آپ کا کیا ہوگا جنابِ عالی؟زرداری صاحب ذرا بچ کے


کیا کہا سونامی؟ جی ہاں آچکا۔ نہیں اس سونامی سے مراد عمران خان صاحب کا اقتدار میں آنا نہیں۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ پاکستان اس وقت سیاسی سونامی کی لپٹ میں ہے جو تمام سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت کو بہاکر لے جائے گا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے ساتھ کرپشن پر زیرو ٹالرنس پر کام جاری ہے شاید یہ جانتے ہیں کہ جنرل مشرف نے این آر او کیا تھا جس کے نتائج بہتر ثابت نا ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کرپشن کے خلاف جاری آپریشن کے نتائج کیا ہوں گے؟

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی گرفتاری کے بعد اب سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری پر حکومت اور عدلیہ عقاب کی نظریں ڈالیں بیٹھی ہے۔ ظاہر اب چنا بو کر گندم کی توقع رکھنا بے وقوفی ہے لیکن ہمارے ملک کہ یہ منجھے ہوئے سیاست دان چنا بھی بوتے ہیں اور گندم بھی کھاتے ہیں۔ اور اس میں مہارت بھی رکھتے ہیں۔ عمران خان کی نوزائیدہ حکومت سے تو اتنی جلدی اس سیاسی طوفان کے برپا کرنے کی اُمید نا تھی لیکن یقیناً اسٹیبلشمنٹ شاید کلی طور پر سیاست دانوں کا صفایا کرنے اور پاکستان میں سیاسی بانجھ پن کو یقینی بنانے کا بہت فیصلہ کرچکی تھی یہ اسی فیصلے کی پہلی کڑی تھی جس کے ذریعہ عمران خان کو حکومت کا تاج پہنایا گیا۔

پہلے ایم کیوایم کا کو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کنارہ کیا گیا پھر مسلم لیگ نون کی مقبولیت میں کمی کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی اب باری ہے پیپلزپارٹی کی۔ کیا خوب محاورہ ہے، موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ، کل ہماری باری ہے تو پاکستان میں یہ محاورہ کچھ یوں رائج ہے اسٹیبلشمنٹ سے کس کو رستگاری ہے آج تمھاری تو کل ہماری باری ہے۔ اس ساری صورتحال سے جہاں وہ پارٹیز پریشان ہیں جن کے خلاف نیب اور عدلیہ ہاتھ دھو کر بلکہ نہا دھو کر پیچھے پڑی ہے وہیں پی ٹی آئی کے وزراء اپنی کامیابی کا جشن منا تے نظر آتے ہیں۔

ظاہر سی بات ہے جب اس طرح فل پروف منصوبہ بندی کے ساتھ سیاست دانوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا تو اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی اور سیاسی جماعت نا ہوگی جو عوام میں مقبولیت کا درجہ رکھتی ہو۔ لیکن جناب اندر کی خبر ہے کہ ان سب کے بعد پی ٹی آئی کے وزراء پر ہاتھ ڈالنے کی تیاری ہے۔ جس کے ذریعہ وہ کرپٹ عناصر جو پہلے بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ رہے اور اب ان کی ساری ہمدردیاں پی ٹی آئی کہ ساتھ ہیں کو بھی سائیڈ لائن کیا جائے گا۔

بہرحال وقت پڑنے پر تو گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے اسی سنہری اُصول کے تحت زیرعتاب آنے والی دونوں سیاسی جماعتوں میں محبت کی پینگیں بڑھ رہی ہیں۔ اب ظاہر ہے ایک دوسرے پر اعتماد تو رہا نہیں سو استعمال ہونے کا خطرہ قریب آنے سے روک رہا ہے لیکن دیوار سے لگنے سے پہلے دونوں جماعتوں کی قیادت یقیناًمل ہی جائے گی۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کی عددی حیثیت پر نظرڈالی جائے تویہ حکومت قانون سازی تو نہیں کرسکتی لیکن آثاریہ ہیں کہ اب کرپشن پر سزاؤں اور نا اہلی کے لئے آرڈیننس سے قانون سازی کا سہارا بھی لیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب یہ بات طے کرلی گئی ہے کہ کرپشن کے معاملے پر میڈیا اور پارلیمنٹ کی اہمیت کم سے کم رکھی جائے گی۔ صرف کرپشن کے خلاف ہی کارروائی کی جائے گی جس میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی سپورٹ پر اکتفا کیا جائے گا۔ نواز شریف کوملنے والی حالیہ سزا کے فیصلے کے بعد احتساب عدالت اسلام آباد کے مناظر کو دیکھ کر اس سچ کا سامنا ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ کو یقین ہے کہ اب سیاستدانوں کی حمایت میں کوئی عوامی مہم نہیں چلنے والی۔ مقبول ترین قیادت کو جیل میں بھی ڈال دیا جائے تو چندر درجن سے زیادہ افراد باہر نہیں نکل سکیں گے۔

اور اب پیپلز پارٹی پر گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ 2008 کے انتخابات کا انعقاد ہوا تو فضا بے نظیر کے خون سے رنگین تھی۔ اس خون کے صدقے پی پی پی اقتدار میں آئی اور آصف علی زرداری پارٹی کی قیادت سے ملک کی صدارت تک اپنی جماعت کی علامت بن گئے۔ یہ ناقص کارکردگی کا ایک دور تھا، جس نے پانچ سال مکمل کیے، مگر یہ تکمیل پاکستان پیپلزپارٹی کی حیثیت کا تکملہ بھی نظر آتی ہے۔ در حقیقت پی پی پی نے بے نظیر کی زیرک قیادت سے محروم ہونے کے بعدپانچ سال دورِ حکومت میں میں اپنی ناقص کارکردگی دکھائی اور عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔

2013 اور پھر 2018 کے انتخابات نے پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کردیا ہے۔ اور حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ وہ پارٹی جسے ذوالفقار علی بھٹو کی کرشمہ ساز شخصیت، انقلابی منشور، عوام کا دل تسخیر کرتے نعروں نے حقیقی معنوں میں ملک کی واحد قومی جماعت بنادیا تھا، جو بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت میں ملک کی سب سے بڑی جماعت بن گئی تھی اور بے نظیر بھٹو کی جری اور دانش مند قیادت نے جس کی یہ حیثیت برقرار رکھی، آج وہ پاکستان پیپلز پارٹی سمٹ کر ایک صوبے کی نمایندہ جماعت بن گئی ہے۔

اور حالات اس نہج پر ہیں کہ اگلے الیکشن میں سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کا زور ٹوٹتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اور وجہ صاف ہے جس طرح کرپشن کرکے پاکستان اور خاص طور پر سندھ کے عوام کے منہ سے نوالا چھین کر انھیں غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے جس طرح اپنے اثاثوں میں اضافے کی غرض سے ساری حدود پار کر لیں یہ سب تو ہونا ہی تھا۔ اس وقت جس کیس پر کارروائی کی جارہی ہے وہ خاص طور پر فیک اکاونٹس کیس ہے۔

2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بنک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ دی گئی۔ 2013 سے 2015 کے دوران جعلی اکاونٹس کے ذریعے 29 بے نام کمپنیوں کے اکاونٹس میں 35 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز کے شواہد ملے تھے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینک اکاونٹس اومنی گروپ کے پائے گئے جب کہ کمپنی کے مالکان اومنی گروپ میں نچلے درجے کے ملازمین اور کمپنیوں سے لاعلم تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔ یہاں ٹائمنگ غور طلب ہے۔ اومنی گروپ کے مالک انور مجید جو کے زرداری صاحب کے قریبی ساتھی ہیں پربنک انتظامیہ پر جعلی اکاونٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کی گیا۔

پانامہ ایک خاندان کی حد تک تھا۔ جو ایک خاندان کے ذوال کا باعث بنا۔ لیکن یہ فیک اکاونٹس کیس سندھ کی سیاست اور سندھ پر راج کرنے والے سیاست دانوں، سب کو اپنی لپٹ میں لے لے گا۔ جس کے اثرات آئندہ ہونے والی سیاسی صورتحال کو بدل کررکھ دیں گے۔ اس کیس میں زرادری صاحب، بلال بھٹو زرداری، فریال تالپور، سی ایم سندھ اور اہم بزنس ٹائیکون شامل ہیں۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں سابق صدر آصف زرداری کو منی لانڈرنگ ٹولے کا سربراہ قراردیاگیا ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری کوجعلی بنک اکاونٹس کا بینفشری قرار دیاگیاہے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ زرداری گروپ کا اپنا کوئی معقول بزنس نہیں لیکن پھر بھی اومنی گروپ کے ذریعہ فراڈ سے بنک قرضے حاصل کیے گئے اور اس رقم کو منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے آصف زرداری اور زرداری گروپ نے 9 اعشاریہ 52 بلین کا کمیشن لیا۔ چلیں اس دفعہ تو سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کو منی لانڈرنگ کیس بینکنگ کورٹ نے عبوری ضمانت میں 7 جنوری تک توسیع دے دی ہے۔

سونے پہ سہاگا یہ کہ تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کے صدر آصف زرداری کی نا اہلی کے لئے الیکشن کمیشن میں درخواست بھی دائر کردی ہے جس میں موقف اختیار گیا ہے کہ موصوف نیویارک میں قائم اپارٹمنٹ کے مالک ہیں جبکہ الیکشن کمیشن میں جمع کروائے جانے والے اثاثوں میں اس اپارٹمنٹ کا ذکر نہیں۔ لہذا آئین کے مطابق وہ صادق اور امین نہیں رہے سو نا اہل قرار دیا جائے۔ یعنی ہر طرف سے وار کرنے کے تمام انتظامات مکمل ہیں۔ ابھی تو عزیر بلوچ کو بھی اس گیم میں وقت آنے پر شامل کیا جائے گا۔ ظاہر ہے زرداری صاحب کے خلاف عزیر بلوچ کے دیے جانے والے تمام شواہد کو محفوظ کردیا گیا ہے۔ اور جلد ہی یہ فائل بھی کھلنے کو ہے۔

ایک طرف تو آصف زرداری کہتے ہیں کہ گرفتار ہواتو کیا ہوگا، جیل میرا دوسرا گھر ہے۔ دوسری طرف متوقع گرفتاری کی صورت میں پیپلز پارٹی نے دیگر اپوزیشن پارٹیوں سے رابطوں کے لئے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، آصف زرداری کی زیر صدارت ہونیوالے اجلاس میں شریک چیئرمین کی گرفتاری کی صورت میں احتجاج کی قیادت شہید بے نظیر بھٹو کی بہن اور بلاول بھٹو کی خالہ صنم بھٹو کرینگی۔

جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اور جمہوریت نے انتقام لے لیا۔ المیہ یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے اس مقولے کا نشانہ ان کی اپنی جماعت بنی ہے۔ اس تمام صورتحال میں پاکستان خاص طور پر سندھ کے عوام کی عدم دلچسپی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عوام جمہوریت کے اصولوں کے عین مطابق اپنا انتقام لینے کاعندیہ دے چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).