی گنجی ہو گئی۔ چاند پر ایک بال تک نظر نہیں آتا\’، تو خوجی خوب جھلائے اور آگ بھبھوکا ہو کر کہنے لگے کہ \’چپ رہ! تو ہمیں کیا جانے کھوپڑی گنجی کیسی۔ یہ گنجی کھوپڑی کے کیا معنی؟ آخر تو نے یہ کیا کہا؟ ہماری کھوپڑی پر بال تھے ہی کب؟ یہاں پیدائشی ہی ایسے بال ہیں اور صاف چاند تو اقبال مندوں کی نشانی ہے\’۔ اس نے قہقہہ اڑا کر کہا کہ \’اب ہٹو بھی آئے وہاں سے بڑے اقبال مند ہو کر۔ واہ کیا اقبال ہے۔ صورت سے تو پھٹکار برستی ہے، اقبال والے بنے ہیں\’۔ خوجی دانت پیس کر رہ گئے اور بولے کہ \’بس اب چلی جاؤ۔ نہ ہوئی جوانی ورنہ کھود کر اسی جگہ دفنا دیتا\’۔

ایک مرتبہ میاں آزاد اور خوجی سفر کر رہے تھے۔ میاں آزاد اپنے ترکی گھوڑے پر سوار تھے اور خوجی میاں اپنی مریل سی ٹٹوی پر شاہسواری کے جوہر دکھا رہے تھے۔ میاں خوجی ارہر کے کھیت میں گئے اور ٹٹو کو راہ خدا پر چھوڑ دیا کہ جہاں جی چاہے آزادی سے چرے۔ ٹٹوی دیکھنے میں تو دبلی پتلی تھی، صورت حرام، مگر انتہا کی شریر۔ یہ تو ارہر کے کھیت میں ہو رہے، وہ سیدھی چل کے گندم کے کھیت میں پہنچی اور لگی چرنے۔

اتنے میں کسان نے جو دیکھا تو لٹھ لے کر دوڑا اور لگا برا بھلا کہنے۔ اس کی جورو (بیوی) بھی چمک کر لپکی اور کوسنا شروع کیا کہ پلویا (گھوڑی) مر جائے، پلویا کے کیڑے پڑِیں، ابھی ابھی پیٹ پھٹے۔ ڈارھی جارکی لہاس (لاش) نکلے۔ میاں خوجی جو باہر نکلے تو دیکھا کہ ٹٹوی بھاگی جاتی ہے اور پیچھے پیچھے کسان کی جورو غل مچاتی ہے اور کسان لٹھ لیے چلا آتا ہے۔ اس نے لٹھ جمایا، پھر تان کر دوسرا دیا اور تیسرا چکھانے کو ہی تھا کہ میاں خوجی نے للکارا۔

او گیدی، ابے او گیدی! خبردار اس حرکتِ ناشائستہ سے باز آ۔ ورنہ قرقدان پر ایک بال باقی نہ رہے گا اور ضربت پاپوش سے بوکھلا جائے گا۔ وہ گنوار بلکہ گنوار کا لٹھ۔ عربی ترکی تو پڑھا نہ تھا، اس پر جھلا کر جھپٹ پڑا اور اتنے لٹھ رسید کیے کہ ٹٹوے کے پنہتر بگڑ گئے۔

میاں خوجی میں ایک وصف تھا کہ بے سوچے سمجھے، بے دیکھے بھالے، لڑ پڑتے تھے۔ چاہے اپنے سے دوگنا چوگنا ہو، یہ چمٹ ہی جائیں گے۔ غصہ کی یہ خاصیت ہے کہ جب آتا ہے کمزور پر مگر میاں خوجی کا غصہ بھی نرالا تھا۔ ان کو جب غصہ آتا تو شہ زور پر۔ جو ان کو پھینکے تو اٹھارہ لڑھکنیاں کھائیں۔

دوسرا وصف یہ تھا کہ پٹ پٹا کر، جھاڑ پونچھ کر اٹھ کھرے ہوتے تھے مگر ممکن کیا کہ ذرا اف کریں۔ وہی تیور وہی خم و دم۔ کسان نے اتنی بڑی گستاخی ان کے حضور میں کی کہ ان کی ٹٹوی کو ان کے سامنے اتنا مارا کہ اس کا بھرکس ہی نکل گیا۔ پھر بھلا ان کو تاب کجا۔ آفتابہ پھینکا اور تڑ سے دوڑ کر کستان سے گتھ گئے۔ وہ گنوار آدمی اور انتہا کا کرارا، یہ منحنی دبلے پتلے مہین آدمی، ہوا کے جھونکے میں اڑ جائیں۔ اس نے ان کی گردن دبوچی اور گد سے زمین پر پھینکا۔ پھر جھپٹنے کی کوشش کی تو کسان کی جورو ان سے چمٹ گئی اور لگی ہاتھا پائی ہونے۔

اس نے ایک گھونسا جمایا اور ان کے پٹے پکڑ کر پھینکا تو چاروں شانے چت۔ دو تھپڑ رسید کیے، ایک ادھر اور ایک ادھر۔ کسان کھڑا ہنس رہا ہے کہ میری جورو سے جیت پاوت ناہیں، یو مسٹنڈوں سے کا لڑے، لے بھلا۔

کسان کی جورو تو تو ٹھونک ٹھانک، اور پیٹ پاٹ کر چل دی، آپ نے پکارنا شروع کر دیا۔ قسم بابا جان کی جو کہیں قرولی پاس ہوتی تو ان دونوں کی لاش اس وقت پھڑکتی ہوتی۔ وہ تو کہیے خدا کو اچھا کرنا منظور تھا کہ میں اپنے زعم میں آپ نیچے آ رہا ورنہ اتنی قرولیاں بھونکتا کہ عمر بھر یاد کرتے۔ ہات ترے کی۔ نابکار لعین۔ کھڑا تو رہ او گیدی دوزخی۔

اس پر گاؤں والوں نے خوب قہقہہ اڑایا اور اتنا بنایا کہ میاں خوجی سب کو گالیاں دینے لگے۔ او گیدی تم سب پر میں بھاری ہوں، پرے کے پرے صاف کر دوں، وہ تو کہیے قرولی نہ ہوئی۔ ایک نے پوچھا کیوں میاں صاحب، قرولی ہوتی تو کیا بھونک کر مر جاتے، یا اپنے پیٹ میں لگاتے، آخر نتیجہ کیا ہوتا؟ کیوں ایک رانڈ سے مار کھائی؟

میاں خوجی بھبھوکا ہوئے اور کہنے لگے، وہ تو میں نیچے گرا تو ڈیڑھ لمحے میں ہی اس رانڈ (بیوہ) کی پانچ جسمانی حرکات دیکھ لیں اور حیا سے اپنا منہ چھپا لیا تو اس نے ہمیں ایسے دھویا جیسے دھوبی ڈنڈے سے کپڑا دھوتے ہیں۔  وہ ڈیڑھ سیکنڈ تو ذہن پر نقش ہو گیا ہے۔ تم بے غیرت مردوے ہو۔ خود کھیت میں کام کرتے ہو تو اپنی لگائیوں (بیویوں) کو بھی ساتھ لے آتے ہو۔ شرم حیا والے ہوتے تو ان کو گھر بٹھاتے۔ اجی اسی پر بس نہیں، اس پر ان کو برقعے میں ملفوف کرنے کی بجائے دوپٹہ سر پر باندھ کے لیے پھرتے ہو۔ ایسی فحاشی نظر آ رہی تو اسے برا جان کر شریف آدمی کو ایسی بے شرم رانڈ سے جوتے کھانا واجب ہے کہ چاہے جتنے کھائے مگر اف نہ کرے۔ بڑے کہہ گئے ہیں کہ آم کے آم، گٹھلیوں کے دام۔ ہم نے تو یہ فحاشی اتنے قریب سے دیکھی تو بخدا کئی مرتبہ ہاتھ اٹھایا مر پھر حوصلہ نہ ہوا۔

میاں تم بے حیا ہو، ایسی آوارگی میں پڑے رہو۔ ہم تو بس ایسی رانڈ دیکھ کر وہیں ڈھیر ہو جائیں گے اور اس سے خوب جوتے کھائیں گے۔

میاں آزاد کوئی دو گولی کے پٹے پر نکلگ گئے تھے۔ جب خوجی کو ساتھ نہ دیکھا تو حیرت ہوئی کہ ایں! یہ کہاں رہ گئے بھئی، ایک مسافر سے پوچھا کہ کیوں جی، پیچھے کوئِ شخص ٹٹو پر سوار آتا دیکھا؟ اس نے کہا جی ہاں، ایک کسان سے لڑائی ہو رہی تھی اور اس کی جورو نے ان کو خوب مارا۔ اب وہ کھیت میں پڑے قرولی ڈھونڈ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرولی ہوتی تو مار ہی ڈالتا۔

آزاد میاں نے گھوڑی پھیری اور دم کے دم میں ہوا ہو گئے تو کھٹ سے کھیت میں داخل۔ آزاد نے پوچھا ارے میاں خوجی، خیریت تو ہے؟ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ یہ یہاں کھیت میں پڑے رہنے کا سبب کیا؟ چلو اٹھو گرد جھاڑو، آخر کب تک پڑے رہے گے بھلا۔

میاں خوجی کہنے لگے کہ قرولی نہ ہوئی پاس، ورنہ اس وقت دو لاشیں یہاں پھڑکتی ہوئی دیکھتے۔

آزاد نے کہا کہ اجی وہ تو جب دیکھتے تب دیکھتے، اس وقت تو تمہاری بوتھی دیکھ رہے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments