جانور راج! تبدیلی کی ہوا چل پڑی


موسمِ گرما کے آخر تک آدھے ملک میں خبر پھیل چکی تھی کہ جانوروں کے باڑے پہ کیا ہوا۔ ہر روز، نپولین اور سنو بال کبوتروں کی ٹکڑیاں بھیجا کرتے تھے، جنہیں ہدایات دی جاتی تھیں کہ پڑوسی مزرعوں کے جانوروں میں گھل مل جائیں، انہیں انقلاب کی داستان سنائیں اور ’وحوشِ انگلستان‘ کے ترانے کی دھن سکھائیں۔

یہ وقت، جانی صاحب نے زیادہ تر، ڈھپئی میں چھجو کے چوبارے کے دارو والے کمرے میں جمے، ہر کس و ناکس سے اپنے ساتھ، کسی نہ جوگے جانوروں کے ہاتھوں اپنی جائیداد سے بے دخل ہونے والی عظیم نا انصافی پہ شکوہ کناں گزارا۔ دوسرے کسانوں نے اصولی طور پہ تو اس سے ہمدردی جتائی مگر ابتدأ میں اس کی کوئی خاص مدد نہ کی۔ درونِ دل، ان میں سے ہر کوئی یہ خواہش پال رہا تھا کہ وہ جانی کی بد قسمتی کو اپنے فائدے میں کیسے بدل سکتا ہے؟ یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ جانوروں کے باڑے سے لگواں دونوں مزرعوں میں پکی دشمنی چلی آرہی تھی۔

ان میں سے ایک جس کانام، ’بوہڑ والا‘ تھا، ایک بڑا سا، لاپروائی کا شکار، روایتی مزرعہ تھا، جس کے بہت سے حصے پہ خود رو جنگل اگ آیا تھا، ساری چراگاہیں اجڑی ہوئیں اور باڑیں لٹکی پڑ رہی تھیں۔ اس کے مالک مسٹر اللہ دتہ، ایک سادہ لوح، شریف آدمی تھے، جو اپنا زیادہ تر وقت، موسم کے مطابق، مچھلی پکڑنے یا شکار کھیلنے میں صرف کرتے تھے۔

دوسرا فارم، جو کہ ’خالصہ کلاں‘ کہلاتا تھا ایک چھوٹا اور اچھے طریقے پہ چلایا جانے والا مزرعہ تھا۔ اس کا مالک، رؤف جٹ، ا یک بد دماغ، عیار، فوجداریوں میں ملوث، کوڑی کوڑی پہ بحث کرنے میں مشہور آدمی تھا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو اتنا ناپسند کرتے تھے کہ ان کے لئے کسی ایک بات پہ چاہے وہ ان کے مفاد ہی میں کیوں نہ ہو، متفق ہونا ناممکن تھا۔

اس کے باوجود دونوں، جانوروں کے باڑے کے انقلاب سے خوب ڈرے ہوئے تھے اور اپنے جانوروں تک اس کی خبریں پہنچنے سے روکنے کو بڑے فکر مند تھے۔ پہلے انہوں نے اس خیال کو ہنسی میں اڑانے کا تاثر دیا کہ جانور اپنا فارم خود سنبھال رہے ہیں۔ وہ کہتے کہ سب کچھ ایک پندھرواڑے میں برابر ہو جائے گا۔ وہ یوں کہتے کہ آدم جانی کے باڑے پہ ( وہ اسے آدم جانی کا باڑہ کہنے پہ ہی مصر تھے ؛وہ جانوروں کے باڑے کا نام برداشت نہیں کر سکتے تھے ) جانور آپس میں لڑتے ہیں اور فاقوں مر رہے ہیں۔

جب وقت گزرا اور جانور فاقوں سے نہ مرے تو اللہ دتے اور رؤف جٹ نے اپنا لہجہ بدلا اور اس خوفناک بد کاری کا ذکر شروع کیا جو اب جانوروں کے فارم پہ پھل پھول رہی تھی۔ یہ کہا جانے لگا کہ جانور، ہم جنس خوری پہ اتر آئے ہیں، ایک دوسرے کو تپتی ہوئی گھوڑے کی سرخ نالوں سے داغتے ہیں اور سانجھی مادائیں رکھتے ہیں۔ فطرت کے قوانین سے بغاوت کا یہ انجام ہوتا ہے، اللہ دتے اور رؤف جٹ نے کہا۔

مگر ان کہانیوں پہ کبھی بھی یقینِ کامل نہ کیا گیا۔ ایک زبردست فارم، جہاں سے انسان کو بھگا دیا گیا تھا اور جانور اپنے معاملات خود چلا رہے تھے کے بارے میں مبہم اور ادھوری پونی سرگوشیاں پھیلتی رہیں اور اس پورے سال دیہاتوں میں انقلاب کی ایک لہر دوڑا کی۔

بیل جو ہمیشہ سدھے رہتے تھے، اچانک وحشی ہو گئے، بھیڑیں مینڈھیں توڑ کے برسیم چر گئیں، گائیوں نے بالٹیوں کو لاتیں مار کر الٹا دیا، گھوڑوں نے اپنی زقندیں ایسی پلٹیں کہ سوار وہ جاکے گرے۔ سب سے بڑھ کے ’وحوشِ انگلستان‘ کے ترانے کی دھن، بلکہ الفاظ بھی ہر جگہ، پہنچنے لگے۔ یہ حیرت انگیز رفتار سے پھیلا۔ انسان جب اس ترانے کو سنتے تھے تو اپنے طیش پہ قابو نہیں پاسکتے تھے حالانکہ وہ یہ تأثر دیتے تھے کہ وہ اسے مضحکہ خیز سمجھتے ہیں۔

وہ کہتے کہ وہ سمجھ نہیں سکتے کہ جانور بھی کیونکر اس قدر نفرت انگیز بکواس، گانے پہ اتر آئے۔ جو بھی جانور یہ گاتا ہوا پکڑا جاتا تھا اسے موقعے پہ درے لگتے تھے۔ اس کے باوجود گانا نہیں دب سکا۔ کال چڑیاں، جھاڑیوں میں اسے گاتی تھیں، کبوتر ٹاہلیوں میں اسے غٹکتے تھے، یہ لوہاروں کی لوہے پہ لگنے والی چوٹوں کے شور اور گرجا کی گھنٹیوں میں سرائیت کر گیا اور جب انسان اسے سنا کرتے تو اس میں اپنی متوقع بربادی کی وعید سن کر اندر اندر ہی کانپ جاتے۔

اس سیریز کے دیگر حصےجانور راج- قیادت کے لئے کھانے پینے کی اہمیتجانور راج! انسانوں سے پہلی جنگ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).