سوال تو اٹھیں گے!


کرپشن ایک کثیر المعانی اور وسیع المفہوم لفظ ہے۔ لیکن ہم میں سے اکثر اسے صرف مالی معاملات میں خرد برد اور غبن کی حد تک لیتے ہیں۔ کرپشن کو ہم نے بدقسمتی سے سیاسی نعرہ بنا کر محض سیاستدانوں کو غیض و غضب کا نشانہ بنانا شروع کر رکھا ہے۔ کچھ لوگ کرپشن کو مذہبی و اخلاقی مسئلہ بنا کر اسے اسلامی تعلیمات سے ناآشنائی کا شاخسانہ بھی قرار دیتے ہیں۔ مگر سماجی اور معاشرتی علوم کے ماہرین اسے سماجی مسئلہ قرار دیتے ہیں اور کسی بھی سماج میں اس کی کمی یا سنگینی کو سماجی شعور اور اخلاقی تربیت کے کمتر یا بہتر معیار سے جوڑتے ہیں۔

کرپشن کے درج ذیل معنی ہیں۔ بے ایمانی، بداخلاقی، بد قماشی، بددیانتی، حقوق غصب کرنے کا عمل، چوری، بدعنوانی، رشوت، ناپاکی، گمراہی، سڑن، گلن، خرابی، بے حیائی، زبان کا بگاڑ، بدکرداری، بداعمالی، بدخصلتی، خیانت وغیرہ۔ موجودہ حکومت کرپشن کی بیخ کنی ہی کے نعرے پر الیکشن جیت کر آئی ہے اور حکومت میں آنے کے بعد مالی کرپشن کے خلاف جہاد کرنے پر پوری تندہی سے کمربستہ ہونے کا بار بار اعادہ کر رہی ہے۔ اگر کرپشن کے درج بالا معانی دیکھیں جائیں تو اس کی بیشتر شکلیں ہمارے سماجی نظام اور رویوں سے منسلک دکھائی دیں گی۔

ماہرین سماجیات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ کرپشن ہمہ جہت مسئلہ ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص مالی امور میں تو اجلا اور صاف ستھرا ہو مگر اخلاقی معاملات میں بگڑا ہوا ہو۔ اخلاقی حوالے سے کرپٹ آدمی ہر معاملے میں کرپٹ ہو گا اور اخلاقی حوالے سے دیانتدار فرد ہر لحاظ سے دیانتدار اور ایماندار ہو گا۔ اسی بات کو شاعر نے بڑی خوبصورتی سے اس طرح بیان کیا ہے

سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا

جو لوگ اخلاقی اور شخصی کرپشن کی غلاظت کو ذاتی مسئلہ قرار دے کر صرف مالی کرپشن کی بات کرتے ہیں وہ دنیا کے بڑے بڑے مصلحین، قائدین اور پیشواؤں کے اعلٰی کردار اور اخلاق کے اجلے پن کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ لیکن اگر کرپشن کی صرف یہی صورت مراد لیں جو موجودہ حکومت اور اس کے معاونین و مددگار لے رہے ہیں تو بھی بڑی مشکوک اور مخدوش صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ اس حکومت، عدل و انصاف اور کرپشن کی بیخ کنی کرنے والے اداروں کا ہدف ایک سیاسی پارٹی بالخصوص اور دوسری بالعموم ہدف بنی ہوئی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ مالی کرپشن ختم کرنے کی دعویدار حکومت خود بے شمار اخلاقی، سماجی اور سیاسی ضابطے اور اصول بری طرح پائے مال کرکے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئی ہے۔ آتے ہی ایک حریف سیاسی پارٹی کے درجنوں قائدین گرفتار کر لیے۔ رہی سہی کسر عدالت عالیہ نے نکالی جس نے قومی و صوبائی اسمبلی کے کئی ارکان اور سینیٹروں کو توہین عدالت کے نام پر پانچ پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دے دیا۔ جب کہ ایسے ہی کیسوں میں حکمران جماعت کے عامر لیاقت جیسے لوگوں کو معاف کردیا۔

کرپشن کے خلاف حکومت، نیب اور عدالتی کارروائیوں پر اپوزیشن پارٹیوں سمیت ملک کے تمام طبقوں کو واضح تحفظات ہیں۔ اگر احتساب کا جاری عمل غیرمنصفانہ، انتقامی اور یک طرفہ ہو گا تو اندرون و بیرون ملک سوال تو اٹھیں گے۔ ہماری عدالتیں مشرف جیسے آمر کو باہر بھیج کر نواز شریف خاندان کو کٹہرے میں کھڑا کریں گی تو سوال تو اٹھیں گے۔ کرپشن کے الزام میں ن لیگ کے کھوکھر برادران اور جنرل کیانی کے بھائیوں کے ساتھ بالکل متضاد سلوک روا رکھا جائے گا تو سوال تو اٹھیں گے۔

سابق وزیراعظم، ان کی پارٹی اور خاندان کے خلاف تو کڑے احتساب کا ڈنڈا لہراتا رہے گا مگر موجودہ وزیراعظم کے خلاف ہیلی کاپٹر کیس، بنی گالہ محل کیس، ہتک عزت کے کیس، بیرون ملک پارٹی فنڈنگ کیس اور سیتا وائٹ کے کیس پر چپ سادھ لی جائے گی تو اپوزیشن اور غیر جانبدار حلقے سوال تو کریں گے۔ ایون فیلڈ، فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرینسوں کے حوالے سے تو نواز اور ان کے بیٹوں سے منی ٹریل مانگی جائے گی مگر علی ترین جیسا طالب علم ایک ارب کی ٹیم خریدے اور اس سے کچھ نہ پوچھاجائے تو لوگ کیسے خاموش رہیں گے؟

آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں شہباز شریف کو دو ماہ قید رکھا جائے مگر مالم جبہ کرپشن کی 275 ایکڑزمین کے حوالے سے ”کے پی کے“ کے سابق وزیراعلٰی سے صرف نظر کر لیا جائے تو اسے کون بے لاگ احتساب مانے گا؟ ن لیگ کے لوگوں کی کرپشن ضرور سامنے لائیں مگر یہ بھی تو بتائیں کہ توقیر صادق کے 82 ارب، گوندل برادران کے 42 ارب، چودھری برادران کے 2 ارب 42 کروڑ روپے، مشتاق رئیسانی کے 65 کروڑ روپے، فیصل واؤڈا کی لندن میں جائیدادوں، علیمہ خان اور عظمٰی خان کے مبینہ طور پر اربوں روپے، علیم خان کی ہوشربا کرپشن اور قبضہ کارروائیوں کی داستانوں اور بابر اعوان کے خلاف قائم ریفرینسز کے حوالے سے کب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گا؟

نیب کی عجلت پسندی، غیر پیشہ ورانہ طریق کار اور عالمی قوانین سے ناآشنائی کے سبب لندن کی عدالت نے براڈ شیٹ کیس ہارنے پرپاکستان کو دو کروڑ دس لاکھ ڈالرز جرمانہ عائد کردیا ہے۔ یہ جرمانہ بھرنے کے لیے ایک اور ہمہ گیر اور بین الاقوامی چندہ مہم کے اجرا کی ضرورت ہے۔ جب عدالت عالیہ سے زلفی بخاری کے دہری شہریت کیس پر ن لیگ کے سینیٹروں اور اراکین پارلیمنٹ کے برخلاف ”شوربہ حلال، بوٹی حرام“ کے مصداق متنازعہ فیصلہ آئے گا تو سوال تو اٹھیں گے۔ اگر نئے پاکستان والوں نے واقعی نئے پاکستان کی بنیاد رکھنی ہے تو انتقامی کے بجائے بے لاگ احتساب کے تاثر کو کماحقہُ زائل کرنا ہوگا ورنہ سوال تو اٹھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).