حکمِ انفاق اور ہمارا سماج


سماجی رابطے کے ایپس نے خبر اور معلومات کے پھیلاؤ کو حد درجے آسان کردیا ہے۔ مثال کے طور پر واٹس ایپ پر مختلف افراد اپنے ہم خیال احباب پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دے لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر بھی لوگ باہمی دلچسپی کی خبریں، ویڈیو کلپس سمیت مختلف مواد ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں بھی بحثیتِ مجموعی ہماری ذہنی پسماندگی اور تعصبات کے عملی مظاہرے دیکھے جاسکتے ہیں۔ جھوٹ، من گھڑت خبروں اور واقعات، لغویات اور فضولیات کو اس دھڑلے سے پھیلایا جاتا ہے کہ سچ اور دلیل اس کا سامنا کرنے سے قاصر ہیں۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ ایسے سنجیدہ اور صاحب علم افراد بھی ہیں جو ایسی ایسی خاصے کی چیزیں سماجی رابطوں کے ذریعے پھیلاتے ہیں جو علم اور معلومات میں بے پناہ اضافہ کرتی ہیں۔ لیکن یہاں ایک پہلو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ زیادہ تر مواد کے بارے میں ہمیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ مقرر کون ہے، تحریر یا شعر کس کا ہے، اقتباس کس کتاب سے لیا گیا ہے وغیر ہ وغیرہ۔ بنیادی طور پر یہ کوتاہی اور تساہل اس فرد سے ہوتا ہے جو اس کو سب سے پہلے پھیلاتا ہے۔

چند روز قبل ایک ویڈیو کلپ واٹس ایپ پر موصول ہوا۔ جس میں نباتیات کے ایک پروفیسر جو اپنے لب و لہجے سے ہندوستان کے باسی لگتے ہیں، اپنے ایک لیکچر میں ایک پودے کی مثال دیتے ہوئے اسلام کے انفاق فی سبیل اللہ کی تشریح فرما رہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پودے کی سبز پتیوں میں فوٹو سنتھیزز کا عمل ہوتا ہے۔ اس عمل میں پودا زمین سے پانی جذب کرتا ہے، ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتا ہے۔ سورج کی روشنی کی مدد سے پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ مل کر گلوکوز (شکر) بناتے ہیں اور یہ عمل ہر سبز پتی میں جاری رہتا ہے۔ پودے کے وہ حصے جو سبز نہیں ہیں اور زمین کے اندر ہو تے ہیں ان میں فوٹو سنتھیزز کا عمل نہیں ہوتا اور وہ شکر نہیں بنا سکتے۔ جو سبز پتیاں فوٹو سنتھیزز کے ذریعے شکر بناتی ہیں وہ اس شکر کو فوراَ شاخوں اور جڑوں کو منتقل کردیتی ہے۔ یہ سارا عمل نفوذ پذیری کے قانون (Law of Deffusion) کے تحت ہوتا ہے۔

جس میں ہر شے کثرت سے قلت کی جانب منتقل کی جاتی ہے۔ یعنی وسائل کوحقیقی ضرورت مندوں تک تقسیم کیا جاتا ہے۔ پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ پوری فطرت میں یہ قانون چلتا ہے اور اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 29 میں پروردگارِ عالم فرماتے ہیں کہ ”وہی تمھار ا رب ہے جس نے زمین کا سب کا سب تم سب کے لیے بنایا“ یہاں اس آیت کو پروفیسر صاحب سوشلزم کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انفاق قرآن کا حکم ہے جس کی پابندی اور اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن کیا ہم بطور مسلمان اس پر عمل کرتے ہیں؟

بدقسمتی سے جواب نفی میں ہے۔ آگے چل کر پروفیسر صاحب مزید تشریح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جوں جوں پودا بڑا ہوکر درخت کی شکل اختیار کرتا ہے تو شکر اس قدر زیادہ ہوجاتی ہے کہ پتی، شاخوں اور جڑوں کی ضروریات پیدا کرکے بھی بچ جاتی ہے تو پتیاں وہ شکر پھل یا اناج کو متنقل کردیتی ہیں تاکہ خلقِ خدا حسب ِضرورت اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس سارے عمل میں پتی کہیں نہیں کہتی کہ اس شکر پر تو صرف میرا حق ہے اسے تو میں نے اپنی محنت سے بنایا ہے۔

میں اسے دوسروں کو کیوں دوں۔ یہ مجھ پر میرے رب کا فضل ہے جیسا کہ ہمارے یہاں عام رواج ہے کہ بڑے بڑے محلات بنا کر اس پر ہذا من فضل ربی لکھ کر رب کا شکر ادا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن آس پڑوس اور قرب وجوار میں موجود مسکینوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی خبر گیری اور ان کی تکالیف رفا کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔

حقیقیت یہ کہ ہمارے دین میں جن نیکیوں کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی ہے انفاق فی سبیل اللہ ان میں سے ایک ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ قرآن حکیم جب پورے دین کا خلاصہ پیش کرتا ہے تو نماز اور زکوۃ کا ذکر کرتا ہے۔ انفاق انسان کے باطن اور ظاہر دونوں کی پاکیزگی کا سبب ہے۔ کیونکہ وہ انسان جو اپنی محنت کی کمائی سے اپنے آس پڑوس، عزیزوں، رشتہ داروں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے تو اپنے دیگر معاملات میں بھی اپنے پروردگار کی ہدایات کا پابند رہتا ہے۔

جیسا کہ ہمارے پیغمبرﷺ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ عام طورپر اور خاص کر رمضان میں آپ کی کیفیت چلتی ہوئی ہوا کی طرح ہوجاتی تھی یعنی آپ اس قدر فیاضی سے خرچ کرتے کہ محسوس ہوتا کہ فیاضی اور سخاوت کا دریا بہہ رہا ہے۔ سورہ بقرہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی خوبصورت تمثیلوں کے ذریعے انفاق کی فضیلت کے بارے میں فرماتا ہے کہ اگر تم نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہے تو اللہ اس کو سات سو گنا بڑھا کر اجر عطا فرمائے گا۔ ہر انسان کو جب اللہ تعالیٰ کوئی نعمت عطا فرماتا ہے تو اس کو چاہیے کہ اپنے بھائیوں، پڑوسیوں، رشتہ داروں اور ضرورت مندوں میں اس احساس سے تقسیم کرے کہ یہ جو چکھ بھی اللہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمایا ہے کہ اس ذاتی صلاحیتوں کی بجائے پرودگار کا خاص کرم ہے۔

سوویت یونین کا زوال ہوا تو ناقدین نے ایک تنقیدی نکتہ یہ بھی پیش کیا کہ چونکہ یہ سارا نظام جبر پر مشتمل تھا جو فرد میں خدمت اور مدد کا جذبہ پیدا نہیں کرسکا تھا اس لیے یہ نظام سماج قائم نہیں رہے سکا۔ لیکن قرآن حکیم کی واضح تعلیمات اور رسول اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ کے باجود ہم میں بھی یہ جذبہ مفتود نہیں تو انتہائی پست درجے پر ضرورہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ میں طبقاتی تقسیم دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ دلچسپ بات یہ دیکھنے میں بھی آئی کہ ٹھنڈے گرم مشروبات کی مختلف ملٹی نیشنل کمپنیاں جو پاکستان میں اپنی مصنوعات بیچ کر منافع ملک سے باہر لے جاتی ہیں، وہ بھی اکثر و بیشتر فلاحی منصوبے شروع کرتی ہیں لیکن یہ منصوبے فلاحی کم اور اشتہار بازی کے حربے زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ انفرادی سطح پر بھی کم و بیش یہی معاملہ ہے کہ اپنے عزیز اور رشتے دار کی خاموشی سے مدد کی بجائے وہاں پیسے خرچ کیے جاتے ہیں جہاں داد نقد ملے۔

معاشرے میں پنپتے یہ رویے ہماری مذہبی جماعتوں اور تبلیغی حلقوں کے لیے لمحہ ء فکریہ ہیں جو بدقستمی سے اقتدار اور شہرت کے حصول میں اس قدر مشغول ہیں کہ خراب حالوں سے تعلق اور ان کی حقیقی ذمہ داریاں پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ بقول احمد فراز مرحوم کہ :

مگر یہ مفتی و واعظ یہ محتسب یہ فقیہہ
جو معتبر ہیں فقط مصلحت کی چالوں سے

خدا کے نام کو بیچیں مگر خدا نہ کرے
اثر پذیر ہوں خلقِ خدا کے نالوں سے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).