صدیوں پر محیط وہ دس منٹ


یوں تو پوری سردیاں ہی اپنے جلو میں اداسی لے کر آتی ہیں، مگر نجانے دسمبر میں ایسا کیا راز پنہاں ہے کہ اداسی کو سوا کر دیتا ہے۔ برصغیر کے شاعر نے ہی دسمبر کی اداسی کو لفظوں کی چادر چڑھانے کی روایت ڈالی کیونکہ شاعر حساس ہوتا ہے۔ کامران احمد قمر بھی اک شاعر ہے اور یہ دسمبر اسے سچ مچ اداس کر گیا ہے ستائیس دسمبر کو پورا ملک اداس ہوتا ہے کیونکہ اس دن محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تھا۔ اس بار کا ستائیس دسمبر کا سورج حسب معمول ڈھیر ساری اداسی لے کر طلوع ہوا ہی تھا کہ ہمیں اطلاع ملی کہ ہمارے بھائی ہمارے بھائی اردو کے منفرد لب و لہجے کے شاعر کامران احمد قمر کی اہلیہ کینسر سے زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے کامران قمر کو تین معصوم بچوں کی ذمہ داری سونپ کر زندگی کے لق و دق صحرا میں اکیلا چھوڑ کر داغ مفارقت دے گئیں۔

کامران اک حساس شخص ہے، جس کی کل کائنات، جس کی زیست کا حاصل، جس کا سرمایہ جان، جن کی محبوبہ ان کی اہلیہ ہی تھیں اور پچھلے دو ماہ میں جب سے اس مرض نے بھابھی کے خون کے خلیوں کو کھانا شروع کیا تھا، تب سے کامران قمر پے در پے ذہنی مشقتوں اور اذیتوں کا شکار رہا ہے۔ تشخیص کے بعد سے کامران بھائی کو گھر میں بیٹھنا نصیب نہیں ہوا متوسط طبقے کے گھرانوں میں شادی و یا بیماری کسی امتحان سے کم نہیں ہوتی، اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل تر ہو جاتا ہے۔

اسی بھرم کو قائم رکھنے کی امید میں بھابھی کو لے کر شوکت خانم ہسپتال پہنچے، راستے بھر ان کو تسلیاں دیں کہ پریشان نہیں ہونا میں موجود ہوں، اگر اللہ کی رضا شامل حال رہی تو اپنی طرف سے کوئی کسر روا نہیں رکھی جائے گی۔ نجانے کیوں شوکت خانم والوں نے انکار کر دیا۔ امید کا اک در بند ہوا لیکن یہاں سوال اپنی روح کی ساتھی کا تھا۔ پاکستان بھر کے اعلیٰ ترین ہسپتال کے متعلق معلومات لی گئیں اور راولپنڈی سی ایم ایچ کا رخ کیا۔

ریڑھ کی ہڈی کے گودے نے خون کے خلیے بنانے بند کر دیے تھے، نیا گودا ٹرانسپلانٹ کیا جا سکتا تھا، جس کا خرچ چالیس لاکھ روپے تک آ سکتا تھا۔ کامران قمر نے یہ سوچ کر کہ اگر ڈاکٹرز نے کہا پیسے جمع کراؤ ٹرانسپلانٹ کرنا ہے تو میں بیٹھ کر سوچتا نہ رہوں کہ پیسوں کا انتظام کیسے ہو گا، لہذا حفظ ما تقدم کے طور پر گھر پر برائے فروخت کا بورڈ چسپاں کیا اور اپنی زندگی کے اک حصے کو بچانے کے لیے سی ایم ایچ جا پہنچے۔ ڈاکٹرز نے کیمو تھراپی کا پہلا سیشن کیا، اک ہفتہ انتظار کیا گیا، اس اک ہفتے میں انہوں نے بھابھی سے دنیا جہان کی باتیں کر ڈالیں، تمام حفظ لطیفے سنا ڈالے، تمام یاد حکایتیں سنا ڈالیں، لیکومیا سے نجات پا جانے والے مریضوں کی کیس سٹڈیز تک بیان کر ڈالیں۔

یہ ان کی اسی محبت و توجہ کا نتیجہ تھا کہ بیماری چونسٹھ فیصد سے چار فیصد تک سمٹ گئی۔ اس بیچ چند دنوں کے لیے معصوم بچوں کو سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کرا کے ماں سے ملایا بیمار ماں کی ننھے فرشتوں کو چھونے کی ان کے جسم کے لمس ان کے بوسوں کی حدت کو محسوس کرنے کی خواہش پوری ہوئی اور بے چین ممتا کو قرار آئے۔ ماں سے دور رہتے بچوں کے کملائے اور مرجھائے چہرے کھل اٹھے۔ پھر دوسری کیمو ہوئی اور جسم تقریباً کینسر فری ہو گیا۔

احباب و اقارب نے طمانیت کی سانس لی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ روز وفات سے دو دن قبل بھابھی کو آنتوں کا انفیکشن ہوا، کینسر سے لڑتے جسم کی مدافعت پہلے سے زیرو تھی، انفیکشن کنٹرول نہ ہو سکا۔ ڈاکٹرز نے مریضہ کو وینٹی لیٹر پر منتقل کرنا چاہا تو بلڈ پریشر نے دغا دے دیا۔ طبعیت کچھ ایسی بگڑی کہ سدھار آ کر نہ دیا یہاں تک کہ فرشتہ اجل آ پہنچا۔ بھابھی اکثر کامران بھائی سے کہا کرتی تھیں کہ جب ان کو موت آئے تو میرے مجازی خدا میرے قمر کی آغوش میں آئے کیونکہ ایسی عورت کی بخشش کی نوید ہے۔

بھابھی کی خواہش پوری ہو گئی، مگر کامران بھائی کس کرب سے گزرے اور کس اذیت سے گزر رہے ہیں اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ ”جس تن لاگے سو تن جانے“ اک پورا دن بھابھی نے کرب و بے چینی میں گزارا، اکھڑتے سانسوں کی دھونکنی ان کو ایکدم سے بستر مرگ سے اٹھنے پر مجبور کرتی اور اگلی ہی ساعت میں وہ بستر پر ڈھے سی جاتیں۔ اس وقت جب وہ کامران بھائی کو دیکھتیں تو ان کی آنکھوں میں کرب دیکھ کر کامران بھائی بے بسی کی اس انتہا پر پہنچ جاتے، جس پر کوئی بھی انسان اپنے کسی پیارے کو اذیت میں مبتلا دیکھ کر ہوتا ہے۔

 بھاگ بھاگ جاتے اور ڈاکٹرز کو بلاتے کہ خدارا اس کے سانسوں کو ترتیب میں لاؤ ان کی دنیا بے ترتیب ہوئی جاتی ہے۔ قرب الموت ماں نے جوان عمری میں جب اپنی موت کا یقین کیا ہو گا، کامران بھائی کو بچوں کی ’پارت‘ دی ہو گی، جگر گوشوں کو دیکھنے کی خواہش کی ہو گی، انہیں چھونے کے ارمان کا اظہار کیا ہو گا، اپنے شریک حیات کے ساتھ خوشیوں بھرے لمحات کو یاد کیا ہو گا ان لمحات کی سفاکی کا اندازہ لگانا بھی دردناک ہے۔

پھر اک وقت ایسا آیا کہ تکلیف کی شدت نے ان سے ان کے حواس چھین لیے، اس مقام پر بھی باوفا ساتھی نے کامران بھائی کی ہر پکار، ہر منت، ہر آواز پر جسم کی تمام تر توانائیاں مجتمع کر کے ہر بار ہوں ہوں کی آواز میں ہی سہی جواب ضرور دیا۔ یہاں تک کہ وقت کی مہلت ختم ہوئی۔ حیات، شریک حیات کا ساتھ چھوڑ گئی۔ کامران قمر کی، بخت زہرا کی، عون کی، ہادی کی، کائنات چھین لی گئی، ان کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ رسم دنیا نبھانے کی خاطر ہم کامران قمر کو پرسہ دینے حاضر ہوئے، مشیت ایزدی پر راضی حساس کامران قمر بچوں کے سامنے مضبوط نظر آئے، مگر ان کی آنکھ میں تیرتے آنسو جیسے کہتے ہوں ”میرا نقصان تو دیکھو محبت گمشدہ میری“۔

اعجاز خان گورمانی ہمارے دوست ہیں، دنیا گھوم چکے ہیں، اہل علم ہے، سائنس سے خاص شغف ہے۔ انہوں بتایا کہ بنیادی طور پر انسان اپنے دماغ میں بستا ہے۔ باقی جسم اضافی ہے۔ جب تک دماغ زندہ ہے تب تک انسان زندہ ہے۔ کیونکہ انسان کی یاداشت اس کی ’میں‘ ، اس کی شخصیت، اس دماغ میں مکین و مقید ہے۔ جب اک انسان کی موت ہوتی ہے، تو تمام اعضا ناکام ہونے کے بعد بھی دماغ دس منٹ تک زندہ رہتا ہے۔ اور یہ دس منٹ انسان کی زندگی کے طویل ترین دس منٹ ہوتے ہیں۔

چونکہ جسم کو دماغ کنٹرول کرتا ہے۔ جب موت آتی ہے تو اعضا کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ دماغ ان کو سگنل بھیجتا ہے جب وہ اک اک کر کے ریسپانس کرنا بند کر دیتے ہیں۔ تو دماغ اپنے آپ کو سیکیور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے وہ اپنے اک اک خلیے کو ری چیک کرتا ہے کہ وہ کام کر رہے ہیں یا نہیں۔ اور اس چیکنگ میں انسان بچپن سے لے کر موت تک کے پورے سفر کو دوبارہ دیکھتا ہے۔ بعض اوقات تو کئی کئی بار دیکھتا ہے باہر کی دنیا کے دس منٹ اس انسان کے لیے جیسے صدیوں پر محیط ہوتے ہیں۔

ان صدیوں میں انسان بھول چکی اچھی بری تمام یادوں کو دوبارہ جیتا ہے۔ اگر انسان نے زندگی میں اچھے کام کیے ہوں گے تو وہ دس منٹ اس کے لیے طمانیت کا باعث بنیں گے۔ اگر انسان نے برے اعمال کیے ہوں گے کسی دوسرے انسان کو دکھ پہنچایا ہو گا، کسی پر ظلم کیا ہو گا تو وہ دس منٹ کس قدر اذیت ناک ہوں گے، اس کا تصور کرنا محال ہے۔ دماغ اس موقع پر پچھتاوے کا اظہار کرتا ہے، مہلت طلب کرتا ہے کہ کاش اک موقع ملے تا کہ وہ اس ظلم سے باز رہے سکے، مظلوم کے پاؤں پکڑ سکے، اس سے معافی طلب کر سکے، مگر افسوس اس مقام پر آنے کے بعد کوئی مہلت نہیں ملتی۔

 قطع نظر اس کے آپ کافر ہو یا مسلمان ہندو ہو یا سکھ عیسائی ہو یا ملحد آپ نے ان آخری دس منٹوں پر محیط صدیاں جینی ہی ہیں۔ لہذا انسان کو بلاکسی مذہبی و مسلکی تفریق کے عمل صالح کرنا چاہییں اللہ تعالٰی کا فرمانا ہے کہ جب انسان قرب الموت ہوتا ہے تو وہ مہلت طلب کرتا ہے تاکہ وہ خیرات کر سکے اور مساکین کو کھانا کھلا سکے لہذا جب تک مہلت ہے تو خیرات کریں، صدقہ دیں، غریبوں کی مدد کریں، بھوکوں کو کھانا کھلائیں۔ انسان اور انسانیت کے لیے سراپا محبت بن جائیں جیسے نبی آخرالزماں حضرت محمدؐ کی سیرت طیبہ ہمیں سکھاتی ہے کیونکہ اللہ پاک حقوق اللہ تو معاف کر دے گا مگر حقوق العباد پر کوئی چھوٹ نہیں مزید صدیوں پر محیط وہ دس منٹ بھی موت کی طرح اک اٹل حقیقت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).