آئی ایم ایف سے بے نامی اکاؤنٹس تک


دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر جولائی انیس صد چوالیس میں تمام چوالیس اتحادی ممالک کے وفود کی موجودگی میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جسے بریٹن ووڈ کانفرنس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب براہ راست سامراجیت کے خاتمے کی تحریکیں ایشیا سے لاطینی امریکہ اور افریقی ممالک تک پھیل چکی تھیں۔ مسلسل دو جنگوں نے مغربی اقوام کو ان صلاحیتون سے یکسر محروم کردیا تھا کہ وہ ان خطوں پر اپنا تسلط برقرار رکھ سکیں۔ جاپان تباہ حال تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب امریکہ جارج واشنگٹن کی ڈیڑ ہ سو سالہ تنہائی کی حکمت عملی کو ترک کرکے عالمی نظام حکومت میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنا چاہتا تھا۔ اسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سامراجیت کے جدید آلہ جات کی ضرورت در پیش تھی جو واشنگٹن ڈی سی مین منعقدہ کانفرنس سے وجود میں آئے۔

اقوام عالم کو نئے عالمی مہاجن کے زیر اثر رکھنے لانے کے لیے سرمائے کے جدید نظام ترسیل کو ترتیب دینے کی ضرورت تھی۔ ایسا اسی صورت ممکن تھا کہ مختلف اکائیوں پر مشتمل ایک جامع اور مربوط نظام زر متعارف کروایا جائے۔ اس مقصد کی تکمیل انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ، ورلڈ بنک، اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائیزیشنز کے قیام کے ذریعے ممکن بنائی گئی۔ ملٹن نیشنل کارپوریشنز کے ذریعے ان اداروں کے باہمی روابط کو مضبوط کیا گیا اور گلوبل ساؤتھ کی پسماندگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وسائل کو خام حالت میں گلوبل نارتھ منتقل کیا جانے لگا۔

عالمی بینک کے ذریعے تباہ حال اقوام کو ڈویلپمنٹ فنڈ فراہم کیا جاتا ہے جس پر عالمی قوتوں کی منشا کے مطابق خرچ کرنے کی مذموم شرائط نافذ ہوتی ہیں۔ ایسے منصوبوں سے مقامی وسائل کو ملٹی نیشنل کارپوریشنز کی وساطت سے انہی اقوام کو بین الاقوامی قوانین اور کرنسی کے تحت فروخت کیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے یہ ممالک سرمائے کی قلت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کے لئے آئی ایم ایف میدان میں سے موجود ہے۔ یہ سود در سود کا ایسا نظام ہے کہ جو ایک بار اس کے چنگل میں پھنسا وہ اسی کا ہو رہا۔

عالمی بینک کی طرح یہ قرضہ جسے جدید دور کی امداد کہا جاتا ہے بھی عالمی طاقتوں کی کڑی شرائط پر منحصر ہوتا ہے۔ اکنامکس کی ایک شاخ ہولیٹیکل اکنامکس ہے۔ اس کے مطابق طاقتور اقوام کمزور ملکوں کی اکانومی کا استحصال کرتی ہیں جس کا بہترین ذریعہ اپنی شرائط پر قرض دینا ہوتا ہے۔ سب سے پہلی شرط اس ضمن میں جو رکھی جاتی ہے وہ یہ کہ اس سرمائے کا مصرف وہ خود طے کرتی ہیں۔ دوسری شرط یہ کہ مقامی کرنسی کو ڈیویلیو کیا جاتا ہے جس سے افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لوگوں کی قوت خرید کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ مزید کڑی شرائط میں اداروں کی نجکاری اور دفاعی استعدادکار کی کمزوری شامل ہیں۔ یہ وہ عوامل ہیں جو عصر حاضر کی مہذب سامراجیت کو مضبوط کرکے طاقت کو مٹھی بھر لوگوں میں مرکوز کرنے کا سامان بنتے ہیں۔

پاکستان جیسے وسائل سے مالا مال لیکن ترقی پذیر ممالک ان اداروں کا ہدف ہوتے ہیں۔ جن ممالک کو دیانتدار قیادت میسر آجائے وہ تمام تر پسماندگیون کے باوجود ملائشیا، انڈونیشیا اور چین کی طرز پر معاشی خوشحالی اور تروی کی منازل طے کرلیتے ہیں۔ ان کے برعکس، انیس سو اٹھاسی سے اب تک پاکستان بارہ مرتبہ آئی ایم ایف پلان لے چکا ہے۔ اگر خطے کے دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو بھارت نے صرف ایک بار یہ غلطی کی۔ نیپال اور بنگلہ دیش دو دو بار قرض لے چکے ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہی ہوتی، افریقہ کے پسماندہ ترین ممالک بھی اس لسٹ میں پاکستان سے بہت نیچے ہیں۔ پانامہ اور فلپائن کے بعد پاکستان کا نمبر آجاتا ہے۔ یوں ایک مماثلت پانامہ کے ساتھ ہماری قائم ہوتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بھارت جیسے بڑے ملک کے ساتھ اسلحہ کی دوڑ اس سب کی وجہ ہے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دوڑ تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ اس بیچ تین جنگیں بھی لڑی گئیں، ملک ایک حصے سے محروم ہوگیا، ملک پر غیر سیاسی حکومتیں قائم رہیں، لیکن اس سب کے باوجود معاشی اعشاریوں کا گراف بہتری کی جانب گامزن رہا۔ ملک میں ایٹمی پروگرام بھی اس دوران جاری رہا اور ڈویلپمنٹ پروجیکٹس بھی لگتے رہے لیکن قرضوں کا حجم اس قدر ضخیم نہ ہوسکا۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک توانائی کے جو بڑے منصوبے لگے ان میں تربیلا ڈیم اور منگلہ ڈیم جیسے بڑے ذخیرے اسی دور میں تعمیر ہوئے۔ نوے کی دہائی میں ایسا کیا بھونچال آیا کہ اس قدر قرضوں کی ضرورت پیش آئی۔

نوے کی دہائی میں ایک پروجیکٹ مکمل ہوا اور وہ تھا موٹروے M 2 کی تعمیر۔ میاں نواز شریف کا یہ کارنامہ اور احسان قوم لاکھ جتن کرلے، نہی اتارسکتی۔ اگر اس پر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ اس پروجیکٹ کے لیے آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض استعمال نہی ہوا۔ اس وقت ایک کورین کمپنی ڈائیوو سے 379 ملین ڈالر کا قرضہ لیا گیا تھا۔ جس پر سود کی شرح اس قدر بھاری تھی کہ اس وقت کے NHA کے چیئرمین کے مطابق موٹروے کی سالانہ آمدن ادا کیے جانے والے سود کا اعشاریہ چھ فیصد بنتی تھی۔

آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض دراصل پاکستان میں اٹھاسی کے بعد قومی سیاست کے چیمپینز نے پانامہ لندن اور مے فیئرز اپارٹمنٹس خریدنے میں لگادیا۔ اس فنڈ سے بے نامی اکاؤنٹس کو بھرا گیا۔ سرے محل اور نیویارک اپارٹمنٹس قائم کیے گئے۔ اس دوران قوم کو نیلی پیلی ٹیکسیوں، لیپ ٹاپس، اور انکم سپورٹ سکیموں میں الجہادیاگیا تاکہ وہ یہ کہنے کے قابل ہوجائیں کہ کھاتے ہیں تو کھلاتے اور لگاتے بھی ہیں۔ اگر کچھ لگایا تو وہ قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا اور اس شدت سے لگایا کہ ابھی کل کی بات ہے ایک شہزادہ سکول کے بچوں کو چیخ چیخ کے سبق پڑھارہا تھا کہ کیا ہوا جو کرپشن ہوئی، ملک ایسے ہی چلاکرتے ہیں۔

اتنی اتنی کرپشن ہنس کھیل کے برداشت کرنی چاہیے تاکہ جمہوریت خطرے سے دوچار نہ ہو۔ پاکستان کا کیا ہے چلتا رہے گا آئی ایم ایف کے سہارے۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ یہی نہ کہ ادارے بے مول بیچ دیے جائیں گے تاکہ وہ کے الیکٹرک کی طرح عوام کا استحصال کرسکیں۔ بہت ہوگا تو حال ملتان کڈنی انسٹیٹیوٹ کا سا ہوجائے گا جہاں استعمال شدہ کیمیکلز سے ڈائیالیسز کا عمل سرانجام دیا جائے۔ اس سے زیادہ اگر کچھ ہوا تو یہ ہوجائے گا کہ ان اداروں کی فروخت سے ملک کی ہنر مند افرادی قوت بے روزگار ہوجائے گی اور تعلیم یافتہ ڈاکٹرز، انجینئرز تارکین وطن کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔

اب ایک بار پھر آئی ایم ایف کے دروازے پہ دستک دی جارہی ہے۔ خیر سے ان کے مطالبات کو تسلیم کرلیا جائے گا اور قرض مل بھی جائے گا۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ اس بار اس کا مصرف ملکی ترقی کے لیے ہوگا یا پھر ایسے ایسے کاموں پر لگے گا جن کا احتساب کرنے سے جمہوریت کی ناک بہنے لگتی ہے اور ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔ بس یہ کوئی نہ پوچھے کہ کس قسم کی جمہوریت اور کن لوگوں کی ترقی۔ پاکستان کا کیا ہے پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے کہ بابائے قوم فرماگئے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نہی مٹاسکتی۔ پاکستان زندہ باد۔ جمہوریت پائندہ باد۔ جیے بھٹو۔ میاں تیرے جاں نثار بے شمار بے شمار۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ جمہوریت قائم رہے، جمہور کا بے شک بیڑہ غرق ہوجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).