بسنت منانا ضروری ہے لیکن ۔۔۔


پنجاب حکومت نے فروری میں لاہور میں بسنت منانے کا اعلان کیا ہے جسے فوراً ہی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج بھی کر دیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے بسنت کو پنجاب کی ثقافت کا حصہ قرار دیا ہے اور اسے ایک فیسٹیول کے طور پر منانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف مخالفین کا کہنا ہے کہ حکومت عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتی ہے۔ ماضی میں پتنگ بازی کی وجہ سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا رہا ہے اور اس کی وجہ سے اربوں روپے کی پبلک پراپرٹی کا بھی نقصان ہو چکا ہے۔

2008 سے 2018 تک مسلم لیگ (ن) پنجاب پر حکمران رہی اور اس پورے دور میں بسنت منانے پر پابندی رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پتنگ بازی کی وجہ سے ہر سال بہت سی جانوں کا نقصان ہوتا رہا ہے اور دھاتی ڈور کے استعمال کی وجہ سے لیسکو کے بجلی کے نظام کو بھی مختلف مواقع پر بھاری نقصان پہنچا اور لوگوں کے برقی آلات بھی جلتے رہے۔ لہٰذا پتنگ بازی پر پابندی سے گزشتہ دس سال میں ہم ان تمام نقصانات سے بچے رہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ بسنت پر پابندی لگا کر ہم نے پنجاب کی ثقافت کے ایک اہم حصے کو کھو دیا۔

ثقافتی میلے، تہوار، فیسٹیول اور کارنیوال ہر قوم کی ثقافتی پہچان ہوتے ہیں اور اس کے تہذیب و تمدن کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ تقریباً ہر ملک میں ہی ان کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ بین القوامی اہمیت کے حامل بھی ہیں، جیسے ریو ڈی جینرو (برازیل) کا ریو کارنیوال، البوقرقی (نیو میکسیکو، امریکہ) کا غباروں کا میلہ، تائیوان کا لالٹینوں کا فیسٹیول، بھارت کی ہولی، وغیرہ۔ تو اس لحاظ سے بسنت میلہ منانا کسی بھی طرح سے کوئی خلاف معمول یا خلاف عقل بات نہیں ہے۔

زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب لاہور میں بسنت کا تہوار موسم بہار کے آغاز کا اعلان سمجھا جاتا تھا۔ پورے پاکستان سے، بلکہ بیرون ملک سے بھی، لوگ بسنت منانے لاہور آیا کرتے تھے اور ایک جشن کا سا سماں ہوتا تھا۔ لاہور کے رہائشی فخریہ انداز میں اپنے مہمانوں کا استقبال کرتے تھے، پورا دن پتنگ بازی ہوتی تھی اور طرح طرح پکوان بنتے تھے۔ کچھ منچلے اس میں بلند آواز کے میوزک کا تڑکا بھی لگا دیتے تھے۔ مجموعی طور پر یہ ایک پرلطف دن ہوتا تھا۔

اب دوبارہ سے اگر بسنت منانے کا آغاز کرنا ہے تو ضروری ہے کہ پتنگ بازی سے منسلک جو خدشات اور خطرات ہیں، ان کا خاتمہ کیا جائے یا ان کو ممکنہ حد تک کم کیا جائے۔ سب سے ضروری تو یہ ہے کہ بسنت میلے کا فوکس پتنگ بازی سے ہٹانے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے بسنت میلے کو بسنت ویک کا نام دیا جائے۔ اس دوران شہر کے اہم ہوٹلوں اور ریستورانوں میں فوڈ فیسٹیول منایا جائے۔ الحمرا ہال میں موسم بہار کے حوالے سے مشاعروں اور دیگر ادبی تقریبات کا انعقاد کیا جائے۔

ہمارے فنکار شہر کے مشہور تھیٹروں میں بسنت کے موضوع پر پرمزاح اسٹیج ڈرامے پیش کریں۔ لاہور کی بڑی شاپنگ مالز اور مقبول برانڈز بسنت سیل کا اہتمام کریں۔ ان اور ان جیسے دیگر اقدامات کی بدولت یقیناً لوگوں کی توجہ پتنگ بازی سے کسی حد تک تو ہٹائی جا ہی سکتی ہے۔ پتنگ بازی کے نقصانات سے بچنے کے لیے دیگر تجاویز حسب ذیل ہیں :

۔ پتنگ بازی کی اجازت صرف بسنت ویک کے دوران ہی ہو۔ بسنت ویک کے اختتام پر اس پر دوبارہ سے پابندی لگا دی جائے۔
۔ دھاتی ڈور کا استعمال بالکل ممنوع ہو۔ ایسا کرنے والوں سے فی الفور قانون کے مطابق نمٹا جائے۔
۔ اگر ممکن ہو تو صرف طے شدہ مقامات اور کھلے میدانوں میں ہی پتنگ بازی کی اجازت جائے۔
۔ ڈور پھرنے سے ہونے والی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے عوام الناس کو موزوں اشتہاری مہم کے ذریعے آگاہی دی جائے۔

امید ہے کہ پنجاب حکومت اور لاہور ہائی کورٹ متفقہ اقدامات کے ذریعے بسنت میلے کے انعقاد کی کوئی راہ نکالیں گے اور یہ میلہ اپنی اصلی شان شوکت کے ساتھ منایا جا سکے گا۔ اس سے لاہور کے شہری اور ان کے مہمانان تو بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوں گے ہی، ساتھ ہی ساتھ عالمی سطح پر پاکستان کا امیج ایک پرامن ملک کی حیثیت سے اجاگر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).