مومنین بنیادی باتوں سے آگے کب بڑھیں گے


مردوں کے خواتین کے سامنے مخصوص جگہوں پر کھجانے، نہ کھجانے والے معاملے پر تین، چار بلاگ سامنے آچکے اور پڑھنے والوں کی آرا بھی۔ ایک صاحب کے نزدیک عورتیں بھی مردوں کے سامنے کھجانے سے گریز کریں۔ ایک اور صاحب نے لکھا کہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں جس پر کچھ کہا لکھا جائے۔

دونوں کی رائے اپنی اپنی جگہ صحیح ہوگی۔ اس صدی میں جب مریخ پر انسان کے قدم پہنچنے اور پورا سر دوسرے کے جسم پر منتقل کرنے کی باتیں ہورہی ہوں، ہم ابھی کھجانے نہ کھجانے جیسی باتوں میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے بہت بنیادی باتیں جو ہمارے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں ہیں یا ہمیں ان کا ادراک نہیں، مہذب قوموں کے لئے بڑا مسئلہ ہیں۔ اپنے اپنے مذہب کی پخ لگائے بغیر انہوں نے اپنے لئے اخلاقیات کے وہ معیار طے کرلئے اور ان پر سختی سے کاربند ہیں، جو ہمارے نزدیک ابھی مسئلہ ہی نہیں یا جنہیں ہم عام روزمرہ کا معاملہ سمجھتے ہیں۔

ہمارے لئے تو تجاوزات، گاڑی چلتی سڑک پہ کھڑی کر دینا، بچوں خواتین سے بے نیاز فحش باتیں کرنا، سگریٹ سب کے درمیان پینا، سر عام تھوکنا، بھری محفل میں بھیانک آواز میں ڈکار مارنا، اور سڑک کنارے پیشاب کرنا وغیرہ بھی کوئی مسئلہ نہیں۔

عام شہروں اور سڑکوں پر تو ایک طرف اسلام آباد جیسے شہر میں نائنتھ ایونیو جیسی بڑی اور مصروف سڑکوں پر بھی نالا پکڑے، سکون سے مثانہ خالی کرنے والے بھی آپ کو مل جائیں گے۔ یہ شاید صرف مردوں (اسے زبر کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں پیش کے ساتھ بھی) کی سوچ رکھنے والے معاشرے میں تو ممکن ہو لیکن کسی مہذب معاشرے میں ایسا ممکن نہیں۔

غیرت اور خواتین کی عزت کا جھوٹا دعوی اور اس پر عمل بھی اس قدر ہے کہ گھر سے باہر نکل کر وہ سب بے غیرتیاں کرو جن سے بچانے کے لئے اپنی بہن بیٹی کو گھر قید کر آئے ہو۔ اول تو کسی تفریح کا حق عورت کے لئے ہے ہی نہیں اور اگر وہ باہرنکل آئے تو اسے اس قدر مجبور کردو کہ آئندہ کے لئے توبہ کر لے۔

بھائی حاشرابن ارشاد نے عید پر دھان گلی کی طرف جانے والا کالم لکھا۔ وقار ملک نے شمالی علاقوں میں ہونے والی بے ہودگی پر لکھا تھا۔ کیا یہ ایک آدھ جگہ یا ایک آدھ خاندان کا المیہ ہے؟ کیا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے؟ اگر آپ کے نزدیک یہ کوئی بات نہیں تو آپ ذہنی طور پر مہذب دنیا سے ہزاروں کوس دور ہیں یا آپ ان نابالغوں میں شامل ہیں جو اپنی خواتین کو گھر میں قید کرکے دوسری خواتین کو عجوبہ سمجھ کر دیکھنے باہر نکل آتے ہیں۔

یہ سب کہیں ہمارے ڈی این اے میں ہی شامل ہے۔ مجھے ایک مغربی ملک میں ایک پاکستانی، پردہ دار عورت سے کیے گئے سوال کا جواب نہیں بھولتا۔ جب پوچھا گیا کہ کسی مارکیٹ یا پبلک پلیس پر آپ گوروں کی موجودگی میں تو پردے کی سختی سے پابندی نہیں کرتیں، کسی پاکستانی کو دیکھ لیں تو فوراً منہ سر لپیٹنے لگ جاتی ہیں بقول سہیل وڑائچ یہ کھلا تضاد نہیں؟ جواب ملا کہ ہم برقعہ پہنے ہوئے بھی ہوں تو کبھی کسی گورے نے ہماری طرف دیکھنا بھی نہیں جبکہ اپنے لوگ وہیں کھڑے پاوں کے ناخن سے لے کر سر کے بالوں تک ایکسرے کر جاتے ہیں۔ دیدے پھاڑے اپنی نگاہوں سے برقعے اور نقاب تک کو چیرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے ان کی نگاہوں سے بچنے کے لئے پردہ کرنا زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔

اوپر بیان کی گئی باتیں صرف دیکھنے والی خواتین ہی کے لئے نہیں، مردوں کے لئے بھی بے ہودگی، بے شرمی اور کراہت کا باعث ہیں۔ عجیب غلاظت کا اشتہار بنے ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی اورتربیت ہونی بلکہ ہوتی رہنی چاہیے۔ ایسے موضوعات پر لکھیں، پڑھیں اور دوسروں کو بھی بتائیں تاکہ ان بہت بنیادی باتوں سے نکل کر کسی اورطرف سوچنے کا بھی چارہ کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).