کراچی شہر میں کچھ نہیں بدلا


سن انیس سو چورانوے کی بات ہے، میرے چچا کراچی کے ایک بینک میں کام کیا کرتے تھے بڑے محنتی اور ایمان دار تھے۔ اللہ پاک نے دو بیٹیاں اور ایک بیٹے سے سے نواز تھا۔ بچوں کی پیدائش کے بعد موٹرسائیکل پہ سفر مشکل لگنے لگا تو گاڑی کے لئے پیسے جمع کرنا شروع کردیے۔ بالآخرایک دن گاڑی لینے کے قابل ہوہی گئے۔ گاڑی خرید کرگھر آئے بیوی بچوں کو گاڑی دیکھاکر نارتھ ناظم آباد اپنی بہن کوگاڑی دکھانے کا کہ کرنکلے مگر شومئی قسمت راستے میں گن پوائینٹ پہ گاڑی چھینے کی واردات ہوگئی۔ جاندار تھے اس لیے بھڑ گئے اور ایک ڈکیت کو دبوچ لیا۔ یہ دیکھ کردوسرے ڈاکونے فائرکھول دیا۔ گولی سیدھے دل پر لگی اور دوگھنٹے تڑپنے کے بعد وہ شہید ہوگئے آخر وقت تک وہ ڈاکٹروں سے التجا کرتے رہے کہ انہیں بچا لیاجائے لیکن موت یقینی تھی۔

یہاں ایک صاحب جن کا ذکر کررہی ہوں وہ کراچی میں ایجوکیشن کے چئیرمین عمران بھائی شہید ہیں۔ وہ بہت دنوں سے پریشان تھے۔ ایک دن صبح بسترسے اٹھے تو بیگم سے کہنے لگے کہ آج خواب میں اپنی والدہ کودیکھا ہے اور وہ انہیں اپنے پاس بلا رہی ہے یہ کہ کہ ہنس دیے اور کہنے لگے کہ شاید وقت پورا ہوگیا ہے اس لئے ایسے خواب آرہے ہیں۔ دو دن ہی گزرے تھے کہ کہیں کچھ لوگوں سے ملنے جانا پڑا ابھی سلام دعا ہی ہوئی تھی کہ پاس میں ایک بائیک آکر رکی اور دو لوگ اترے انہیں دیکھ کر وہ آگے بڑھے اور ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا اور ساتھ ہی بولے ارے بڑے دنوں بعد ملاقات ہوئی بس اتنا ہی کہ پائے تھے کہ آنے والوں میں سے ایک نے فائرنگ کرکے انہیں شہید کردیا۔ لمحے بھی نہی لگے اور وہ شہید کردیے گئے۔ یہ دوہزار آٹھ کی بات ہے۔

اور آج پھر ایک پڑھا لکھا بردبار انسان لمحوں میں موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔ آج دس سال گزرنے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے ہم وہیں کے وہیں موت کے دھانے پہ کھڑے ہیں۔ کچھ بھی تو نہی بدلا، کچھ بھی نہی۔ نا عمران بھائی کی موت نے کوئی کایا پلٹی اور نہ ہی علی زیدی کی موت کچھ انوکھا کرلے گی۔

مجھ جیسے حالات کی مار پڑنے کے بعد مفکر بننے کی ناکام کوشش کرنے والے اس منظر نامے سے خوف زدہ ہوجائیں گے۔

کئی سالوں کی اذیت سے گزر کر امیدیں بندھ گئیں تھیں کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ لیکن افسوس کچھ نہی بدلا۔ وہی موت کے فرشتے وہی طریقہ واردات وہی چار دن کا رونا بس۔

پچھلے کئی سالوں سے جاری کراچی آپریشن کے نتائج تویہ ہوناچاہیے تھے کہ ہرطرف امن ہوتا لوگ بے خوف خطر اپنا موبائل استعمال کررہے ہوتے۔ محلے میں گارڈ نہ رکھنا پڑتے لیکن افسوس کچھ نہی بدلا کراچی میں بدامنی کینسر کی طرح پھیل چکی ہے۔ موت آج بھی اسی طرح رقصاں ہے جیسے پہلے تھی۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ کراچی شہر کو امن کا گہوارہ بنا دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).