قلعہ بند محفوظ اقلیتیں اور امریکی رپورٹ


گزشتہ دنوں امریکا کی جانب سے جاری ہونے والی ایک سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جہاں مذہبی حوالے سے شدید خدشات پائے جاتے ہیں اور اس سے ایک برس قبل پاکستان کو مذہبی آزادیوں کے حوالے سے نگرانی کی ایک فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے کڑی تنقید کرتے ہوئے اس فہرست کو کئی وجوہ کی بنا پر مسترد کیا گیا، جن میں سے تین کا طائرانہ جائزہ ذیل میں پیش ہے۔

1۔ ’پاکستان کو اپنی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی ملک کے مشورے کی ضرورت نہیں۔

بجا فرمایا۔ پیارے وطن کی سالمیت اور خود داری سدا قائم رہے، لیکن اگر کسی امر میں اپنی تمام کاوشیں کام یاب ہوتی، نظر نہ آئیں تو دانش مندانہ اور صالحانہ طریق یہی ہے کہ کسی سے مشورہ کر لیا جائے، چاہے دیوار ہی سے۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے، کہ ہمارے ملک میں اقلیتوں کا جس طرح معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور خاص طور پر مذہبی کچومر نکالا جا رہا ہے، وہ عدیم المثال ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ”دنیا بھر میں توہین مذہب کے نصف سے زائد قیدی پاکستانی جیلوں میں ہیں“ اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ توہین مذہب کے یہ نصف سے زائد قیدی سبز ہلالی پرچم کے 96 فی صد سرٹیفائیڈ مخلص مسلمان تو نہیں ہو سکتے، اگر ہیں تو رہے سہے 4 فی صد اقلیتی افراد جو مذہبی مجانین (مجنون کی جمع) کا آسان ہدف ہیں۔ اگر پاکستان میں اقلیتیں واقعی محفوظ ہیں تو باقی دنیا کی نسبت اس قدر قید و بند کی صعوبتیں کیوں؟

2۔ ’پاکستانی حکومتوں نے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو ملک کے قانون اور آئین کے وضع کردہ حقوق کے مطابق تحفظ فراہم کرنے کو فوقیت دی ہے‘ ۔

اقلیتیں؟ حقوق؟ تحفظ؟ کس قانون کی بات ہو رہی ہے؟ جو قانون اور آئین ہی بنیادی طور پر اقلیتوں کی بیخ کنی بنانے کے لئے بنایا گیا ہو، اس کی آڑ میں حقوق اور تحفظ بات کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسا امریکا اپنے خود ساختہ قوانین کی روشنی میں افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور تیسری دنیا کے دیگر غریب ممالک کو حقوق کی فراہمی اور تحفظ کی آڑ میں، پر امن بم باری کر رہا ہے۔ کیا کوئی سعید الفطرت اور سلیم القلب انسان امریکا یا اس جیسے دیگر ممالک کے ان حملوں کے قانونی اور آئینی جواز کو درست مان سکتا ہے؟ اور اگر درست ہے تو مبارک ہو آپ کے لئے امریکا کا اتحادی بن کر جہاد کرنے کا دروازہ کھل گیا۔

3۔ ’اعلیٰ عدلیہ نے اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور املاک کے تحفظ کے لئے کئی اہم فیصلے دیے ہیں‘۔

بجا فرمایا، لیکن وہ اہم فیصلے بھی انگلیوں پر گِنے جا سکتے ہیں، اور نہ جانے اس کے علاوہ وطن ِعزیز کی چار فی صد اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے کتنے افراد ہوں گے، جو اربابِ اختیار اور نام نہاد علما کی اسلام کو بچانے کے لئے بھیانک کوششوں کے نتیجے میں ابھی تک آہنی سلاخوں کے پیچھے، اس مذہبی جنون میں مبتلا قوم کی خدائی اصلاح کا انتظار کر رہے ہیں اور ان کے علاوہ کتنے ہی ہیں، جو ان مذہبی درندوں کا من پسند شکار بن گئے۔ چاہے ان کا تعلق شیعہ برادری، احمدیوں، عیسائیوں یا کسی اور اقلیت سے ہو۔ فکر کن بات یہ ہے کہ اگر ہمارے ملک میں ہر گروہ کو حقیقتاً مذہبی آزادی حاصل ہے، تو ہمیں ایسے قوانین کی آڑ میں چھپنے کی ضرورت ہی کیا ہے، جن میں بین الاقوامی برادری کو اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور املاک کے تحفظ کی محض لفظی یقین دہانی کروائی جاتی ہے۔

قارئین میں سے جن کا تعارف یا تعلق کسی اقلیتی فرد سے رہا ہو، وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ بچپن کی ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ درجے کی تعلیم اور اس کے بعد عملی زندگی میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اپنے احمدی، عیسائی یا شیعہ ہونے کا کھلم کھلا اظہار کر کے اپنے معاشرے میں حقیقی مقام یا عزت تو دور کی بات، جان تک کی امان نہیں پا سکتا۔ اپنے مذہب، خواہ اس کے جو بھی عقائد ہوں، کا پرچار تو بہت اگلے درجے کی بات ہے۔

فرانس، ڈنمارک، بیلجئیم یا آسٹریا جیسے ممالک کی طرف سے جب مسلمانوں پر مکمل نقاب یا برقعہ اوڑھنے پر پابندی لگائی جاتی ہے، تو وہ خواتین بھی جنھوں نے کبھی خواب میں بھی برقعہ نہ پہنا ہو گا، اس پابندی کے خلاف جلاؤ گھیراؤ کر کے اپنا احتجاج رِکارڈ کرواتے ہوئے نہیں تھکتیں۔ سوال بس اتنا سا ہے کہ کیا ہمارے مرد و زن اور خاص طور پر سیاسی رہنماوں نے مغربی ممالک کی ان پابندیوں پر تنقید کرنے سے قبل کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی تکلیف گوارہ کی، کہ ان کے اپنے وطن میں اقلیتیں سسک سسک کر دم توڑ رہی ہیں اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہے؟ مذہبی راہنماوں سے سوال کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ نجانے کس اینٹ تلے سے قتل کا فتوٰی بر آمد ہو جائے۔

ہو سکتا ہے کہ امریکی رپورٹ محض ایک سیاسی حربہ اور اس سے دیگر مقاصد کا حصول ممکن بنانے کے لئے پاکستان پر دباؤ ڈالنا ہو، مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں تمام تر روشن خیالی کے باوجود بھی، اس قدر عدم تحفظ کا شکار ہیں کہ ان میں سے اکثر قلعہ بند ہو کر اپنی عبادات بھی بندقوں کے سایہ تلے ادا کرتی ہیں۔

خدا را اپنے اس دُہرے معیار سے باہر آئیں، کہ جب بین الاقوامی سطح پر آپ سے اقلیتوں کے تحفظ اور حقوق کی بابت پوچھا جائے، تو ایک موقع پر وزارت خارجہ حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے سچائی کا دامن تھامے رہے، اور یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ”ہم اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ غیر محفوظ سلوک پر پاکستانی ہونے پر شرمندہ ہیں“۔ یا دوسری طرف یہ حال ہو کہ راوی چین چین ہی لکھے اور حقیقت کو قبول کرنے سے بھی انکار کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).