شادی کی مروجہ رسومات اور ان کی تباہ کاریاں


موجودہ دور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجودشادی بیاہ و دیگر تقریبات کے موقعے پر انتہائی اسراف اور فضول خرچی سے کام لیا جارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں معاشرے میں موجود افراد کی ایک کثیر تعداد کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصًا نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے حضرات کے لیے یہ رسومات دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔ شادی بیاہ کا مروجہ نظام غریب بچیوں کی شادی میں ایک رکاوٹ بن چکا ہے، جسے ختم کرنا ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ ان رسومات کی وجہ سے جتنے بھی لوگ متاثر ہوں گے ان کا وبال رسم و رواج پر عمل کرنے والوں پر بھی ہوگا۔

جیسا کہ ہمارے معاشرے میں ”بیٹی رحمت ہے“ جیسے دعوے کرنے کے باوجود بیٹی کی کماحقہ عزت نہیں کی جاتی۔ شادی سے پہلے لڑکی کو امتحان کے چند مراحل طے کرنے ہوتے ہیں۔ جن کو سر کرنے کے بعد ہی ایک بیٹی لڑکے والوں کے ہاں مقبول کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرتی ہے۔ سب سے پہلے لڑکی کا سر کے بالوں سے لے کر پیر کے ناخنوں تک بغور جائزہ لیا جاتا ہے۔ اگر پسند آجاتی ہے تو اس کے بعد جہیز کی بات کی جاتی ہے۔ بعض تو لڑکی سے زیادہ پیسے کو ترجیح دیتے ہیں۔

دولت کے مقابلے میں وہ اپنے بیٹے کے لیے ترش رو اور سخت مزاج لڑکی کو بھی گوارا کرلیتے ہیں۔ بہرحال لڑکے والے اپنے بیٹے کی زیادہ سے زیادہ قیمت لگاتے ہیں۔ اگر بیٹا خاطر خواہ قیمت میں بک گیا تو ٹھیک، ورنہ رشتہ منظور نہیں کیا جاتا۔ رشتہ منظور ہونے کے بعد منگنی میں حوا کی بیٹی کو نمائش کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جس میں تماش بین کا کردار ادا کرتے ہوئے خواتین و حضرات بنتِ حوا کی مختلف اینگلز سے تصویریں لیتے ہیں۔

اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر میں یہ تصویریں عام ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد شادی کی باری آتی ہے۔ باراتیوں کا کھانا لڑکی والوں کو کھلانا پڑتا ہے جو شریعت کی رو سے خلافِ سنت ہے۔ لڑکے والے اپنے من پسند کھانوں کی لسٹ بنا کر لڑکی والوں کو بھیج دیتے ہیں اور ساتھ میں باراتیوں کی تعداد بھی بتا دی جاتی ہے۔ اتنی تکلیف اٹھانے کے بعد بھی والدین کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ ان کی بیٹی سسرال میں سکھی رہے گی یا نہیں۔ یہ تو ایک امیر باپ کی بیٹی کی کہانی تھی۔ غریب باپ کی بیٹی کی کہانی کا تو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس کی کہانی شروع ہونے سے پہلے ہی دِی اینڈ ہوجاتی ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ ایسی شادی کے متعلق اسلام کی کیا تعلیمات ہیں۔ اسلام کسی پر ظلم کرنے کی قطعًا اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ کا مکلف بناتا ہے۔ لڑکی والو ں کو جہیزاور باراتیوں کے کھانے وغیرہ کا مکلف کرنا اسلام میں جائز نہیں۔ شریعت نے تمام انسانوں کا لحاظ رکھتے ہوئے نکاح کا جو معیار مقرر کیا ہے اس پر مفلس ترین شخص بھی بآسانی عمل کرسکتا ہے۔ شادی میں بے جا خرافات اور فضول رسم و رواج کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

اسلام تو سستی اور سادی شادی کی تعلیم دیتا ہے۔ رسول اللہ صہ نے فرمایا کہ ”سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔ “ اسی طرح شادی اور ولیمہ میں رشتیداروں، دوست اور احباب کو مدعو کرنا اور ان کے لیے پر تکلف طعام کا بندوبست کرنا بھی شریعت کی رو سے نامناسب ہے۔ رسول اللہ صہ نے حضرت عبدالرحمان بن عوف رضہ کے کپڑوں پر زعفران کے پیلے دھبے دیکھ کر فرمایا کہ یہ کیسے دھبے ہیں؟ عرض کیا کہ میں نے ایک انصار کی عورت سے نکاح کرلیا ہے۔

آپ صہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری شادی میں برکت کرے۔ ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری کا ہی ہو۔ دیکھیے صحابی نے رسول اللہ صہ کو بھی دعوت نہیں دی۔ پھر بھی آپ ان سے ناراض نہیں ہوئے بلکہ ان کو دعا دی۔ آج ہمارے ہاں بھولے سے بھی کسی کو شادی کی دعوت نہ دی جائے تو رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ رسول اللہ صہ کی یہ حدیث ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے۔

شادی بیاہ میں بے جا اخراجات کرنے اور شادی کی تقریبات ہوٹلوں میں منعقد کرنے کے کئی نقصانات ہیں۔ ان ہی فضول رسومات کی چکی میں بے زر لوگ پس رہے ہیں۔ دن رات محنت مزدوری کے بعد بھی وہ اپنی بیٹی کی شادی کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یا پھر مجبورًا انہیں کسی زمیندار یا وڈیرے سے سود پر قرضہ لینا پڑتا ہے اورپوری زندگی وہ سود سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ کئی بیٹیاں جہیز وغیرہ کی وجہ سے ٹھکرائے جانے پر احساس کمتری کا شکار ہوکر خودکشی کرکے اپنی جان دے دیتی ہیں۔

اس کے علاوہ شادی ہال اور ہوٹلوں میں شادی کرنے سے نہ صرف شرعی حدود کی خلاف ورزی کی جاتی ہے بلکہ اس کام میں ایک بڑی رقم بھی خرچ کی جاتی ہے۔ دراصل یہ تمام رسومات ہندوؤں کی طرف سے آئی ہیں لہٰذا ان کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ بینکوئٹ اور شادی ہال میں شادی کرنے سے اور بھی کئی خرابیاں لازم آتی ہیں۔ جیسے : بے جا اسراف، ناچ گانا، فوٹو گرافی، بے پردگی، مردو زن کا اختلاط وغیرہ۔ لہٰذا ان گناہوں کی وجہ سے ایسی جگہوں پر شادی کرنا شرعی نقطہ نظر سے جائز نہیں۔

آج امیر لوگ اگر اپنی شادیوں میں اعتدال کا مظاہرہ کریں اور فضول رسم و رواج کو ختم کردیں تو کئی غریب اور مفلس بیٹیوں کے لیے شادی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ خصوصًا لڑکے والے جہیز کی پرواکیے بغیر لڑکی والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں نامناسب شرائط کا پابند نہ کریں تو رسومات کا بڑھتا ہوا طوفان تھم سکتا ہے۔ مالدار لوگ شادی پر خرچ کیے جانے والے پیسے اگر غریب اور بے سہارا بچیوں کی شادی پر خرچ کریں تو یہ عمل ان کے لیے آخرت میں نجات کا سبب بن سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).