زندگی بھر کی خدمت اور عید کا ایک دن


مجھے بھر پور اعتراف ہے، زندگی میں خیرات دینے کے معاملے میں بھر پور بخیل واقع ہوا ہوں۔ بہتوں بار نانی ماں نے کہا، بھوکے رہ لیا کرو، مگر کسی کو کچھ دے دلا ضرور کر لیا کرو۔ بہتوں بار ایسا ہی کیا، پھر ذہن پلٹ گیا اور پیشہ ور بھکاریوں کو نظر انداز کرنے لگا۔ایک مرتبہ یونیورسٹی کے گیٹ سے دس قدموں پرے کھڑے گونگے فقیر نے کبھی کبھی ضرورچونکایا، مگر اسے بھی ایک آدھ دفعہ بھیک دے کر آگے بڑھ گیا، اور ہر سویر ہاسٹل سے نکلنے سے قبل سوچتا، کہ اے کاش آج وہ نہ ہو۔ کرنا خدا کا اور کہنا میرا، کہ ہونا ہو کر رہا۔ ایک دن وہاں پہنچا تو اسے غائب پایا، جو رقیق القلبی اور شقاوتِ قلبی کو کچلنے کا باعث تھا۔ تاہم پیشہ ور بھکاری ایک خاتون جو کاغذ، قلم، پاپڑ، بسکٹ اور پینسلوں کا تھال سجا کر بیٹھتی ہے، جس کے ایک طرف ایک نوٹس بورڈ آویزاں ہے۔ ’’گھر کا کرایہ نہیں دیا‘‘۔ یہ بورڈ تین سال سے پڑھتا چلا آرہا تھا، مگر اسے کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ آخر ہمت ہوتی ہی کیوں؟! عجیب آدمی ہوں، عجب سوچتا ہوں۔ کیا ایسی کوئی راہ نہیں یونیورسٹی جانے کی، کہ جہاں سے نکلیں، وہاں کوئی پیشہ ور بھکاری نہ ہو؟

ایک دفعہ کہ جب میں یونیورسٹی سے لوٹ کر ہاسٹل کی طرف جا رہا تھا۔ دھوبی گیٹ سے گذرتے ہی ایک بچی نے مجھے آ لیا۔ بمشکل تیرھویں کے سن میں ہو گی۔ ’’وے اللہ تینوں بچے دیوے؛ کج دیندا جا‘‘۔ (اللہ تجھے بچے دے، کچھ دیتا جا)۔ میں بھِڑتا ہوا، دامن بچاتا ہوا نکلا، کہ وہ بیگ چھین کر بھاگ نکلی۔ اب وہ آگے دوڑے جاتی تھی، اور میں پیچھے لپکتا پھرتا تھا۔ بڑی مشکل سے کچھ دے دلا کر گلا چھوٹا۔ مگر اگلے ہی روز پھر کئی ایک آ موجود ہوئے۔ یوں نفرت بھرنے لگی۔

زندگی میں جب کبھی اذیت بڑھی اور صدقہ اتارنے کو جی ہوا تو مستحق کو ڈھونڈا اور کچھ دے دلا کر جان کو امان میں لایا۔ اُس دُپہر جمعہ تھا۔ یونیورسٹی سے نکلتے ہی ہاسٹل پہنچا۔ نہانے کو پانی چولھے پر چڑھایا، کہ دستک ہوئی۔ پوچھا، ’’بھئی کون ہے‘‘؟ کمرے میں ایک لڑکے کو رکھا تھا، وہ عرفان تھا، جو برف کھانے مری کو نکلا تھا۔ پھر یہ کون ہو سکتا ہے۔ ہاسٹل سنسان تھا۔ دسمبر کی چھٹیوں کی آمد تھی اور لڑکے بالے گھروں کو گئے تھے۔ دستک در توڑ تھی۔
’’کھولو پا جی‘‘۔ (کھولیے! بھائی جی)۔
’’یا خدا‘‘! دم لیتے ہی کھولا، تو کوئی نہ تھا۔ اپنا وہم سمجھ کر پھر چٹخنی چڑھا دی اور کھولتے پانی کا نکھار دیکھنے لگا۔ ضرور کوئی تھا۔ ضرور کوئی ہو گا۔ دل نے پھر دُہرایا۔ پھر ایکا ایکی در پٹ گیا۔
’’پا جی کوئی کھیرایت تے دیو‘‘۔ (بھائی جی، کوئی خیرات تو دیں)۔
’’کس چیز کی بھئی‘‘؟ در کھولتے ہی پوچھا۔

میں کرسچن کالونی میں نیا نیا شفٹ ہوا تھا۔ ہفتوں سے ہونے والے ہنگامے بھی میرے سامنے تھے۔ گھروں پر چراغ روشن تھے۔ گویا 25 دسمبر کا خوب خوب استقبال ہو رہا ہو۔ پھر خیال سوجھا ہو نہ ہو، یہ کرسچن ہو گا۔ وہ میرے منہ کو دیکھے کیا، اور میں اس کے ہاتھوں کو۔یک لخت اس نے کونے میں پڑی جھاڑو اٹھائی اور صفائی کرنے لگا۔ مگر میں نے اس کا ہاتھ تھامتے کہا۔
’’کیا آپ یہاں صفائی کرنے آئے ہیں؟ میں نے آپ کو یہاں کبھی نہیں دیکھا‘‘!
’’پا جی، ہفتہ ہو گیا، میں ایتھے آریاں‘‘۔ (بھائی جی، ہفتہ بھر ہو گیا ہے، میں یہاں آ تا ہوں)
’’لیکن! میں نے تو آپ کو آج دیکھا‘‘۔
پھر وہ بے تکلف ہوا، ’’پائی، جدوں میں آناں، تسی یونیوشٹی ہوندے ہو‘‘۔
(بھائی، جب میں آتا ہوں، اس وقت آپ یونیورسٹی میں ہوتے ہیں)
اس بات پر میں سنبھل نہ سکا اور تھوڑا مسکرائے بغیر بھی نہ رہ سکا۔ اس کی نگاہیں مجھ پر جمی تھیں۔
’’پائی، ساری زندگی تہاڈی خدمت کریدا۔ حلال دی روزی کمائی دی آ۔ اے عید اک واری آئیدی آ‘‘۔
(بھائی، ساری زندگی آپ کی خدمت کرتے ہیں۔ حلال کی روزی کماتے ہیں۔ یہ عید ایک بار آتی ہے)

’خدمت‘ کے نام پر گندے جوہڑ، گندے نالے، بد بو سے لتھڑے، ایسے خدمت گزاروں کے کئی چہرے میری آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ گندگی سے اٹے وجود جو مر کھپ جاتے ہیں مگر کوئی ڈاکٹر آسانی سے دیکھنے پر رضا مند نہیں ہوتا۔ معاوضہ کم ملتا ہے۔ ایک کمرے میں سات سات بن کر رہنے والے لوگ، زندگی سےنباہ کرتی روحیں۔ کھولتا ہواپانی کناروں اچھل رہا تھا۔

اس کے الفاظ اس میں پھدک رہے تھے۔ ’’پائی جی ساری زندگی تہاڈی خدمت کری دی آ‘‘۔
لفظ ’خدمت‘ نے مجھے شدید جذباتی کر دیا۔ میں نے اسے بانہوں میں لے لیا۔ جھاڑو چھین کر پھینکتے ہی کہا، ’’تسی ساڈے پائی او، خدمت دی لوڑ ناہیں‘‘۔ (آپ ہمارے بھائی ہیں، خدمت کی ضرورت نہیں)۔ پھر ایکا ایکی ہاتھ جیب کی طرف بڑھ گئے۔ وہ جیب جو کبھی دس روپے نکالنے پر راضی نہ ہوئی تھی۔ آج پانسو نکالے دے رہی تھی۔ میں کھلی آنکھوں سے اسے تک رہا تھا۔ یہ پانسو زندگی بھر کی خدمت کا حق نہیں ہو سکتے تھے، مگر وہ دے کر جو خوشی اس کے چہرے پر اور روحانی مسرت اپنے وجود میں اترتی پائی تھی، وہ کسی پیشہ ور بھکاری کو دے کر میسر نہ ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).