خوشی چاہیے؟ رسی سے محبت کریں!


اتنی محنت کے بعد بھی اک ذرا سی بھول پہ کھانا جل جائے، تو یہ ہمارا قصور تو نہیں ہوتا۔ لاکھ محنت کے بعد امتحان میں کچھ بھول جائے، تو اسے بھول تو نہیں کہتے۔ دل و جاں سے نباہے رشتوں میں ذرا سا فاصلہ آ جائے تو دل کے آئنوں پہ لگی گرد کو دھول تو نہیں کہتے!

ہم کتنی محنت سے دنیا کا ہر اک کام، ہر اک رشتہ نبھاتے ہیں۔ اک ذرا سی غلطی یہاں معاف ہو بھی جائے تو بھی معلوم ہوتی ہے، محسوس ہوتی ہے۔ سچ ہے کہ زندگی کی ڈوریں سلجھاتے سلجھاتے ہماری اس رسی پہ گرفت کم زور ہونے لگتی ہے۔ وہ رسی جس کا ایک سرا ہمارے ہاتھ میں ہے اور دوسرا۔ اللہ کے ہاتھ میں! وہ جسے رب کے پیام برِ آخری نے قرآن کہا تھا۔ ہمیں اللہ کو اپنی روزمرہ کے معمول کا حصہ بنانا مشکل لگتا ہے۔ بلکہ سچ بتاؤں؟

جب ہمارے کام غلط ہی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مشکلات بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔ ڈوریں سلجھائے نہیں سلجھتیں۔ تو ہم اللہ سے الجھنے لگتے ہیں۔ ہم اس سے ناراض ہونے لگتے ہیں۔ کبھی بہت دور جا کر احساس ہوتا ہے۔ ہم واپس آنا چاہتے ہیں، مگر شرمندگی ہمیں ڈھانپ لیتی ہے۔ دنیا میں ہماری معمولی غلطیاں بھی اتنی نمایاں محسوس ہوتی ہیں تو یہ اتنے بڑے بڑے گناہ؟ اتنی طویل دوریاں؟ تب دل اضطراب کے سمندر میں ہچکولے کھاتا محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اور جب رگِ جاں ہی دبی ہوئی ہو تو اپنا سانس بند ہوتا معلوم ہوتا ہے۔

جنت۔ کبھی سوچیں ہم۔ اتنی بڑی۔ وہ ہم سے چھوٹوں کو کہاں ملے گی؟
ہم کہ گناہوں کے سمندر میں ہاتھ پاؤں مارنے والے۔ جنت کی نہروں کے سزاوار کہاں ہوں گے؟
لاکھ محنت کے بعد امتحان میں ذرا بھی بھول پہ ہم ہفتوں خود کو تسلیاں دینے والے، کہ اسے بھول تو نہیں کہتے، آخر انسان ہیں ہم۔ ہم سے انسان عمر بھر کا امتحان بغیر پڑھے دینے کس منہ سے جائیں گے؟ ہم کہ اللہ سے ناراض رہنے والے، اس کے راضی ہونے کی امید رکھیں تو کس بل پر؟ دل ہارتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سانس بند ہوتا معلوم ہوتا ہے۔

جب ہم سب کچھ ہار کر مایوسی کے سوکھے پیڑ تلے آ بیٹھتے ہیں تو کہیں دور سے اک آواز آتی محسوس ہوتی ہے۔ خوب صورت، دل نشیں۔ ہاں سچ! آپ لاکھ جھٹلائیں مگر وہ آتی ہے۔ ایسے ویرانے میں بھلا کون ہے جو آ کے رس گھول جاتا ہے؟ روح تک کے الجھاؤ کھول جاتا ہے؟ وہ کہتا ہے:
”جب خدا ترس لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے جو تمھارے رب کی طرف سے نازل کی ہوئی ہے؟ “

آپ سن رہے ہیں۔ اللہ سے ڈرنے والے لوگوں سے سوال کیا جا رہا ہے۔ آپ اللہ سے ڈرتے ہیں؟ ہاں، یقیناً۔ اس خوف کی وجہ ہی سے تو آپ سب کچھ بھول کر یہاں آ بیٹھے ہیں۔ اپنی کمی کوتاہی پہ نادم ہیں، اسی لیے۔ یعنی یہ سوال آپ سے ہے۔ پوچھا جا رہا ہے:

قرآن کیسی کتاب ہے؟ آپ کی آنکھوں کے آگے کہف، یس، دہر کے قصے آتے ہیں۔ مشک و عنبریں سے معطر وہ سنہری حروف مسکراتے چلے آتے ہیں۔
”تم شکر ادا کرو گے تو اور دیا جائے گا۔ “
”عن قریب تمھارا رب تمھیں اتنا دے گا کہ خوش ہو جاؤ گے‘‘۔
کتنی ہی بار قرآن نے آپ کے بے قرار دل کو کس طور ڈھارس دی تھی۔ آپ کو سب یاد آتا ہے۔ آپ بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں: بہترین! واللہ! بہترین!
اور آپ کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ قرآن کی آیت بھی یہی ہے:

”قالواخَیۡرًا
’’وہ کہتے ہیں بہترین چیز اتری ہے‘‘۔
آپ حیرت اور خوشی میں گم آگے سنتے جاتے ہیں:
”لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا
’’ایسے بہترین لوگوں کے لیے‘‘۔
آپ کی حیرتیں سوا ہو رہی ہیں۔ آپ کو بہترین لوگ کہا جارہا ہے۔ محسن، شان دار‌، نیکو کار!

”اس طرح کے نیکو کار لوگوں کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ بڑا اچھا گھر ہے متقیوں کا‘‘!
حیرتیں اگر بارش ہوتیں تو آپ بہہ چکے ہوتے۔ روشنی ہوتی تو آپ صورتِ خورشید ہو چکے ہوتے۔
کہنے والا ہے کہ کہتا چلا جا رہا ہے:
”دائمی قیام کی جنتیں، جن میں وہ داخل ہوں گے، نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اور سب کچھ وہاں عین ان کی خواہش کے مطابق ہو گا۔ ایسی جزا دیتا ہے اللہ متقیوں کو‘‘۔

آپ سنتے جا رہے ہیں۔ بہتے چلے جارہے ہیں۔ کہنے والے کے الفاظ بھی ہیں کہ امڈے چلے آرہے ہیں:

”ان متقیوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کر رہے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں سلام ہو تم پر، جاؤ جنت میں اپنے اعمال کے بدلے‘‘۔
(النحل: 30۔ 32)

چھپر پھاڑ کر دینا تو سنا تھا۔ مگر یہ دو جہانوں کے چشمہ‌ٔ کرم جس پہ بہا دیے گئے وہ آپ ہیں۔ دینے والے نے چھوڑا کیا؟ شان دار زندگی، قابلِ رشک موت، کمال ابدی حیات، رحمتوں کی برسات۔ آپ بہہ رہے ہیں مسلسل۔ آنکھوں سے چشمہ جاری ہے۔ دل پگھل پگھل رہا ہے۔ آنسو ہچکیوں میں ڈھل رہے ہیں۔ لڑیاں امڈ رہی ہیں۔
دینے والے نے آپ سے مانگا بھی تو کیا؟ پوچھا بھی تو کیا؟

میرا ڈر ہے؟
میرا قرآن کیسا ہے؟
بس یہی پوچھا تھا؟
بس یہی مانگا تھا؟
وہ یوں تڑپا جاتا ہے؟ وہ ایسا ہے؟ سچ میں ایسا؟

بس اس نے یہی مانگا تھا۔ تم جیسے ہو، تم جیسے تھے، چلے آنا۔ بس مجھ سے وفا کرنا۔ خفا نہ ہو جانا۔ میرے قرآن کو، میرے مصحف کو دامن میں بسا رکھنا۔ ہونٹوں سے لگا رکھنا۔ اشکوں سے سجا رکھنا۔ عمل جتنا بھی کر پاؤ، محبت بے پناہ رکھنا۔ میرے اسلام کو، میرے رسول کو بہت ہی درجہ بڑا دینا۔ تم جہاں بھی ہو، بس میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ چھڑا جانا۔
آپ بہہ رہے ہیں۔ بہتے چلے جارہے ہیں۔ پیڑ سبز ہو چکا ہے۔ پھول کھل اٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).