قوالی، امجد صابری اور نوم چامسکی


\"mahnaz2\"مجھے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرنے دیجئے. امجد صابری کے الم ناک قتل سے پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ پاکستانی معاشرے میں قوالی اس درجہ مقبول ہے۔ امجد صابری کے درد ناک واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر جو شدید قسم کا رد عمل سامنے آیا، کچھ عرصہ تک تو میں اسے ایک معصوم فنکار کے خون ناحق پر لوگوں کے غم و غصہ کا بجا اظہار سمجھتی رہی۔ خود میں نے بھی سول سوسائٹی کے ساتھیوں کے ساتھ کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا اور موم بتیاں بھی روشن کیں۔ امجد صابری کی والدہ کی طرح سول سوسائٹی کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ امجد صابری کے قاتلوں کے ساتھ اس قتل کے ماسٹر مائنڈ کو بھی گرفتار کیا جائے۔ لیکن سوشل میڈیا پر لوگوں کے فوری رد عمل کے بعد جب اس طرح کے مطالبے سامنے آنا شروع ہوئے کہ پاکستان کے قومی پھول، پاکستان کے قومی کھیل کی طرح قوالی کو پاکستان کی قومی صنف موسیقی قراردیا جائے تو مجھے یہ بات عجیب سی لگی۔ صرف قوالی ہی کیوں، ہر طرح کی اصناف موسیقی کیوں نہیں۔

میرا تعلق پاکستان کی اس نسل سے ہے جس کا بچپن اپنے والدین کی بدولت ریڈیو سیلون پر بناکا گیت مالا سنتے ہوئے گزرا، ہم سب کو لتا کی میٹھی آواز سے عشق تھا۔ پروین شاکر نے اس کے بارے میں ایک خوبصورت نظم بھی لکھی تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کے لوگ سیاسی معاملات پر ایک دوسرے سے لڑتے تھے لیکن لتا کی آواز پر دونوں سر دھنتے تھے۔ ملکہ موسیقی روشن آرا اور ملکہ ترنم نور جہاں کے چاہنے والے بھی بے شمار تھے۔ غزل کی گائیکی کے شوقین لوگوں کے لئے تقسیم ہند سے قبل کی نامور گلوکاراؤں کے بعد پاکستان میں فریدہ خانم ہیں۔

پاکستان کی فلمی صنعت نے ہمیں ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ زبیدہ خانم، نسیم بیگم، آیرین پروین، مالا، سلیم رضا، احمد رشدی اور بہت سی خوبصورت آوازیں دیں۔

ریڈیو کے بعد پی ٹی وی نے اپنے سنہرے دور میں ریشماں، نیرہ نور، شہناز بیگم ، ناہید اختر اور رونا لیلیٰ سمیت کئی خوبصورت آوازیں متعارف کرائیں۔ مہناز بیگم ریڈیو سے ہوتی ہوئی آئی تھیں۔ مردوں میں عالمگیر، محمد علی شہکی، الن فقیر اور بہت سے آئے، خیر میرا مقصد گلو کاروں کی مکمل فہرست مرتب کرنا نہیں، کہنا صرف یہ ہے کہ ان گلو کاروں کی مقبولیت کے دور میں قوالی کوئی اتنی مقبول صنف نہیں تھی سوائے چند ایک فلمی قوالیوں کے قوالی کو قبولیت عام کا درجہ حاصل نہیں تھا تو پھر اچانک قوالی اتنی مقبول کیسے ہو گئی؟ اس بات پر مجھے نوم چومسکی کی کتاب ’مینوفیکچرنگ آف کنسینٹ‘ یاد آ رہی ہے تو پاکستانیو تم قوالی کو پسند نہیں کرتے، ریاست نے تم سے قوالی کو پسند کرایا ہے۔

اگر میں صرف کراچی کی بات کروں تو نو ستاروں کی تحریک شروع ہونے سے پہلے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کراچی میں نائٹ کلب ہوتے تھے۔ زیب النسا سٹریٹ اس زمانے میں الفنسٹن اسٹریٹ ہوتی تھی اور اسے پیار سے ایلفی کہا جاتا تھا، یہاں بارز ہوتے تھے جہاں شاعر، ادیب اور دانشوراسی طرح جاتے تھے جیسے چائے خانوں میں جاتے تھے۔ اسی زمانے میں ہماری ایک رشتہ دار خاتون کی شادی ڈیفنس میں رہنے والے ایک مالدار صاحب سے ہو گئی۔ جب میں پہلی مرتبہ امی کے ساتھ ان کے گھر گئی تو ان کے ڈرائنگ روم میں ایک طرف بار کاؤنٹر بنا ہوا تھا۔ ضیاالحق کا دور آیا تو وہ کاؤنٹر غائب ہو گیا اور پھر ہر ماہ ان کے گھر قوالی کی محفل سجنے لگی۔ حکمراں طبقہ یا اشرافیہ ہمارےآئیڈیاز کو کنٹرول کرتے ہیں اور تبدیلی کے شعور کو کمزور کرتے ہیں۔

چومسکی کہتا ہے کہ ایک مہذب معاشرہ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے اور منافع میں اضافہ، عوامی وسائل پر نجی قبضے کو جاری رکھنے اورحکمراں اشرافیہ کے کنٹرول کو برقرار رکھنے کے لئے عوام سے مشین کے پرزے جیسا سلوک نہیں کرتا۔ میڈیا پر کیا دکھایا جائے، اس کو بھی اشرفیہ کنٹرول کرتی ہے۔ جب کہ تاثر پریس کی آزادی کا دیا جاتا ہے۔ اور یوں والٹر لپمین کے بقول لوگ جھوٹ کا پتا لگانے کے ذرائع سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اصلی جمہوریت وہ ہے جس میں لوگوں کو سیاسی اور اس سے متعلقہ اقتصادی فیصلہ سازی میں حصہ لینے کا موقع ملے۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت کم عرصہ کے لئے اور مارشل لا لمبے عرصے کے لئے آتے رہے ہیں ، خاص طور پر ضیا الحق دور کے پاکستان کے بارے میں وہی بات کہی جا سکتی ہے جو بات چومسکی امریکہ کے لئے کہتا ہے یعنی پاکستان میں بھی نظریاتی تعلیم و تلقین کا ایک نظام وضع کیا گیا۔ قوالیاں سننے اور سرکاری خرچ پر عمرے کرنے کا رواج تب ہی عام ہوا تھا۔ اس طرح کا نظام پراپیگنڈے کی مدد سے چلایا جاتا ہے اور لوگوں کو اہم معلومات فراہم نہیں کی جاتیں تا کہ ان میں تجسس اور تبدیلی کے عمل میں شامل ہونے کی خواہش پیدا نہ ہو۔ اس صورتحال کو برقرار رکھنے میں میڈیا اشرافیہ کی مدد کرتا ہے۔

نظریاتی تعلیم و تلقین کے نظام سے نجات پانے کے لئے چومسکی عام شہریوں کو دو مشورے دیتا ہے:نمبر ایک، انہیں متبادل میڈیا کے ذریعے معلومات ضرور حاصل کرنی چاہئیں۔ (یعنی وہ میڈیا جو مین اسٹریم سے باہر ہو اور ایک مخصوص نقطہ نظر رکھتا ہو) دوم، کمیونٹی ایکشن میں شامل ہو کر انہیں تبدیلی کی طرف بڑھنا چاہئیے۔ کیونکہ لوگ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے اپنی عام ذہانت کو استعمال کر سکتے ہیں۔ اور وہیں سے گراس روٹ تحریکوں کا آغاز ہوتا ہے۔

پاکستان میں معاملہ کچھ زیادہ ہی گڑبڑ ہو گیا ہے۔ پہلے ریاست نے ہم سے قوالی کو پسند کروایا تھا۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ امجد صابری کے قتل کی ذمہ داری بظاہر طالبان (ٹی ٹی پی) نے قبول کر لی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہماری ریاست نے پالا پوسا تھا لیکن اب یہ ریاست پر ہی حملہ آور ہو رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کسی قسم کی موسیقی یہاں تک کہ قوالی بھی پسند نہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو لڑکیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑا دیتے ہیں جو پشاور میں معصوم بچوں کی جانیں لے لیتے ہیں۔ اگر انہیں قوالی پسند نہیں تو پھر ہمیں قوالی کی محفلیں منعقد کرنا ہی ہوں گی۔ طالبان کچھ بھی کر لیں ہمیں اپنی لڑکیوں کو تعلیم کے ساتھ، کھیل کود اور ثقافتی سرگرمیوں کی اجازت تو دینا ہی ہو گی اور لڑکیاں امجد صابری کی طرح قوال بھی ہو سکتی ہیں۔ جب ایک لڑکی ماؤنٹ ایورسٹ سر کر سکتی ہے تو قوالی کے فن پر عبور حاصل کرنا کو ن سا مشکل کام ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments