سوچ کے پیوند


مشہور انگریز مضمون نگار فرانسس بیکن کہتا ہے کہ ”مطالعہ اور ادب انسان کو تہذیب سکھاتا ہے جب کہ ادب لکھنا تہذیب کو کامل کرتا ہے“۔ ذاتی طور پر مجھے ادبی ذوق رکھنے والے اور خاص کر لکھنے لکھانے والے لوگ بہت پسند ہیں اور ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت میسر آتی رہے کیونکہ ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ علم اور حکمت قدرت کے دو آفاقی تحفے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ خواہ کوئی فرد ہو یا قوم جنھوں نے قدرت کے ان آفاقی تحفوں کی قدر شناسی کی قدرت نے بھی ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔

علم یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ ”کیا“ کہنا ہے جب کہ حکمت یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ ”کب“ کہنا ہے۔ یوں توہم دوستوں اور تعلق داروں سے وقتاً فوقتاً تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں لیکن ذاتی طور پر مجھے کتاب کا تحفہ دینے والے دوست کبھی نہیں بھولتے اور اگر کوئی صاحب کتاب اپنا تحریری نسخہ اپنے ہاتھوں سے عنائیت کرے تو میرے نزدیک یہ واقعی ایک انمول تحفہ ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میرے ایک انتہائی شفیق، مہربان، ملنسار اور علم دوست ساتھی امین ترین صاحب سے کسی معاملے پر بات ہوئی تو انھوں نے مجھے بہتر راہنمائی کے لئے ایک اور دوست محمد مدثر احمد سے ملنے کا مشورہ دیا۔

گو موصوف سے یہ ایک اتفاقیہ پہلی ملاقات تھی لیکن سانجھے ذوق کی وجہ سے جلد ہی بے تکلفی میں بدل گئی اور یوں مدثر احمد سے سلسلہ جنبانی شروع ہو گیا۔ پہلی ملاقات میں انھوں نے اپنی لکھی ہوئی کتا ب بعنوان ”سوچ کے پیوند“ کا قیمتی تحفہ عنائیت کر کے ممنون کیا جو، ان کی عملی زندگی کے مشاہدے اور تاثرات پرمبنی ایک خوبصورت تحریرہے جس میں مصنف نے اپنی زندگی، ملازمت اور اندرون و بیرون ملک سیاحت کے دوران پیش آنے والے مختلف تجربات اور مشاہدات کی دانشورانہ عکاسی کی ہے۔

مدثر احمد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ایک با اخلاق، باوقاراور انسان دوست شخصیت ہیں۔ عملی زندگی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ موٹر وے پولیس میں بھی رہے ہیں اور اب بطور سیکشن افسر اور ڈپٹی ڈائریکٹر وفاقی حکومت کے متعدد محکموں اور وزارتوں میں کام کر رہے ہیں جبکہ اس دوران فلم سنسر بورڈ کے وائس چیئرمین بھی رہے۔ بقول ان کے سارا دن دفتر کی فائلوں میں گُم رہتے ہیں۔ رات کو دیر تک جاگتے ہیں اور کبھی کبھی شعر بھی کہتے ہیں۔

اس دوران ”سوچ کے پیوند“ تخلیق ہوتی گئی۔ بلا شبہ یہ ایسی کتابوں میں سے ایک ہے جس میں قاری کی دلچسپی کا تسلسل قائم رہتا ہے اور وہ ایک ہی نشست میں اسے ختم کرنا پسند کرتا ہے۔ کتاب میں واقعی مصنف کے قلم کا جادو سر چڑھ کر بولتا محسوس ہوتا ہے۔ یہ چھوٹی سی کتاب اپنے اندر بہت بڑا درد اور ایک جہان سموئے ہوئے ہے۔ اس میں علم بھی ہے اور حکمت بھی۔ مصنف نے اپنی حساسیت کو اس کتاب میں جذب کردیا ہے۔ انھوں نے کم شبدوں میں بڑی باتیں کہی ہیں اور اپنے قارئین کو زندگی کے مثبت پہلوؤں سے روشناس کرانے کی بہترین کاوش کی ہے۔

کتاب میں مختلف عنوانات کے تحت چھوٹی تحریریں ہیں اور ہر تحریر میں وہ ایک ماہر تجزیہ نگار کی طرح اپنے گردوپیش میں آنے والے مختلف واقعات اور مشاہدات کو ایک نقطہ نظر عطا کرتے ہیں۔ مدثر احمد قاری پر اپنے خیالات مسلط کرنے کی بجائے انھیں غور و فکر کے لئے موادمہیا کرتے ہیں اور یہی اس کتاب کی خاصیت ہے۔ نسل نو کی ذہنی آبیاری کے لئے یہ ایک فکر انگیزتصنیف ہے۔ اس کتاب میں ایک عام آدمی کی سادہ اندازمیں غیر رسمی باتیں ہیں جن میں سماجی، نفسیاتی اور معاشرتی حقائق کو اُجاگر کیا گیا ہے۔

بقول مصنف اس کتاب میں جہاں انسان کو عمل کی تحریک دی گئی ہے وہاں خواب دیکھنے کی بھی اجازت ہے۔ ہمارے بہت سے کامیاب اور پڑھے لکھے نوجوانوں کا المیہ یہ ہے کہ جیسے ہی انھیں کوئی ڈھنگ کی نوکری ملتی ہے وہ سب سے پہلے علم اور مطالعے کو گدھے کی طرح لات رسید کرتے ہیں اور عملی زندگی کے نام پر بے عملی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بہت سے سی ایس ایس افسران جو اس امتحان سے قبل دن رات مطالعہ میں جُتے رہتے ہیں اور دنیا جہان کے مصنفین اور کتابیں ان کی دلچسپی کا محور رہتی ہیں، نوکری ملنے کے بعد پڑھنے لکھنے کے عمل سے اُکتائے سے رہتے ہیں یعنی جس کتاب نے انھیں عزت عطا کی ہوتی ہے سب سے پہلے وہ اسی سے بے وفائی کرتے ہیں تو پھر کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی ذات کے علاوہ کسی اور سے وفا کریں گے؟

بہر حال ہر کسی کو اپنی اپنی سوچ کے پیوند گانٹھنے اور اپنی زندگی کی ترجیحات متعین کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس مادی اور فانی دنیا میں ہر شخص اپنے اپنے نشے میں مبتلا ہے۔ کسی کو ڈرگز کا نشہ ہے تو کسی کو محبت کا، کسی کو پاور کا نشہ ہے تو کسی کو خدمت کا، کسی کو دولت کمانے کا نشہ ہے تو کسی کو مطالعے کا نشہ ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے نشے میں خوش اور نشے میں سرشار دوسرے کوحسرت سے، دور سے یا غرور سے دیکھتا ہے۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ ”ہم اللہ کی اس تقسیم پر راضی ہیں کہ اس نے جاہلوں کو مال اور ہمیں علم عطا کیا۔

بے شک دولت فنا ہونے والی چیز ہے اور علم باقی رہتا ہے ”۔ صدیاں بیت گئیں لیکن سقراط، افلاطون، ارسطو، غزالی، ابن رشد اور نجانے کتنے ہی گہرے نایاب اپنے علمی ورثے کے سبب آج بھی زندہ ہیں۔ خوشی ہوئی کہ مدثر احمد ہمارے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے اعلٰی عہدوں پر اپنے اعلیٰ ذوق کو قربان نہیں کیا اور قلم اور کتاب سے دوستی کا تعلق قائم رکھا ہے۔ اپنی اس خوبی کی بنا پر وہ بجا طور پر اپنے ہم عصر سرکاری افسران کے لئے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنے تاثرات کو یوں خوبصورتی سے قلمبند کرنے کے لئے میں محترم مدثر احمد کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور ان کی مزید کامیابیوں کے لئے دعا گو ہوں۔ امید ہے کہ وہ“ سوچ کے پیوند ”کی طرز پر اپنے رشحات قلم سے ہمیں آئندہ بھی مستفید کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).