طالبان کابل پر قبضے کے لیے تیاری کر چکے ہیں


 

افغانستان کے وار تھیٹر میں وہی منظر دہرایا جا رہا ہے، جو کامل 30 برس 8 ماہ قبل اسی سٹیج پر کھیلا گیا تھا۔ اپریل 1988 میں سوویت یونین نے اعلان کیا کہ ”وہ ہر حال میں اس سال کے آخر تک افغانستان سے نکل جائے گا“۔ اس کے انخلا کو سہولت فراہم کرنے کی خاطر معاہدہ جنیوا تخلیق ہوا، جس کی کوکھ سے افغانستان میں کبھی نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی نے جنم لیا۔

منظر وہی ہے، کردار بھی وہی مگر ان کی جگہ بدل چکی ہے، سوویت یونین کی جگہ امریکہ ہے۔ پاکستان کی اس وقت بھی کوشش تھی کہ انتقال اقتدار کے بغیر سوویت یونین کو نکلنے کہ نہ دیا جائے، مگر اس وقت کی سول حکومت سے اپنی آزادی کا استعمال کیا اور امریکہ کی مرضی کے مطابق اقتدار کا فیصلہ کیے بغیر جارح قوت کو نکلنے کا راستہ فراہم کردیا گیا۔

صورتحال آج پھر وہی ہے، امریکہ نے اعلان تو نہیں کیا مگرجنوری 2018 سے ہی انٹیلی جنس حلقوں میں یہ خبر کنفرم ہوچکی تھی کہ امریکہ رسہ تڑواکر بھاگنے والی گائے کی طرح کسی بھی وقت نکل بھاگے گا۔

اسلام آباد میں ہونے والی چارملکی انٹیلی جنس سمٹ کانفرنسیں، اسلام آباد اور ماسکومیں پے در پے اجلاس، ملاقاتیں، انٹیلی جنس حکام کے دورے اسی سلسلہ کی کڑی تھے، پاکستان اپنی اسی پوزیشن پر ہے مگر نسبتاً بہتر بندوبست کے ساتھ، تاکہ امریکہ اپنا پھیلایا گند سمیٹ کر جائے، پہلے کی طرح ہمیں نہ بھگتنا پڑے۔

نہ صرف یہ کہ اسلام آباد میں کوئی جونیجو موجود نہیں بلکہ پاکستان تنہا بھی نہیں، چین، روس، ترکی، سعودی عرب اور ایک حد تک ہی سہی ایران بھی اس کے ساتھ ہے۔ بھارت اپنی بھاری انویسٹمنٹ کے باوجود اسی طرح اجنبی ہے جیسے وہ تیس برس پہلے تھا۔

سوال یہ ہے کہ جب امریکیوں کے نکلنے کا فیصلہ ہوچکا تو مذاکرات کیوں؟ حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات صرف یہ فیصلہ کریں گے کہ اس بار جنگ پہلے کی طرح لامحدود خانہ جنگی میں بدلے گی یا پر امن انتقال اقتدار کا کوئی فارمولا طے پائے گا، جس کی طالبان نے تجویز دی ہے اور بظاہر اپنے سخت گیر موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے عبوری حکومت میں اپنی شمولیت کا عندیہ دیا ہے۔

پاکستان اور اس کے اتحادیبھی اسی کے حق میں دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن امریکی دلچسپی صرف اس میں ہے کہ انہیں فیس سیونگ مل جائے اور وہ بھاگ نکلیں، بلکہ حقیقت اس سے بھی سفاک ہے کہ وہ اسی طرح جانے کے آرزو مند ہیں جس طرح سوویت یونین نکلا تھا، یعنی خانہ جنگی کی بنیاد رکھ کر۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ 1988 میں جہادی گروپ زیادہ تعداد میں تھے اس لئے خانہ جنگی ہوئی، اس بار دعوے دار صرف طالبان ہیں تو خانہ جنگی کا مکان نہیں، تو یہ تجزیہ لاعلمی پر مشتمل ہے کیونکہ اس بار خانہ جنگی کا خطرہ پہلے سے بھی فزوں تر ہے۔

صرف اپریل 2019 تک کا وقت باقی ہے۔ طالبان ذرائع سے دستیاب معلومات کے مطابق مذاکرات کامیاب ہوں یا ناکام طالبان اپریل کے فوراً بعد کابل پر قبضہ کی جنگ کے لئے تیاریاں کر رہے ہیں، طالبان جنگی شوریٰ کے ایک اہم رکن نے بتایاہے کہ انہیں اس بات کا پوری طرح سے احساس ہے کہ کابل انہیں لڑے بغیر نہیں ملے گا اس لئے وہ اپنی پوری تیاری کیے ہوئے ہیں۔

کابل کو چہار جانب سے گھیرا جا چکا ہے۔ شہر کے گرد ایک دائرے کی شکل میں 10 مقامات پر بھاری اسلحہ اور افرادی قوت کو جمع کیا جارہا ہے۔ راز داری اور خاموشی کے ساتھ ہونے والی تمام تیاری کا مقصد یہ ہے کہ موسم بہار کے آغاز کے ساتھ ہی طالبان اپنے شیڈول کے مطابق فیصلہ کن جنگ کا آغاز کردیں گے۔

دارالحکومت کے اندر اہم سرکاری عہدیداروں میں بھی طالبان کے وفادار تلاش کر نے کا کام جاری ہے۔ طالبان کے ایک ذریعہ کا دعویٰ ہے کہ وہ اس حد تک تیاری کرچکے ہیں کہ سرکاری فوج اور دیگر مسلح اداروں کے افسران کی بڑی تعداد حملہ ہوتے ہی ان کے ساتھ آن ملے گی۔

لیکن اس کے باوجو د وہ جانتے ہیں کہ انہیں ایک بڑی جنگ لڑنا پڑے گی، کیونکہ سرکاری فوج کے علاوہ بھی عوامل موجود ہیں جو کابل پر طالبان کی یلغار کے خلاف مزاحمت کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

افغانستان کے سابق گوریلا لیڈر احمد شاہ مسعود کا چھوٹا بھائی احمد ولی مسعود اور احمد شاہ مسعود کا بیٹا احمد مسعود کابل پر طالبان کے خطرے کو بھانپتے ہوئے، مزاحمت کی تیاری کر چکے ہیں، احمد مسعود، برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈمی سینڈھرسٹ کا گریجویٹ اور مسعود فاؤنڈیشن کا سی ای او ہے۔

امسال ستمبر میں احمد شاہ مسعود کی برسی پر انہوں نے اپنے مسلح دستوں کی مدد سے کابل شہر پر قبضہ کی ریہرسل بھی کی، پورا دن ہزاروں کی تعداد میں گولیاں فائر کی گئیں، جنگی ترتیب کے ساتھ رستے بند کیے گئے، اہم عمارتوں کا گھیراؤ کیا گیا۔ کابل میں احمد شاہ مسعود کے پرانے ساتھی اور اس وقت حکومت کے سیکیورٹی سیٹ اپ میں اہم ذمہ دار عطا ء الرحمٰن نے تسلیم کیا کہ ماضی کی شورائے نظار کی قیادت مسعود کے بیٹے نے سنبھال لی ہے۔

پورے شہر میں اپنے حامیوں کو مسلح کیا ہے، انہیں منظم کرکے سرکاری بندوبست میں اسلحہ جمع کرنے کے ساتھ ساتھ باہر سے ازبک اور تاجک وفاداروں کو بھی شہر میں لانے کا کام جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کابل میں ان کے اتنے لوگ مسلح اور تیار حالت میں موجود ہیں کہ طالبان کے حملہ کا دفاع بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ یعنی کابل ایک نئی خونریزی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

رشید دوستم بھی مستقبل کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنی ملیشیا کو تیار کر چکے لیکن وہ پہلے ہی بلخ میں استاد عطا سے الجھے ہوئے ہیں۔ ورنہ ان دونوں کا اتحاد ایک بار پھر طالبان کو شمال سے باہر روک سکتا تھا، مگر ایک طرف ان کی لڑائی، دوسری جانب روس کے ساتھ دوستی کے سبب طالبان کو شاید زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی لیکن خون ریزی کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح کا ایک خطرہ اربکی ملیشیاز بھی ہیں۔

قندھار سے جلال آباد تک پشتون دیہاتیوں پر مشتمل یہ جتھے بہت زیادہ طاقتور تو نہیں، لیکن نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتے، امریکی سرکاری ادارہ ”سگار“ ان کے جرائم اور سفاک کارروائیوں پر بار بار تنقید کرچکا ہے۔

القاعدہ کی جگہ لینے والی غیرملکی قوت داعش بھی مستقبل میں امن کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ جوزنجان، بدخشان، ہلمند، بلخ، مرجا، اور ننگر ہار میں ان کے بڑے مراکز موجود ہیں، اور کچھ اضلاع پر ان کا مکمل قبضہ بھی، وارداتیں قریبا ً 14 صوبوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔

یہاں داعش دو طرح کی ہے۔ جوزنجان میں طالبان سے بغاوت کرنے والا گروپ بھی خود کو داعش کہلاتا ہے۔ کش ٹپہ، درزاب، سار درہ، خاناما، سگ مار، چکما چکراور بی بی مریم نامی علاقوں میں موجود ہے۔ قاری حکمت اللہ کے مارے جانے کے باوجود یہ گروپ اسی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

الزام تو یہ بھی ہے کہ طالبان سے الگ ہونے کے بعد انہیں کابل حکومت کی سرپرستی حاصل ہے، ستمبر 2018 میں طالبان کے ساتھ شدید جنگ میں اس گروپ کا شدید نقصان ہوا، مگر کابل کی فوج نے ان کی مدد کرکے انہیں صفایا ہونے سے بچا لیا۔ شام سے واپس آنے والے داعش دہشت گردوں کا ایک بڑا گروپ بھی یہاں موجود ہے، جس کا مرکز درزاب میں ہے اور اس گروپ میں عرب، افریقہ اور یورپ سے آنے والے دہشت گرد بھی موجود ہیں، اور یہ لوگ ہر ممکنہ دہشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

داعش کا دوسرا بڑا مرکز ننگر ہار کے علاقہ اچینی میں ہے جہاں انہوں نے کئی اضلاع پر قبضہ کر رکھا ہے۔ قطعہ المنتظرہ کے نام سے طالبان کی الگ کمانڈ داعش کے خلاف متحرک ہے مگر اس کے باوجود جوزنجان اور ننگر ہار میں بھی خونریزی کے بغیر طالبان کا مکمل کنٹرول ممکن نہیں۔

کنہڑ، خوست اور ننگر ہار میں موجود ٹی ٹی پی اور احرار ے ناموں دہشت گردوں کی نرسریاں کوئی بڑا مسئلہ تو شاید نہ بنیں مگر پاکستان کو بارڈر ٹائٹ کرنا پڑے گا تاکہ یہ چوہے ادھر نہ گھس سکیں۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہیں اس تمام صورتحال کا ادراک ہے اور ان کی تیاریاں اس سب کو پیش نظر رکھ کر ہی جارہی ہیں۔

بر سر زمین صورتحال یہ ہے کہ طالبان فورسز پورے ملک میں اپنی طاقت منوا چکی ہیں۔ کابل میں وزارت داخلہ سے دستیاب اطلاعات کے مطابق دسمبر کے تیسرے ہفتہ کے لئے کابل کے گردو نواح کو بھی انتہائی خطرناک قرار دے کر غیر ملکیوں کی کسی بھی نقل و حرکت کے لئے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

شہر میں کوئی ہوٹل محفوظ نہیں۔ برطانوی اور امریکی سفارتخانے اپنے شہریوں کو ایڈوائزری جاری کرچکے ہیں کہ وہ کسی بھی ہوٹل میں رات نہ گزاریں۔ پورے ملک میں روزانہ ہونے والے چھوٹے بڑے حملوں کی اوسط تعداد 15 سے 25 درمیان ہے۔ اکتوبر سے یکم اپریل تک افغان روایات کے مطابق جنگ نہیں لڑی جاتی دسمبر، جنوری جنگ سے گریز کا مہینہ سمجھے جاتے ہیں، مگر اس بار اس ٹھنڈے موسم میں بھی جنگ کا محاذ گرم ہے۔

اب تک دسمبرکے جن تین ایام میں سب سے کم خونریزی ہوئی، 9 سے 11 دسمبر تک 12 صوبوں میں 15 بڑے حملے کیے گئے۔ جنہیں امریکی کمانڈ اور افغان حکومت بھی تسلیم کرتی ہے۔ جبکہ طالبان کا دعویٰ ان تین روز میں 18 صوبوں میں 23 حملوں کا ہے۔ نومبر کے آخری ہفتے طالبان شوریٰ کے ایک اہم لیڈر سے ملاقات ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں انہیں کسی بھی شہر پر قبضہ کرنے کی خاطر ایک ہفتے سے پورا مہینہ تیاری کرنا پڑتی تھی۔

قبضہ کی صورت میں صرف ایک سے دو گھنٹے کے بعد بھاگنا پڑتا، اب یہ صورتحال ہے کہ چند گھنٹوں کی تیاری سے حملہ کرنا اور کسی بھی شہر پر قبضہ کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہا اور اسے چھوڑا بھی اپنی مرضی سے جاتا ہے۔

اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پورے ملک میں طالبان کے قبضے کی رفتار میں اضافہ کی ایک وجہ ملا ہیبت اللہ کی حکمت عملی بھی ہے۔ انہوں نے سرکاری فوجیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا اور کہا کہ جو فوجی وردی اور اسلحہ سمیت سرنڈر کرے گا، اس سے اسلحہ نہیں لیا جائے گا اور نقد رقم بھی دی جائے گی، جو لوگ وردی اور اسلحہ کے بغیر خاموشی سے آئیں گے انہیں بھی عام معافی دی جائے گی اور جو فوجی فوج میں رہتے ہوئے طالبان کو اطلاعات فراہم کریں گے، انہیں اس کی اجازت دی جائے گی کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ آزادی سے مل سکیں اور ان کے خاندان کا بھی تحفظ کیا جائے گے۔

اب طالبان کسی بھی حملہ کا آغاز میگا فون پر سرنڈر کی دعوت سے کرتے ہیں اور سینکڑوں فوجی ہاتھ اٹھائے اسلحہ سمیت ان سے مل جاتے ہیں۔ چیک پوسٹوں پر سرکاری فوجی طالبان کو دانستہ راستہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔

ان حالات میں اس بات کا امکان ہے کہ سرکاری فوج طالبان کی راہ شاید نہ روک پائے مگر اس کے باوجود خون ریزی سے صرف اسی صورت بچنے کا امکان ہے کہ امریکیوں کو عالمی دباؤ کے ساتھ مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے محفوظ اور پر امن انتقال اقتدار کو یقینی بنائے۔

مگر کیا ایسا ممکن ہو پائے گا؟ تاریج کے تناظر میں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ مگر شاید۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).