اعتکاف، لسی، فوڈ چینلز اور خدمت


\"naseerہمارے ایک نوجوان صحافی دوست نے گزشتہ سال اجتماعی اعتکاف کے بعد بتایا کہ وہ اعتکاف کے دوران اور کچھ نہ ہو سکا تو لسی بنانا سیکھ گئے تھے۔ اس پر ہم نے کہا کہ عزیزم اگر اسی طرح لگاتار ہر سال اعتکاف بیٹھتے رہے تو دو چار سال یعنی دو چار \”اعتکافات\” کے بعد آم کاٹنا، چٹنی بنانا، چاٹ مکس کرنا بھی سیکھ جائیں گے اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو انشااللہ چند برس بعد ذائقوں، مسالوں اور پکوانوں والے ٹی وی چینلز پر آنے لگیں گے۔ یوں ذائقہ، ثواب، ذوق اور فیم یکجا ہو جائیں گے۔ ان چینلز پر جس طریقے سے کھانوں پکانوں سے زیادہ نت نئے ملبوسات، زیورات اور فیشنز کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور شخصیات کو گلیمرائز کیا جاتا ہے اس سے ناظرین کی حسِ ذائقہ ہی نہیں پانچ اندری یعنی پانچوں حسیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ سچ پوچھیں تو جب اتنے نازک نازک ہاتھوں کو پہلے سے کٹی ہوئی سبزی کاٹتے اور پہلے سے پکائی ہوئی ڈشز کو پکاتے دیکھتے ہیں تو ہماری چھٹی حس بھی بیدار ہو جاتی ہے۔ بعض پروگراموں کے شیف تو شیف کم اور \”فیشن پلیٹ\” زیادہ لگتے ہیں۔ ایک پروگرام میں تو ہم نے شیف صاحب کو کھانا پکانے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ڈانس کرتے دیکھا۔ ہر مسئلے کا حل کچھ آپاؤں کے ٹوٹکے تو خاص و عام میں مشہور ہیں۔ کچھ میزبان خواتین یا آپائیں پکوانوں کی تراکیب کم اور حکمت اور محبت کے نسخے، ٹونے سلونے اور کالے چٹے جادو کے توڑ کے تیر بہدف قسم کے ٹونے ٹوٹکے زیادہ بتاتی ہیں۔ کچھ \”میزبانیاں\” مرچ مسالوں والے کھانے بناتے ہوئے اتنی میٹھی میٹھی باتیں کرتی ہیں کہ لگتا ہے خود سویٹ ڈش بن کر پلیٹ میں سج جائیں گی۔

ہمارے دوست نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے کچی لسی بنانا سیکھا تھا یا پکی لسی۔ کچی لسی پانی میں دودھ ملا کر بنتی ہے جسے آجکل کے گوالے دودھ کہہ کر بیچتے ہیں حالانکہ اس میں دودھ کا شائبہ ہوتا ہے۔ دودھ بقدر اشکِ بلبل باقی سب پانی ہی پانی۔ جبکہ پکی لسی دہی بلونے سے بنتی ہے۔ کچی پکی کا فرق سمجھنا بڑا ضروری ہے۔ کیونکہ \”کچی ریندی دستر خوان کا ضرر\” اور \”پکے آم کے ٹپکنے کا ڈر\” ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے انہوں نے ابھی کچی لسی ہی بنائی ہو گی کیونکہ ان کا اعتکاف بھی پکا نہیں نفلی تھا اور موسم بھی آموں کا تھا۔ رہی چینلز کی بات تو رمضان کے شو اور افطاریاں اور سحریاں دیکھ کر وثوق سے پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ آنے والے رمضانوں میں ان پر \” اعتکافی \” پکوانوں اور کھانوں کے مقابلے بھی شروع ہو جائیں گے جن میں ٹونگا ٹانگی یا چکھا چکھی کرنے کے لیے \”چینلی\”، \”فیس بُکی\” اور \”قندیلی\”قسم کی بیبیاں اور مولانا حضرات بلائے جائیں گے۔ چکھنے کے لیے بھی پلیٹیں نہیں ڈونگے بھر بھر رکھے جائیں گے اور چکھنے یا ٹونگنےکی اداکاری کی بجائے سکرین پر پیٹ بھر کر کھانے کی مشق کی جائے گی۔ گمان غالب ہے کہ سویٹ ڈشیں بشکل حلوہ بنانے والے یہ مقابلے جیت لیا کریں گے۔

یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ گھروں میں تو کچن عموماً عورتیں سنبھالتی ہیں۔ عموماً اس لیے لکھا ہے کہ ہر شعبے میں استثنا ضرور ہوتا ہے۔ اس معاملے میں بھی ہم نے بعض گھروں میں یہ فریضہ مردوں کو سنبھالے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر گھر کے کچن میں عورتوں کی حکومت چلتی ہے اور وہ اس کارِ سرکار میں مردوں کی مداخلت پسند نہیں کرتیں۔ ہم نے خود یہ تجربہ کر کے دیکھا ہے، گوشت کی فرمائش کریں تو کدو کھانے کو ملتے ہیں۔ دال کی اشتہا ہو تو قورمہ پیش ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ہم نے اب کچن سرکار سے کہنا ہی چھوڑ دیا ہے اور کچن سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے خود ساختہ کچن کیبنٹ توڑ دی ہے اور کچن گارڈن یا رسوئی باغ کے مالی کے عہدے سے بھی خود ہی سبکدوش ہو گئے ہیں۔ اب جو مل جاتا ہے اسی پر صبر و شکر کر لیتے ہیں اور \”مزے کا ہے\” کہنے کی عادت اپنا لی ہے۔ خیر ذکر ہو رہا تھا فوڈ چینلز کا۔ ان چینلز پر معاملہ الٹا ہے۔ یہاں \”کچی مچھلی پکی مچھلی\” کہنے یعنی کھانے کے وقت پکی ہوئی چیز میں نقص نکالنے کا رواج نہیں، یہاں آخر میں ہر چیز لذیز اور فرحت بخش ہوتی ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی بچے سونے کے نوالے چھوڑ کر \” ڈش \” کھانے کی ضد کرنے لگے ہیں۔ عید سعید پر صبح صبح سویوں کے بجائے نت نئی ڈشز کی تراکیب سننے کو ملتی ہیں۔ کھانے کو اس لیے نہیں کہ یہ نسخہ ہائے پکوان اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ صرف پرانے دور کے نوابی اور شاہی اور آج کے سیاسی دستر خوانوں کی زینت بن سکتے ہیں۔ ان چینلز پر \”ڈش بازی\” میں مردوں کی اکثریت نہیں تو برابری ضرور ہے۔ شاید اسی لیے شیف مذکر ہے اور شیفس کا ذکر ہم نے کبھی نہیں سنا۔ ہوٹلوں میں بھی شیف اور چیف شیف مرد ہی ہوتے ہیں۔ حیرت ہے ابھی تک حقوقِ نسواں کی تحریک کا اس طرف دھیان نہیں گیا ورنہ ان ہوٹلوں کی ہنڈیا بھی بیچ چوراہے میں پھوٹی ہوتی اور ان میں بھی بگھارا ہوا قورمہ اور شوربے والی دال ملتی۔ اس پر ہمیں ایک سچا واقعہ یاد آ گیا ہے۔ جن دنوں ہم ملازمت کے سلسلے میں گھر سے دور تھے تو ہمارے ساتھ ایک شاہ جی کمپنی کے مہیا کردہ وِلا میں رہائش پذیر تھے۔ باقی سب کچھ تو کمپنی کے ذمہ تھا مگر کھانا خود پکانا ہوتا تھا۔ ہمارے ولا میٹ شاہ صاحب نے، جو ثبوت کے طور پر نام کے شروع میں سید اور آخر میں شاہ بخاری لکھا کرتے تھے، پہلے دن ہی کہہ دیا کہ انہیں کچھ پکانا نہیں آتا سوائے برتن دھونے کے۔ جانے کیوں ہمیں لگتا تھا کہ وہ ڈھونگ رچاتے تھے ورنہ اور کچھ آئے نہ آئے انڈہ تو سب ہی ابال لیتے ہیں۔ لیکن وہ تو بقول ان کے پانی ابالنا بھی نہیں جانتے تھے۔ ایک روز پلاؤ بنانے کا پروگرام بنا اور ہم نے ان سے کہا کہ چاول اچھی طرح دھو کر اور بھگو کر رکھ دیں۔ کہنے لگے صرف پانی سے دھونے ہیں یا برتن دھونے والے لیکوئڈ سے۔ ہمیں غصہ بھی آیا اور ہنسی بھی۔ ہم نے غصے اور مذاق کے ملے جلے انداز میں کہا کہ برتن دھونے والے صابن سے۔ تھوڑی دیر بعد ہم کچن میں گئے تو وہ سچ مچ خوب جھاگ بنا بنا کر چاولوں کو برتن دھونے والے لیکوئڈ سے دھو رہے تھے۔ بس ہمیں یقین ہو گیا کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں کہ انہیں کھانا پکانا نہیں آتا۔ کوئی اتنا معصوم کیسے ہو سکتا ہے۔ ویسے وہ سید زادے تھے کچھ بعید بھی نہیں۔ ہم نے اکثر سید زادوں کو عجیب عجیب کام کرتے دیکھا ہے۔ ایک بار گرمیوں میں گاؤں جانا ہوا۔ دیکھا کہ ایک سید زادے شیشم کے ایک درخت کی سب سے اونچی شاخوں پر چارپائی بچھائے بلکہ چڑھائے مزے سے سو رہے تھے۔ پتا چلا کہ یہ ان کا محبوب مشغلہ ہے خاص طور پر دوپہر کے استغراقی اوقات میں اور آندھی بارش کی صورت میں بڑی منت سماجت کے بعد نیچے اترنے ہیں۔ شاید یہ رمز کی باتیں ہیں جو ہماری جٹکا سمجھ میں نہیں آتیں۔ ہمیں یاد ہے ہمارے بچپن کے استاد محترم شاہ صاحب بھی باکمال شخصیت تھے۔ باقاعدگی سے عرس کراتے تھے اور پورے گاؤں کے لیے دال کا لنگر مفت ہوتا تھا جس میں ہم بھی کئی بار شکم سیر ہوئے، لیکن خود شاہ صاحب بھنے ہوئے چوپائے اور پرندے تناول فرماتے تھے۔ ان کا ایک اور کمال تو پوری زندگی جاری رہا یعنی انہوں نے تا دمِ مرگ شادی نہیں کی۔ جن نکالنا خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کے، کیونکہ وہ جن پڑتے ہی نوجوان لڑکیوں کو تھے، اور شک کرنے والوں کو جنات کا دیدار کرانا ان کا عام وصف تھا۔ ایک بار ہمارے ایک رشتہ دار کو جن دیکھنے کے شوق میں اپنے موکلین یعنی شاگردوں سے وہ \”پتھرول\” کرائی کہ وہ بےچارے زندگی بھر کے لیے یک چشم جن بن کر رہ گئے۔

ہمارے دوست نے اس اعتکافی اجتماع میں لسی بنانے کے علاوہ خدمتِ خلق بھی جی بھر کر کی۔ جیسے اعتکافیوں کے کپڑے دھونا، ان کی جوتیاں سیدھی کرنا، ہاتھ دھلانا، وضو کرانا، ان کے لیے کھانا لگانا، ان کے سونے جاگنے کے اوقات کا خیال رکھنا وغیرہ وغیرہ۔ صحافتی انداز کی خدمتِ خلق تو وہ پہلے بھی خوب کرتے تھے لیکن اس اعتکاف کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ اب وہ باقی زندگی صحافت کم اور خدمت زیادہ کریں گے۔ کتنا اچھا ہو اگر ہم سب عملی زندگی میں ایک دوسرے کے لیے اس طرح کے چھوٹے چھوٹے احساس، خیال اور جذبے والے کاموں کو مستقل اپنا شعار اور علامتِ امن بنا لیں۔ یقین کیجیئے معاشرے سے ساری دہشت و وحشت ختم ہو سکتی ہے۔ روحانی سکون سے لبریز دلوں سے بڑی جنت کوئی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments