شریف خاندان کا جرم


 پہلے اعلیٰ عدلیہ کے پانچ ججز تمام کیسز کو بالائے طاق رکھ کر صرف پانامہ کیس کو کھنگالتے رہے، کچھ نہ ملا تو پھر جے آئی ٹی کے پانچ ہیرے قوم کے کروڑوں روپے لٹا کر آئے لیکن یہ ثابت نہ کر پائے کہ میاں صاحب نے کک بیک یا کمیشن لی یا من پسند لوگوں کو ٹھیکے دلوا کر ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا۔ بس یہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے کہ میاں صاحب کا باہر کاروبار اور پراپرٹی ہے۔ جس کے بعد ججز نے اپنی انا کی تسکین کے خاطر اقامے کا سہارا لے کر تا حیات نا اہل قرار دیا۔

محض پراپرٹی کے اونر ہونے سے کوئی بھی کرپٹ نہیں ہوسکتا۔ کراچی کے ہر سیٹھ اور پنجاب کے ہر چودھری کا بیرون ملک کاروبار ہے۔ اگر اس کو معیار بنایا جائے تو کوئی بھی کرپشن سے پاک نہیں ہوگا۔ محترمہ علیمہ بھی۔ پھر محمد بشیر اور ارشد ملک نے ڈیڑھ سو سے زیادہ سماعتیں کیں، لیکن نیب اور واجد بابا کوئی ایک بھی ایسا ثبوت پیش نہ کر پائے جس سے ثابت ہو کہ میاں صاحب نے کرپشن کی ہے، حتیٰ کہ جج محمد بشیر کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ میاں صاحب نے کرپشن نہیں کی ہے۔

بس جرم یہ ہے کہ ذرائع آمدن بتا نہیں پائے (باقی پراسیکیوشن بھی رتی برابر ثبوت پیش نہ کر سکا) اعتراض ہوتا ہے کہ میاں صاحب چونکہ عوامی عہدہ رکھتے تھے تو انہوں نے پیسا چرایا ہوگا ( پیسا چرانے کا ایک بھی ثبوت نہیں)۔ اگر دیکھا جائے تو شریف فیملی شروع سے پاکستان کے امیر ترین گھرانوں میں شمار ہوتی تھی۔ 1970 کے دور کے اثاثہ جات کو مد نظر رکھتے ہوئے حساب لگایا جائے تو ان کے موجودہ اثاثے قطعاً ذرائع آمدن سے زیادہ نہیں لگتے ہیں۔

ایک ایس ڈی او کی بیٹی اربوں روپے کی مالک ہو سکتی ہے اس کا بے روزگار بھائی جس کے ظاہر شدہ اثاثوں میں گاڑی تک نہیں (یعنی ہم جیسوں سے بھی کم آمدنی والا) وہ پانچ پانچ کروڑ کی گاڑیوں میں سفر کرتا ہے، عمرے پر پرائیویٹ جہاز میں سفر کرتا ہے، الیکشن مہم ہیلی کاپٹر پر چلاتا ہے۔ پیوند لگے کپڑے تو دکھاتا ہے لیکن کتوں کو ڈرائی فروٹ کھلاتا ہے۔ اس سب کے باوجود یہ لوگ صادق اور امین ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں رہا، البتہ پارٹی فنڈز کا حساب مانگا جائے تو مانگنے والے کو پارٹی سے نکالا جاتا ہے اور کیس کو چار سالوں تک چھوا نہیں جاتا۔

شریف خاندان نے بھٹو کے ظلم کے بعد کاروبار کو باہر منتقل کرنا شروع کیا جس کے لئے شاید قانونی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا، اور کاروبار باہر سیٹل کیا گیا۔ جس میں نہ چوری کا پیسہ لگایا نہ تو ڈاکے کا نہ کک بیک کا۔ یہی ہے وہ جرم جو ان کے گلی کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں کاروبار کریں تو نیشنلائز ہو جائے۔ باہر کریں تو کرپشن کا لیبل لگایا جائے، آخر جائیں تو جائیں کہاں؟ ہاں اگر دوسرے سیاستدانوں کی طرح جی حضوری کریں، ملکی ترقی پر سمجھوتہ کرتے اور پاور شیئرنگ کرتے، تو چودھری نثار کے بقول نہ ان کی وہ حکومت جاتی اور نہ ہی ان کا یہ مینڈیٹ چھینا جاتا۔ آج بھی وزیراعظم ہوتے اور کچھ حاسد کنٹینر پر دھمال ڈال رہے ہوتے۔ اگر میاں صاحب کا یہ جرم ہے تو ہم ایسے مجرم کے ساتھ ہیں، ہمیں وطن عزیز کے محبت میں مقید نواز شریف ایک کھلونے وزیراعظم سے ہزار بار زیادہ عزیز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).