کرسمس کی تیاری اور انتھونی کا خوف


انتھونی دفتر جلدی پہنچنے کے لیے گھر سے نکلا تو ویگن سٹینڈ پر رش دیکھ کر اور پریشان ہو گیا مگر کافی تگ و دو کے بعد ویگن کے پائیدان پر ایک پاوں کی جگہ پاکر سکھ کا سانس لیا ایک پاوں پہ کھڑے ہو کر تیس کلومیٹر کا سفر کرنا ایسے ہی تھا جیسے بھینس کو نہر میں نہلاتے ہوئے دم پکڑ کر تیراکی کرنا مگر انتھونی کو اس کام میں کافی مہارت تھی مگر دسمبر کی سردی اور پچھلے سال کے صاحب کے دیے ہوئے پرانے کوٹ کے سامنے یہ مہارت بے وقوفی سے زیادہ کچھ نہ تھی دفتر پہنچنے تک اسکا ہاتھ شل،جسم نیم مردہ اور ہمت جواب دے چکی تھی۔

دفتر کے عملہ سے نظر بچا کر صاحب کے کمرے کا ہیٹر چلا کر ہاتھ پاوں سینک کر صفائی کی، کمرے سے باہر نکلا ہی تھا کہ سامنے سے نئے صاحب کی انٹری ہو چکی تھی۔ جنوبی پنجاب میں عاصم کی یہ پہلی پوسٹنگ تھی۔ عاصم نے چارج سنبھالتے اپنے مخصوص لاہوری پنجابی لہجے میں میٹنگ کی اور سب کو محنت کی عظمت پر لیکچر دے کر خود سگریٹ سلگایا اور ٹوئیٹر پر مگن ہو گیا۔ صاحب کی خاموشی میں اچانک ابھرتے ہوئے ابرو اور مسکراہٹوں سے مزین موبائل سکرین پر جمے انہماک کو سٹاف نے تخلیہ جان کر پتلی گلی سے نکلنے کو غنیمت جانا ورنہ انتھونی کے علاوہ سبھی سرائیکی بولنے والوں کو پنجابی میں ایک اور محنت اور لگن کے فوائد سے بھرپور لیکچر سننا پڑتا
صاحب ہوش میں آئے تو انتھونی اپنا جھاڑو دراز کیے کھڑا تھا عاصم دیکھتے ہی فورا” بولا ” اے چاڑو میرے سر اچ مار دے بڑیاں جوواں نیں ایتھے” انتھونی بھی سنتے ہی کھسک گیا-

سارا سٹاف خوفزدہ تھا کہ اس افسر کے ساتھ گزارا کیسے ہوگا۔ دفتر میں سارا دن خاموشی رہی شام ہوئی تو صاحب نے پوچھا تم میں سے بہاولپور شہر میں کون رہتا ہے۔ سبھی لوکل تھے مگر بولا نہیں بولا۔ عاصم نے انتھونی کو دیکھ کر کہا تم میرے ساتھ چلو۔ عاصم نے انتھونی کو ساتھ لیا اور کہا مجھے نورمحل دیکھنا ہے انتھونی نے خاموشی کے ساتھ سفر کیا اور صاحب کو نورمحل دکھایا اور ڈرتے ڈرتے جو صاحب نے پوچھا جواب دیا- عاصم واپسی پر انتھونی کو گھر چھوڑ کر خود ریسٹ ہاوس چلا گیا- انتھونی جب گھر کی گلی میں مڑا تب اسے یاد آیا کہ اس نے تو چھٹی بھی لینی تھی اور ایڈوانس تنخواہ لے کر بچوں کو کرسمس کی شاپنگ بھی کروانی تھی مگر افسر کا خوف بچوں کی خواہش اور غربت سے بڑا تھا۔ گھر داخل ہوا تو بیوی کی ڈانٹ سن کر اس کے اندر کا جٹ جاگ گیا۔ بیوی کو کھری کھری سنا کر صاحب کے سیکرٹری کو فون لگایا اور بول دیا۔ صبح کام پر نہیں آؤں گا اور کچھ سنے بغیر فون کاٹ دیا- اس حرکت سے بیوی بچے خوش ہو گئے سب نے مل کر کھانا کھایا اور خوشی میں ایڈوانس تنخواہ والی بات سوچے بغیر سو گئے-

انتھونی کے دن کا آغاز حسب معمول بیگم سے لڑائی سے ہوا دو چار نوالے لے کر ناشتہ کی عادت کو زہر مار کرکے گھر سے پھر ایڈوانس تنخواہ اور چھٹی لینے کی آرزو لیکر دفتر پہنچا تو سیکرٹری نے انتھونی کو دیکھتے ہی عینک کو تھوڑا اور نیچے کیا اور مخصوص سرائیکی لہجے میں بولا ”سائیں آگئے وے؟ رات آلا نشہ لے گئے؟” انتھونی دفتر کی صفائی کر ہی رہا تھا تو صاحب آگئے انتھونی ہڑبڑا کر بولا سر! سر! اور جلدی جلدی صفائی کرنے لگا، گرد اڑنے لگی تو صاحب کوٹ صاف کرتے ہوئے بولے ” بڑا تیرا پٹھے بغدے ورگا منہ اے” ٹائم سے آکر کیوں نہیں کی صفائی؟ اور وقت کی اہمیت پر اک طویل لیکچر دیا۔ انتھونی چپ چاپ سنتا رہا اور کمرے سے باہر نکل گیا-

شام تک پورے دفتر پر خوف اور سکوت طاری رہا اور پھر صاحب نے باہر آتے ہی انتھونی کو اشارہ کیا اور باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھتے ہوئے انتھونی سے پوچھا قلعہ دراوڑ یہاں سے کتنی دور ہے انتھونی بولا صاحب جی زیادہ دور تو نہیں مگر رات کے وقت وہاں جانا ٹھیک نہیں دن کے وقت جائیں اگر دیکھنا ہے تو- عاصم نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور کہا کہیں سے سموسے کھلا دو۔ سموسوں کا ذکر سنتے ہی اسے اپنا بیٹا اور کرسمس کی شاپنگ یاد آگئی۔ عاصم پھر بولا ”او مستا” تینوں پوچھ رہاں کتھوں لبھن گے سموسے؟” انتھونی بولا سرکار کالی پلی کے سموسے بہت مشہور ہیں- عاصم نے کالی پلی کے سموسے کھائے اور بہت خوش ہوا- واپسی پر پھر اسے گھر چھوڑا اور ریسٹ ہاوس چلا گیا۔

اب گلی سے گھر تک چند قدم کا سفر انتھونی کے لیے موت کا سفر بن چکا تھا اور اس کے دماغ پر بیوی بچوں کے سوال ہتھوڑے کی طرح لگ رہے تھے اور اسے کوئی جواب نہیں سوجھ رہا تھا اور وہ اندر ہی اندر چلا رہا تھا کہ خداوند نے اسے پیدا کیوں کیا؟ اگر کر ہی دیا تھا تو غریب کیوں رکھا؟ اور ابھی دروازہ کھٹکھٹانے ہی لگا تھا کہ اس کی بیوی اچانک گھر سے نکلی اور اس سے ٹکرا گئی اس نے ہاتھوں میں اپنے بیٹے کو اٹھایا ہوا تھا جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا انتھونی نے بیٹے کو اس کے ہاتھوں سے لیا اور ہسپتال کی طرف دوڑا گلی میں محلے کے اک لڑکے سے موٹرسائیکل مانگا اور بچے کو لیکر ایمرجنسی پہنچا ڈاکٹر ابتدائی طبی امداد دیتے ہوئے بچے کو آپریشن تھیٹر میں لے گئے انتھونی باہر بیٹھا دعائیں مانگتا رہا- ڈاکٹر باہر آئےاور انتھونی کو دلاسہ دیا اور بچے کو وارڈ میں شفٹ کردیا انتھونی اور اس کی بیوی اپنے بیٹے کے سرہانے ساری رات بیٹھ کر اسے دیکھتے رہے اور پیار کرتے رہے-

25 دسمبر کی صبح کرسمس کی خوشیوں کے ساتھ طلوع ہو رہی تھی کہ اچانک انتھونی کے بیٹے کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی ڈاکٹر کو بلانے کے لیے انتھونی ادھر ادھر بھاگتا رہا مگر اتوار کی صبح اتنی جلدی آنے کا رواج سرکاری ہسپتالوں میں نہ تھا اور ہسپتال کے سرکاری خاکروب بھی چھٹی پر تھے اگر ہوتے تو کسی سے سفارش کروا کر اپنے بچے کا چیک اپ کروا لیتا مگر آج اس کی مدد کو کوئی نہیں آیا تھک ہار کر وارڈ میں پہنچا تو اس کے بیٹے نے اسے ہاتھ سے پاس آنے کا اشارہ کیا انتھونی دیوانہ وار اپنے بیٹے کی طرف دوڑا مگر موت کی رفتار اس کی محبت سے زیادہ تھی اور اس کے بیٹے کی آنکھیں ٹہر گئیں-

انتھونی اور اسکی بیوی دھاڑیں مار کر روتے ہوئے اپنے بچے کا معصوم لاشہ لیکر گلی میں پہنچے تو آگے سے عاصم کی گاڑی نکل رہی تھی انتھونی گھر پہنچا تو ہمسائے نے اسے صاحب کے دئیے ہوئے پیسے، گفٹ، پھول اور کرسمس کیک دیا جو اس نے اپنے بیٹے کی لاش کے پاس رکھ دیا

اور اپنے امیر ہمسائے کو کہا اپنے بچوں کو بتا دینا اب ان سے کوئی کرسمس ٹری دیکھنے کی ضد نہیں کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).